روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں

28

تحریر:ناصف اعوان

ہمارا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں لہذا جو بھی عرض کرتے ہیں وہ کسی مصلحت کے بغیر ہوتا ہے ۔ ہمارے نزدیک عوام مقدم ہیں لہذا ان کے مسائل ان کے دکھ اور ان کی مشکلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آڑھی ترچھی لکیریں کھینچتے رہتے ہیں اگر حکمران طبقات عوامی مفاد کے برعکس پالیسیاں یا منصوبے بناتے ہیں تو ہم ان پر اصلاح کے نقطہء نظر سے تنقید کرتے ہیں اس سے پڑھنے والے یا اہل دانش وفکر یہ تاثر لیتے ہیں کہ ایسا کسی وابستگی کی بنا پر ہے تو یہ درست نہیں ۔
ہم پہلے بھی متعدد بار یہ بیان کر چکے ہیں کہ عوام کی ایک بڑی تعداد اپنے مسائل کے حل کی امید کے ساتھ کسی سیاست دان یا کسی سیاسی جماعت سے تعلق خاطر قائم کرتے ہیں مگر اگر وہ ان کی خواہشات ان کے مصائب پر توجہ مبذول کرنے کے بجائے ذاتی مفاد کو سامنے رکھتی ہےاور عوام کی آسوں کی پروا نہیں کرتی تو پھر وہ کسی دوسری طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں ۔اس وقت اگر عوام کی غالب اکثریت کا جھکاؤ پی ٹی آئی کی جانب ہے تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں ان کا یہ رجحان و سوچ اس وقت تبدیل ہو سکتا ہے جب موجودہ حکمران ان کے قریب ہوتے ہیں وہ اس طرح کہ ان کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔انہیں سہولتیں دیتے ہیں اور انہیں زیادہ سے زیادہ أسائشیں فراہم کرتے ہیں ہاں اس کے باوجود ایک محدود تعداد باقی رہے گی جو نظریاتی بنیادوں پر ہو گی ۔
اب جب ہم دیکھتے ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے ساتھ جو لوگ کھڑے ہیں تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ وہ سب کے سب نظریاتی ہیں زیادہ تر وہی ہیں جو مسائل کے مارے ہوئے ہیں غربت بے روزگاری اور ناانصافی کے ہاتھوں پریشان ہیں لہذا اگر موجودہ حکومت ان سے نجات دلاتی ہے اور انہیں یقین دلاتی ہے کہ درپیش صورت حال عارضی ہے اور وہ ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرانا چاہتی تو یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد سو چنے پر مجبور ہو جائے گی کیونکہ یہ وہ عوام نہیں جو اپنی اپنی جماعتوں سے وابستہ و پیوستہ رہیں چاہے دن اچھے ہوں یا برے ؟
شاید ”ول ڈیورنٹ“ نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا کہ ” یہ لوگ اوسط درجے کے لوگ ہوتے ہیں ان میں ندرت فکر کی صلاحیت سرے سے مفقود ہوتی ہے“
اب موجودہ حکومت جو جیسےتیسے وجود میں آئی ہے اگر عوام کو ریلیف دینے کا ارادہ کر لیتی ہے تو یقیناً سیاست کا رخ تبدیل ہو سکتا ہے یعنی عوام کی سوچ بدل سکتی ہے کیونکہ جیسا کہ ہم اوپر عرض کر چکے ہیں کہ غریب عوام کی ایک بڑی تعداد محض کسی سیاسی جماعت یا کسی سیاستدان کے پیچھے بھاگتی ہے تو اس کی وجہ ان کی خواہشات اور مشکلات ہوتی ہیں لہذا اس حکومت کو چاہیے کہ وہ سیاست میں توازن قائم کرنے کے لئے قومی خزانے سے عوام کو مستفید ہونے کا بھر پور موقع دے ۔
