اہل اقتدار اور ھم وطن

58

اس وقت وطن عزیز میں عام عوام مہنگائی اور بجلی گیس کے بلوں کے شکنجے میں بری طرح جکڑی جا چکی ہے کیونکہ غریب ادمی یا روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے ادمی ان کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے بہت ہی مشکلات پیش ا رہی ہیں
بالخصوص بجلی کے بلوں نے تو عام عوام کی کمر ہی توڑ دی ہے اور رہی سہی کسر گیس نے نکال دی مانا کہ کچھ مشکلات ہوتی ہیں لیکن اتنی بھی اور ایسی بھی مشکلات کیا ہیں
عام عوام دو وقت کی روٹی بھی سکون سے نہ کھا سکے کا دیو غریبوں کے اور متوسط طبقے کے تمام اثاثے نکل رہا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ کھپت لوگوں کی کم ہے لیکن اوور بلنگ بہت زیادہ ہو رہی ہے جس میں بہت سے ٹیکسز شامل ہیں یعنی کچھ ایسے ٹیکسز بھی ہیں کہ جن کا وجود ہی نہیں ہے
جیسے ٹیلی ویژن ٹیکس ہے یعنی گورنمنٹ بہتر سمجھتی ہے کیونکہ ان کے پاس پورا ایک پینل ہوتا ہے پورا بورڈ ہوتا ہے جو اپنی ٹیکنو کریٹی کی وجہ سے سب چیزیں پلان کرتا ہے کہ عوام کے لیے کیا کچھ صحیح ہے کار سرکار میں مداخلت تو نہیں ہے لیکن اب گراس روٹ پہ یہ ہے کہ عوام بہت ہی پریشان ہے
کیونکہ جتنی دیر تک عوام خوش نہیں ہوگی اتنی دیر تک ملک کی صورتحال خوشحال نہیں ہو سکتی کہ لوگ جو ہیں پاکستان میں زیادہ تر متوست طبقہ ہے غریب ہے غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگ ہیں ان کی قوت خرید نہیں ہے ان کے پاس ڈیلی ویجز پر بھی روزگار نہیں ہے اگر ڈیلی ویجز پر مل جاتا ہے تو وہ پورا گھر چلانے کے لیے کافی نہیں ہے تو یا تو ایسا ہو نا کہ غریبوں کو متوسط طبقے کو مالی طور پر اتنا کچھ دیا جائے جیسے اور مختلف ممالک بھی کرتے ہیں کہ ان کو اوور بلنگ محسوس ہی نہ ہو کیونکہ جب ریاست ذمہ داری لیتی ہے تو پھر سارے معاملات حل ہو جاتے ہیں حالانکہ مہنگائ بے روز گاری غربت مفلسی مفلوک الحالی پر قابو پانا حاکم وقت کے لئے کوئ مشکل نہیں کیونکہ اس نے بس آرڈر کرنا ھوتا ھے اور اس آرڈر کو لاگو کروانے والے لائن لگائے کھڑے ھوتے ھیں انہوں نے فیلڈ افسران ڈیوٹی لگانی ہوتی ہے اپ جائیں فیلڈ میں چیک کریں کہ جو حکومت کی طرف سے نرخ مقرر کیے گئے ہیں کیا تاجر یا دکاندار انہیں نرخوں پر فروخت کر رہے ہیں یعنی اصل چیز یہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر شہروں میں قصبوں میں گاؤں میں فیلڈ افسران چیک کریں کہ لاہور سے لے کے پورے پنجاب میں یا اسلام اباد سے لے کے پورے پاکستان میں ایک ہی ریٹ ہے اس کے بعد انہی چیزوں کا بیان چیک کیا جائے فوڈ پروڈکٹ جتنی بھی ہیں یا فوڈ سے وابستہ جتنے بھی لوگ ہیں سیل اینڈ پرچیز ان کا علیحدہ سے ایک چیک اپ کا سسٹم ہونا چاہیے اس کے بعد ہمیں اتنی سکت دی جائے معاشی طور پر اتنی طاقت دی جائے کہ ہم اپنے بچوں کا پیٹ پال سکے دو یا تین ٹائم کی روٹی چلا سکے اور حکومت اور فیلڈ افسران کی یہ ڈیوٹی لگائے کہ اپ نے یہ دیکھنا ہے کہ کون حکومت کے حکم کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور کون حکومت کے بتائے ہوئے یا دکان میں نصب نرخوں کے مطابق بیچ رہا ہے اس کے برعکس ائیں تو یہ بھی تجربہ کرنا پڑ رہا ہے کہ ایک ہی بازار میں اگر 10 دکانیں ہیں تو اپ جاتے ہیں چیز خریدنے کے لیے اگر ایک ادمی نے اپنی مرضی کا ریٹ لگایا ہے 50 روپے تو ایک نے 35 لگایا اب قصور کس کا ہے اس