صحرا میں پھول

67

تحریر ؛۔جاویدایازخان
صحرا میں کھلنے والے پھول اس لیے بھی نایاب ہوتے ہیں کہ یہ بہت کم کھلتے ہیں اور کھلتے بھی ہیں تو ایسی خشک جھاڑیوں میں جہاں انہیں دیکھنے والے بہت کم ہوتے ہیں ان کی اکثریت دنیا کی نظروں سے اوجھل ہی رہ جاتی ہے ان کی قدر وقیمت صرف صحرائی لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں ۔صحرا زمین کے اس علاقے کو کہا جاتا جہاں بارش نہ ہونے کے برابرہوتی ہو اور پانی کی نایابی یا کمیابی کے باعث ان علاقوں میں سبزہ بھی کم ہوتا ہو یا بالکل ہی نہ ہوتا ہو یوں تو دنیا میں بڑے بڑے صحرا ہیں اور دنیا کا تیتیس فیصد حصہ صحراوں پر مشتمل ہے یہ زیادہ تر بنجر بیابان اور ویران ہوتے ہیں جہاں آبادی نہیں ہوتی وہاں سبزہ اور پھول کہاں سے پیدا ہوتے ہیں ؟پاکستان میں صحرا ے تھر ،چولستان اور تھل بڑے مشہور صحرا کہلاتے ہیں جو اپنی گرمی ویرانی اور شدید لو چلنے والے علاقے سمجھے جاتے ہیں ۔انہیں صحرا میں سے ایک تھل بھی ہے جس کا آغاز مظفر گڑھ سے میانوالی تک پھیلا ہوا ہے خوشاب سے میانوالی کو ملانے والی ریلوے لائن سے جنوب میں سارا علاقہ تھل کا صحرا کہلاتا ہے میانوالی بھی اسی صحرا کا حصہ ہے اور اس کے ملحقہ مشہور تاریخی شہر کندیاں واقع ہے جو پاکستان ریلوے کے بڑے جنکشن کے طور پر جانا جاتا ہے جہاں سبزہ بھی پیدا نہ ہوتا ہو ایسے صحرائی ویران اور پسماندہ علاقے میں کسی خوبصورت پھول کا کھلنا کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا جی ہاں اسی شہر میں ایک ایسا پھول کھلا ہوا ہے جو پورے پاکستان کے لیے مثال بن گیا ہے اور جسکی خوشبو سے یہ علاقہ مہک اٹھا ہے ،جی ہاں یہ ہے کندیاں میانوالی کا قیصر حسن جو ایک ٹیلر ماسٹر ہے اور پچھلے چھ سال سے علاقے کے یتیم بچوں کو عید کے موقع پر بلا معاوضہ نہ صرف کپڑے سی کر دیتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ انہیں بطور عیدی دوسو روپے بھی دیتا ہے پچھلے چھ سال سے یہ نوجوان یتیم بچے کے والد کا ” ڈیٹتھ سرٹیفکیٹ ” اور فارم ب دیکھنے کے بعد اس کا نام اپنے پاس رجڑڈ کر لیتا ہے تاکہ وہ بچہ اس سے اٹھارہ سال کی عمر تک عید کا جوڑا مفت سلوانے کے ساتھ ساتھ عیدی کا بھی حقدار رہے گا کیا سادگی اور خالص پن اس قیصر کنگ ٹیلرز جرنیلی روڈ کندیاں کے نوجوان کا جو اپنے ہنر سے صدقہ جاری رکھے ہوے ہے اور لمبی لمبی لائنیں لگوا کر ان دنیا دکھاوا کرنے والے ناجائز منافع خوروں سے کوسوں دور ہے اپنے مالک کے دئیے ہوے رزق اور ہنر کو آگے تقسیم کرنے کی سعی کرتا ہے اور اپنے ما لک کی عطا کا شکرانہ ایسے مثالی طریقے سے کرتا ہے ۔یہ وہ اس صحرا کا انمول پھول ہے جو اپنی خوشبو اور مہک پھیلا رہا ہے کہ اچھائی کے لیے صرف جذبہ درکار ہوتا ہے وسائل اور مواقعے درکار نہیں ہوتے نیک جذبوں اور محبتوں کے پھول صحرا میں بھی کھلنے کے لیے کسی بارش یا ہواوں کا انتظار نہیں کرتے اسی لیے صحرا کے ان پھولوں کی خوشبو بالکل الگ ہوتی ہے ۔