اس حوالے سے وہ کچھ ریلیف دینے کا ارادہ رکھتی ہے آنے والے بجٹ میں جو معاشی دباؤ عوام پر ہے اسے کم کرنے کے لئے بعض اقدامات کرنے کا بھی بتایا جا رہا ہے اگرچہ اس نے بجلی کے بلوں میں اضافے کا بھی فیصلہ کیا ہے مگر وہ دوسویونٹس مفت بھی دینے کا کہہ رہی ہے فی الحال دوسو یونٹس پرو ٹیکٹڈ کی ذیل میں آتے ہیں جن کا زیادہ سے زیادہ چوبیس پچیس سو روپے بل آتا ہے اس طرح پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں بھی کمی کی جا رہی ہے ان سطور کی اشاعت کے وقت ہو بھی چکی ہوں گی۔ایل پی جی کی قیمت میں بھی ستر فیصد کمی کر دی گئی ہے دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو بھی نیچے لایا جا رہا ہے۔سوال مگر یہ ہے کہ اگر یہ سب عارضی نہیں تو پھر کہا جا سکتا ہےکہ دن غریبوں کے پھرنے والے ہیں ڈالر کی بھی رفتار سست پڑ جائے گی یوں عوام کے چہروں پر چھائی خزاں کی سی زردی غائب ہو جائے گی اور اگر یہ سب وقتی ہے تو پھر اس کا حکمرانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ وہ اور غیر مقبول ہو سکتے ہیں کیونکہ اب عوام مسائل کا حل مسقلاً چاہتے ہیں ماضی میں انہیں عارضی ریلیف ملتے رہے ہیں مگر ان کی پریشانیاں ختم نہیں ہوئیں جس کی وجہ سے ملک میں بے چینی آخری حد سے آگے جا چکی ہے اور حکومت کے خلاف غم وغصہ پایا جاتا ہے لہذا اسے چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جس سے لوگوں کو کئی برس تک فائدہ پہنچتا رہے اس میں وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے تو اس کو سیاسی فوائد حاصل ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
بہرحال اب حکمرانوں کو مصلحتوں اور ڈکٹیشنوں کے حصار سے نکلنا ہو گا اور آگے بڑھنا ہو گااگر ان میں عوام کے لئے ہمدردی کا جذبہ ہے تو وگرنہ عمومی تاثر یہی ہے کہ حکمران محض اقتدار کی بانسری بجانے ہی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ان کی رہائش گاہیں خوابوں کے محل ترقی یافتہ ممالک میں ہیں اُدھر رہنا ہی وہ زیادہ پسند کرتے ہیں وہیں انہیں سکون ملتا ہے لہذا یہ جو ریلیف پروگرام کا آغاز ہوا ہے تو انہیں اس میں ثابت قدمی دکھانا ہو گی ۔آئی ایم ایف کو عوامی مفاد سے چشم پوشی اختیار کرنے کی کھلی چھٹی نہ دی جائے کہ اس نازک موقع وموڑ پر عوام بھڑک اٹھیں ۔
ہم یہاں یہ بھی کہے دیتے ہیں کہ لوگوں کو بھاشنوں ٹی وی چینلوں اور تحریروں سے ہم خیال نہیں بنایا جا سکتابانی پی ٹی آئی عمران احمد خان نیازی بارے جتنا بھی شور مچایا جائے بے سود ہو گا۔عوام کو صرف اور صرف اچھے مقاصد اور بڑے ریلیفوں ہی سے اپنا بنایا جا سکتا ہے لہذا حکومت کی توجہ اس نکتے پر مرکوز ہونی چاہیے تب ہی وہ سر خرو ہو گی خان کو غیر مقبول کرنے کے لئے ڈیلیور کرنے کی ضرورت ہےمنہہ زبانی اسے گمنامی کے گوشے میں دھکیلنا مشکل ہے کیونکہ لوگ دوسری طرف کیسے چلے جائیں کہ جب وہاں ان کے لئے کچھ ہو ہی نہیں۔بہر کیف یہاں ہم اہل اقتدار سے امید کرتے ہیں کہ وہ عوام کی ضروریات و احتیاجات سے بخوبی آگاہ ہیں لہذا وہ لازمی نئے منصوبوں اور سہولتوں سے عوام کے دل جیتنے کی کوشش کریں گے اور ڈکٹیشن کلچر کو ترجیح نہیں دیں گے کہ جس کی وجہ سے ملک میں معاشی بحران گمبھیر نظر آتا ہے عوام تو یہ بھی توقع کر رہے ہیں کہ وہ ایران سے گیس پائپ لائن مکمل کرکے توانائی کی قلت کو پورا کریں گے اور صنعتی انقلاب برپا کر دیں گے۔حرف آخر یہ کہ حکومت کی پالیسیوں میں بہتری کے امکانات واضح طور سے دیکھے جا سکتے ہیں جو اس کو کامیابی کا راستہ دکھا سکتے ہیں لہذا اسے اس اداس و مایوس منظر کو بہاروں کے رنگوں میں رنگنے کے لئے سخت محنت درکار ہوگی جس کے لئے وہ تیار بھی نظر آتی ہے !

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.