اساتذہ کا آرام
اساتذہ کا آرام
تحریر: پروفیسر صائمہ جبین مہک
جی جناب، اسکول بند ہیں اور ہم ”آرام فرما” ہیں! سننے میں کتنا اچھا لگتا ہے نا؟ جب اسکول بند ہوتے ہیں، تو ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ اساتذہ اب چھٹیوں کا مزہ لے رہے ہوں گے، آرام کر رہے ہوں گے، اور گھر میں سکون سے وقت گزار رہے ہوں گے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دراصل، یہ ”آرام” نامی لفظ صرف ایک دھوکہ ہے۔ اسکول بند ہونا اساتذہ کے لیے آرام کا نہیں بلکہ ایک نئے طوفان کا آغاز ہوتا ہے۔سب سے پہلے تو ہمیں والدین کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اسکول بند ہوتے ہی بے چین ہو جاتے ہیں۔ جیسے ہی اسکول کی چھٹی کا اعلان ہوتا ہے، والدین فوراً متحرک ہو جاتے ہیں۔ فون، واٹس ایپ، ای میل ہر طرف سے ایک ہی سوال آتا ہے: ”استاد جی، اب کیا بنے گا بچوں کا؟” جیسے ہم ہی ان کے بچوں کی زندگی کا واحد محور ہوں! والدین کو ہر وقت یہی فکر لاحق ہوتی ہے کہ اسکول بند ہونے کے دوران ان کے بچوں کی پڑھائی ضائع نہ ہو جائے۔
آن لائن تعلیم کے دور میں، ہم نے یہ سیکھ لیا ہے کہ استاد کبھی آرام نہیں کر سکتا۔ جیسے ہی آپ تھوڑا سا سکون سے بیٹھتے ہیں، فوراً آن لائن کلاس کا نوٹیفکیشن آتا ہے: ”میڈم، بچے ویڈیو آن نہیں کر رہے، اور نیٹ بھی نہیں چل رہا!” اور آپ سوچتے ہیں کہ اگر بچوں کا نیٹ نہیں چل رہا تو میرا کیا قصور؟ اس سب کے بعد، ہم آرام کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پھر بچوں کے والدین کے میسجز آتے ہیں کہ ”آن لائن کلاس میں میرے بچے کو یہ سوال سمجھ نہیں آیا!”اب ہم انہیں کیا سمجھائیں کہ ہمارے لیے بھی یہ وقت نیا ہے؟ وہ سمجھتے ہیں کہ استاد کے پاس جادو کی چھڑی ہے جو بچوں کو بغیر اسکول بھیجے سب کچھ سکھا دے گی۔ ہمیں تو ہر روز یہ سننا پڑتا ہے: ”سر/میڈم، کیا آپ ہمارے بچوں کو آن لائن پڑھا سکتے ہیں؟” جیسے ہم 24/7 دستیاب ہوں!
اسکول بند ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اساتذہ کی مصروفیت کم ہو جاتی ہے۔ اصل میں، واٹس ایپ کا فتنہ ہر طرف چھا جاتا ہے۔ واٹس ایپ پر والدین اور اسکول کی انتظامیہ کا دباؤ کم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ والدین بچوں کے ہوم ورک کے بارے میں سوالات کرتے ہیں، اور اسکول انتظامیہ نئی ہدایات دینے میں مصروف ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہماری نیند کا دشمن اب یہ واٹس ایپ بن چکا ہے۔
رات کو سونے سے پہلے بھی یہی سوچتے ہیں کہ کل کون سی نئی میسجنگ جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا، اور دن میں کوئی ایک پل بھی سکون کا نہیں ملتا کیونکہ ہر تھوڑی دیر میں موبائل کی گھنٹی بجتی ہے: ”میڈم، میرا بچہ یہ سوال نہیں سمجھ پایا۔جب اسکول بند ہوتے ہیں، تو ہم میں سے اکثر اس خیال میں ہوتے ہیں کہ چلو اب کچھ دن آرام ملے گا۔ لیکن یہ صرف خواب ہوتا ہے۔ جیسے ہی ہم سوچتے ہیں کہ آج کچھ دیر سکون سے بیٹھ کر چائے پی لیں، بچے فوراً آ کر کہتے ہیں: ”سر/میڈم، یہ سوال نہیں سمجھ آیا۔” اور ہم اپنے ”آرام” کو ایک بار پھر ملتوی کر دیتے ہیں۔
وہی بچے جو کلاس میں ہمیں سوالات سے پریشان کرتے تھے، اب گھر میں ہمارے سر پر سوار ہیں۔ ہمیں انہیں سبق یاد کروانا پڑتا ہے، ان کے پروجیکٹ بنوانے پڑتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ اپنے گھر کے کام بھی دیکھنے پڑتے ہیں۔
گھر میں تو ایک الگ طرح کا اسکول کھل جاتا ہے۔ پہلے بچوں کو اسکول کی یونیفارم میں سنبھالنا مشکل تھا، اب پاجامے اور ٹی شرٹ میں انہیں تعلیمی موڈ میں لانا مشکل ہے۔
لوگ اکثر کہتے ہیں کہ اسکول بند ہیں تو اساتذہ کو چھٹی مل گئی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم پر ”چھٹی” کے دنوں میں بھی کام کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ آن لائن کلاسز، والدین کے سوالات، اور انتظامیہ کی نئی پالیسیز ہمیں مسلسل مصروف رکھتی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے اسکول بند ہونے سے ہمارا کام کم ہونے کے بجائے بڑھ گیا ہے۔
آخر میں، ہم طنزیہ لہجے میں کہہ سکتے ہیں: ”جی سرکار، ہمیں کوئی مسئلہ نہیں! اسکول بند ہیں تو ہم آرام فرما ہیں!” لیکن دل ہی دل میں جانتے ہیں کہ اساتذہ کے لیے یہ ”آرام” صرف ایک سراب ہے، حقیقت میں ہم ایک نئے محاذ پر مصروف ہیں!