عدلیہ سے عوام کا پہلا رابطہ
روداد خیال ۔۔۔۔صفدرعلی خاں
پاکستان کا مہنگا اور مشکل عدالتی نظام کسی بھی متوسط شہری کے وارے میں نہیں ،مقدمات کی طوالت نے نسلیں خوار کرنے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ،پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے نامور تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وکالت شروع کردی ،آغاز اگرچہ لاہور کے نواحی شہر فیروزوالہ بار سے ہی کیا ۔۔۔۔عدالتی نظام کو بڑے قریب سے دیکھا بلکہ اس سے پالا پڑا ۔دو دہائیاں پریکٹس میں گزار کر وکالت سے بیزار ہونے کا سبب ہی درحقیقت انصاف کی راہ میں مروج رکاوٹیں بنیں ۔حق دار کی مفت داد رسی کا تو یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ہر شہری کو عدالتی نظام سے شکایت رہی ہے ۔پاکستان میں سیاست دانوں کے عدلیہ سے گلے تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، یوسف رضا گیلانی کی نااہلی سے لیکر نواز شریف کی سزا تک پاکستانی تاریخ اور سیاست متنازع عدالتی فیصلوں سے بھرپور ہے جن کے اثرات کی بازگشت آج تک ایوانوں میں سنائی دیتی ہے۔عدلیہ اور پارلیمان کے درمیان غیر معمولی محاذ آرائی سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے کچھ متنازع فیصلوں کے بعد کھل کر سامنے آئی ۔اس پر عمران خان اور ان کی جماعت نے ایک ایسے چیف جسٹس کی حمایت میں ریلیاں نکالنے کا اعلان کیا جن کو خود 15 رکنی سپریم کورٹ میں تقسیم اور اختلافات کا سامنا تھا۔پنجاب میں الیکشن کے انعقاد پر عدالتی ازخود نوٹس کے بعد تناؤ کم ہونے کے بجائے بڑھتا چلا گیا۔ پہلے حکومت میں شامل جماعتوں نے سپریم کورٹ کے بینچ پر اعتراضات کیے تو بعد میں عدالتی بینچ میں شامل ججوں کے الگ ہونے پر سپریم کورٹ کے اندر کی تقسیم واضح ہونا شروع ہوئی۔اسی تقسیم کا ایک اور ثبوت اس وقت سامنے آیا جب سپریم کورٹ کے دوسرے سینیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کے ازخود نوٹس اختیارات پر سوال اٹھایا جس کو بنیاد بناتے ہوئے حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل متعارف کروایا۔
تاہم اس سے قبل یہ بل باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کرتا، سپریم کورٹ نے حکم امتنازع جاری کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد روک دیا جسے پارلیمنٹ نے اپنے آئینی اختیارات میں مداخلت قرار دیا۔
اسی تنازعے کے دوران سوشل میڈیا پر سامنے آنی والی چند مبینہ آڈیوز نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔ ایک آڈیو میں مبینہ طور پر سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ساس جبکہ ایک اور آڈیو میں مبینہ طور پر ایک اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کی آواز تھی،دوسری جانب اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر پارلیمانی کارروائی میں عدالتی مداخلت پر شکوہ کیاتھا ۔
اس پر قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ ’سارا تنازع ایک ایسے فیصلے سے شروع ہوا جس میں چیف جسٹس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔ ان کو یہ فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘اس پر اب موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حلف اٹھانے کے بعد سب سے پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کو سماعت کے لیے مقرر کیا۔اختیارات کے اس متنازع معاملے کی سماعت تاریخ میں پہلی بار براہ راست نشر ہوئی جو اب تاریخ کا حصہ بن گئی ،
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قرار دیا ہے کہ
بینچوں کی تشکیل کے لیے سینیئر ترین ججز آپس میں مشاورت کریں گے۔ادھر سپریم کورٹ کی سماعت پر کارروائی کی براہ راست نشریات کو ملک بھر میں سراہا گیا ہے ۔چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ انکی یہ کوشش تھی کہ وہ اس کیس میں آج ہی فیصلہ سناتے ،تاہم عدالت نے ان درخواستوں کی سماعت 3اکتوبر تک ملتوی کردی ۔اب تک سپریم کورٹ کی اس براہ راست سماعت پر بھی چیف جسٹس کے اختیارات کے معاملے پر دونوں دھڑے اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں ۔آرڈر آف دی ڈے کے بعد وکلا کا ایک دھڑا کہتا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں آٹھ رکنی بینچ کی طرف سے دیا گیا حکم امتناعی عملی طور پر ختم ہوچکا ہے کیونکہ اس قانون میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس دو سینیئر ججز کے ساتھ مشاورت کے بعد بینچ تشکیل دیں گے اور موجودہ چیف جسٹس نے بھی یہی کہا ہے،جبکہ وکلا کے دوسرے دھڑے کا یہ مؤقف ہے کہ چونکہ آرڈر آف دی ڈے میں حکم امتناع ختم کرنے کا نہیں کہا گیا، اس لیے ابھی تک آٹھ رکنی بینچ کا فیصلہ برقرار ہے۔عدالتی کارروائی ختم ہونے کے بعد بھی دونوں دھڑے اپنی اپنی انتہائوں کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔ان حالات میں اب عدلیہ کے مروجہ نظام میں تو اسی طرح کے متنازع فیصلوں کی بازگشت سنائی دیتی رہے گی،ملک میں سستا ،شفاف اورکرپشن سے پاک عدالتی نظام لانے کی خاطر اب اصلاحات لانا ہونگی ۔عدالتی نظام کو سیاسی اور باثر افراد کی مداخلت سے بچانے کا پائیدار انتظام کرنا ہوگا ۔عام آدمی کا عدالتی نظام پر اعتماد لانا بہت ضروری ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کے اہم مقدمے کی سماعت براہ راست نشر کرکے نئی تاریخ رقم کردی ہے ،عدلیہ سے عوام کا ایک رابطہ ہوا ہے جہاں سے عدالتی نظام کو بہتر بنانے کا آغاز قرار دیا جاسکتا ہے ۔