میں قصور حکومت کا نہیں ہے قصور ہے اگے بیچنے بالوں کا اب کئی لوگوں کو دیکھا گیا ہے دکانداروں کو اگر ان سے بولو کہ بھائی یہ چیز حکومت کی طرف سے لگائے ہوئے نرخوں کی وجہ سے اتنے کی ہے تو اپ اس ریٹ پر سیل کریں اگے سے جواب کیا ملتا ہے کہ بھائی اپ وہاں سے جا کے لے لیں اور یقین ڈٹائی سے کہ ادمی سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ وہ ووٹ لینے والے کہاں گئے منتخب ہونے والے کہاں گئے مکہ لہرا کر یہ کہنے والے کہاں گئے کہ ہم مہنگائی پر کنٹرول کریں گے ہم غریب کو ریلیف دیں گے جب اتنی بات عام عوام کا ادمی سنتا ہے اس کا خون کھول اٹھتا ہے کہ یار ہم نے تو منتخب کروایا تھا اپنے حقوق کے لیے کہ یہاں معاملہ ہی کچھ اور ہے ہونا تو یہ چاہیے وفاقی لیول پر خیبر سے لے کے کراچی تک اور پنجاب سے لے کے تمام صوبائی سرحدوں تک ایک ریٹ ہو ایک چیز ہو اور ایک حکم ہو اب یہاں ا کر توازن ہی بگڑ گیا کہ جس دن سے اپ نے اپنے علاقوں میں اپنے اپنے نمائندے منتخب کیے عام عوام کا کوئی پرسان حال نہیں سوال ہے کہ شہروں کے اندر بیٹھ کر پارلیمنٹ کے اندر بیٹھ کر ٹھنڈے ایئر کنڈیشن میں بیٹھ کر دعوی کرنے والے کہاں ہیں ہماری دادرسی کون سنے گا ہمارا کون پرسان حال ہوگا ہمیں تو نوچا جا رہا ہے ہماری کھال کھینچی جا رہی ہے ہم میں اب وہ سکت نہیں رہی کہ ہم بچوں کے لیے دودھ خرید سکیں بچوں کے لیے غذائی پروڈکٹ خرید سکے کہاں ہیں وہ لوگ جو گلی گلی محلہ محلہ پھرتے تھے ووٹ لینے کے لیے اور کہتے تھے کہ ہم اپ کے مسیحا ہیں ہم اپ کو ریلیف دلائیں گے مہنگائی ختم کروائیں گے یا تو یہ ہو نا کہ اتنی بڑی سیلری ہو کہ عام ادمی کو خرید کرنے میں کوئی پریشانی نہ ہو تو جب سیلری بلوں میں اور باقی دال روٹی میں چلی جائے گی تو عام ادمی کیا کرے گا کہاں جائے گا کس کے پاس دادرسی کرے گا کس کو پکارے گا کون ہوگا جو اس کی اواز سنے گا اب وقت ہے کہ جو کام گزشتہ حکومتیں نہ کر سکی یہ حکومت کر کے دکھائے اور اپنی عوام کے دل جیت کے دکھائے اور تاریخ میں آپنا نام لکھوا کر دکھائے حکومتیں اور اقتدار اتا جاتا رہتا ہے لیکن یاد انہی کو رکھا جاتا ہے جو انسانوں کے لیے اپنی جایا کے لیے قوم اور ملک کے لیے ایسی خدمت کر جاتے ہیں کہ تاریخ ان کو یاد رکھنے پر مجبور ہو جاتی ہے موجودہ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف اپنی پہلی الیکشن کمپین شروع کی ضلع شیخوپورہ کے چھوٹے شہر فاروق اباد سٹی سے تو عوام کا ایک جم غفیر تھا کہ ایک بہت بڑا لیڈر ایک اتنے چھوٹے شہر سے اپنے الیکشن کمپین شروع کر رہا ہے تو اس الیکشن کمپین میں میاں صاحب نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر اپ ہمارا ساتھ دیتے ہیں تو ہم حکومت میں ا کر اپ کا ساتھ دیں گے یعنی اپ کو ریلیف دیں گے اپ کی روزمرہ زندگی میں اسانیاں پیدا کریں گے تو اب وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کو اپنے کیے ہوئے وعدوں پر نظر ثانی کرنی ہوگی انہیں لاگو کروانا ہوگا اپنی کابینہ سے اپنے مشیروں سے ضلعی انتظامیہ سے تاکہ جن لوگوں نے میرا ساتھ دیا ہے میں ان لوگوں کی زندگیوں میں اسانیاں پیدا کروا سکوں مہنگائی پر قابو پا سکوں تاکہ عام عوام کی زندگی میں آسانی ھو اس لیول پر آکر پورے پاکستان کی عوام۔کی زندگیوں میں خوشحالی لانا حکومت کی قومی ذمہ داری ھے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.