کمزوروں کی داد رسی کے تقاضے
انچواں درویش ۔۔۔۔عبدالعلی سید
عدالت میں ہر کام بہت حساس نوعیت کا ہوتاہے اور بہت سے لوگوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ عدالت میں ہر شخص سے یہ توقع ہوتی ہے کہ وہ عدالت کے آداب اور قوانین کے مطابق عمل کرے گا۔دوسری طرف عدلیہ کی آزادی کے لئے ججز کو کسی قسم کے دبائو ،خوف اور لالچ کے بغیر اپنے ضمیر کے مطابق آزادانہ فیصلے کرنے کا مکمل اختیار ہونا ناگزیر ہے ۔اسکے ساتھ ہر قسم کی حکومت میں عدلیہ کی آزادی کا عمومی بھرپور تاثر بھی پیدا ہونا ضروری ہے ،یعنی انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے مگر ہمارے ہاں روایت اسکے برعکس آگے بڑھائی جارہی ہے جس طرح سیاستدان الیکشن میں اپنی ہار کو تسلیم کرنے کی بجائے حکومت اور متعلقہ بااختیار اداروں پر دھاندلی کا الزام لگا کر پورے الیکشن کے پراسس کو ہی متنازع بناتے رہے ہیں ۔اسی طرح اب سیاسی جماعتوں کے ارکان اور ان سے جڑے لوگ عدالتی نظام کو متنازع بنانے کے لئے ججز پر الزام تراشی پر اتر آئے ہیں،اس حوالے ابھی گزشتہ دنوں پاکستان کے سابق وزیراعظم کی اہلیہ اپنی درخواست ضمانت پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں روسٹرم پر آ کر کہا کہ “میں انصاف کی کرسی میں بیٹھے ہوئے منصفوں کی 9 مہینوں سے ناانصافی کا شکار ہوں””میرا کمبل اور دیگر سامان گاڑی میں ہے جب آپ کہیں گے میں جیل چلی جائوں گی”۔میں اب اس عدالت میں نہیں آؤں گی، یہاں صرف ناانصافیاں ہوتی ہیں۔”اب یہ معاملہ تو ایک سیاسی جماعت کے بانی چیئرمین کی اہلیہ کا ہے ،عام لوگ تو مقدمات کی طوالت پر پہلے بیزار نظر آتے ہیں ،سیاستدانوں کے اکسانے پر عدلیہ کی غیر جانبداری پر لگنے والے الزامات کو رد کرنے کی ضرورت ہے ۔ججز کے طریقہ تقرر بکوچھی خامیوں سے پوری طرح مبرا نہیں بنایا جاسکا ۔پہلے بھی اس حوالے سے نشاندھی کرچکا ہوں کہ پاکستان کے نظام عدل کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے اصلاحات کرنا انتہائی ناگزیر ہے ۔عدلیہ سے جڑے تمام مقدمات اور معاملات کو بروقت انجام دینے کیلئے بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ،مثال کے طور پر ہم کسی بھی پولیس تھانے کے سامنے سے گزریں تو ہر تھانے کے سامنے درجنوں گاڑیاں ہوں گی جو گل سڑ گئی ہیں اور ان کے پرزے تک لوگ لے گئے ہوتے ہیں ۔ یہ ساری گاڑی اصل میں مال مقدمہ ہوتی ہیں ۔ کیس کے فیصلے تک یہ اسی حالت میں پڑی رہتی ہیں ۔ لیکن کیس کے فیصلے کے بعد ان گاڑیوں کو صرف کباڑیوں کو ہی فروخت کیا جاسکتا ہے ۔ یہی حال کسٹم کے وئیر ہاوسسز کا ہے ۔ جج صاحبان کی جتنی تعداد ہے اگر وہ روزانہ پچاس مقدمے بھی سنیں تو وہ مہینوں بعد اس کیس کی دوسری پیشی کرسکتے ہیں اس لیے کہ مقدمات کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان کا فیصلہ کرنا عملاً برسوں میں بھی ممکن نہیں ہوتا ۔ پھر غریب سائل کے مقابلے میں جو پیسے والا بندہ ہوتا ہے وہ عدالتی نظام کی مختلف ترتیبوں کا سہارا لے کر اپنے آپ کو محفوظ کرلیتا ہے اور سائل اس گھن چکر میں رل جاتا ہے ۔ اول تو ہمارے عدالتی نظام کو اب مکمل کمپیوٹر ائزڈ ہوجانا چاہئیے ۔ اور غیر ضروری مقدمہ بازی کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئیے۔ جو فیصلے عدالتوں سے آتے ہیں ان پر عمل درآمد کو ہر حال میں یقینی بنانا چاہئیے۔پورے نظام عدل کو شفاف بنانے کیلئے مقدمات کی غیر ضروری تاخیر کو ختم کرنا اولین ترجیح بنایا جائے تو معاملات کسی حد تک سلجھائے جاسکتے ہیں ۔ان حالات میں پوری قوم کی نظریں قانون ساز اداروں پر لگی ہیں ۔عدلیہ کے کردار کو غیر متنازع بنانے کی خاطر جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ غیر جانبدار اور آزاد عدلیہ کمزوروں کی داد رسی کر کے انہیں ظالم کے ظلم سے بچانے میں اپنا فعال کردار نبھاسکتے ۔