مجھے سوشل میڈیا پر اس نوجوان ٹیلر ماسڑ کی خدا ترسی ،جذبات اور ہمت کی داستان پڑھ کر ایک اور عظیم شخص کراچی کا ماسٹر ذاکر حسین یاد آگیا جو پچھلے چھبیس سال سے جیل کے اندر ایک چھوٹی سی ٹیلر ماسٹر کی دوکان چلا رہا ہے اور کراچی جیل کے ہزاروں قیدی بچوں کو درزی کا کام سکھا کر کاریگر بنا چکا ہے ماسٹر ذاکر حسین کو اب یہ بھی یاد نہیں کہ وہ کتنے ہزار بچوں کو درزی کا کام سکھا چکا ہے ۔اسکے بےشمار شاگرد اپنی درزی کی دوکان بنا چکے ہیں اور بےشما ر نے اس ہنر کو اپنا ذریعہ معاش بنا لیا ہے بلکہ پاکستان میں ہی نہیں مڈل ایسٹ اور سعودی عربیہ میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ذاکر حسین کہتے ہیں کہ اس کے لیے یہ اعزاز بہت بڑا ہے کہ وہ جرائم اور کرائم میں ملوث لوگوں کو باعزت روزگار کے لیے ہنر بانٹنے کا مواقع ملا ہے شاید اللہ میری اس محنت اور کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبولیت بخش دے ۔ ان جیسے ناجانے کتنے ہی نیک اور عظیم لوگ ہیں جو بڑی خاموشی اور گمنامی میں اپنی نیکیوں کے مشن جگہ جگہ جاری رکھے ہوے ہیں ۔ میرے ایک اور دوست نے بتایا کہ دوران سیاسی قید اس نے بےشمار لوگوں کو قرآن پاک پڑھایا اور حفظ کرایا ۔کہتے ہیں کہ جیل کا ماحول انسان کو خراب کرتا ہے لیکن اگر نیکی کا جذبہ ہو تو لوگ حافظ اور قاری بن کر بھی باہر آسکتے ہیں ۔ایسے لوگ کسی تمغہ حسن کارکردگی کے محتاج نہیں ہوتے یہ اپنے رب کی رضا کے لیے یہ سب کرتے ہیں اور اسی سے جزا پائیں گے ۔
ایک زمانہ تھا جب ٹی بی ایک موذی مرض تصور کیا جاتا تھا اور جسکا علاج بڑا لمبا اور مہنگا ہوا کرتا تھا ہمارا علاقہ اس موذی بیماری سے بےحد متاثر ہوچکا تھا ایسے میں مسز جنرل مارڈن مرحومہ جنہیں سب میم صاحبہ کہتے تھے نے احمد پور شرقیہ میں پہلا ٹی بی ہسپتال قائم کیا اور مفت دوائی دینا شروع کی اس ہسپتال کے انچارج میرے والد محترم ہوا کرتے تھے مسز مارڈن ان مریضوں کو دوائی کے ساتھ ساتھ کھانے کے لیے صحت مند خوراک بھی مہیا کرتی تھیں جن میں دودھ ،اناج ،گھی وغیرہ شامل ہوتے تھے مہینے میں دو بار فروٹ دیتیں اور سردی میں جب ان کی کوٹھی میں گرے فروٹ لگتے تو روزآنہ ہر مریض کو وہ گرے فروٹ دئیے جاتے تھے ۔ٹی بی کے یہ مریض جب صحت یاب ہوجاتے تو ان کی بحالی کے لیے مالی مدد بھی فراہم کرتی میں نے بےشمار ایسے لوگ دیکھے جو صحت یابی کے بعد اپنے اپنے روزگار کرتے نظر آے ۔صحت یاب خواتیں مریضوں کو سلائی مشین پر کام کرنے کی تربیت کے لیے ڈیرہ نواب صاحب میں ایک خواتین دستکاری اسکول قائم کیا جو تربیت مکمل ہونے کے بعد ہر مریضہ کو ایک ایک سلائی مشین بھی دیتا تھا ۔ بوڑھی خواتین کو بکریاں لیکر دی جاتیں تھیں تاکہ ان کا سلسلہ روزگار چلتا رہے اور انہیں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت پیش نہ آے ۔ ان کی جانب سے شہر بھر کے معذوروں کے لیے پورے ماہ کا راشن اور وظیفے مقرر تھے ۔دکھی انسانیت کی یہ بے لوث خدمت آج بھی یادگار ہے ۔عید کے روز ان کی جانب سے جیل میں موجود قیدیوں کو فروٹ اور مٹھائی بھجوائی جاتی تھی ۔”خاک میں کیا صورتیں ہونگی جو پنہاں ہو گیں “آج ہم جن معاشی مسائل اور بے روزگاری کا شکار ہو چکے ہیں یہی وقت ہے کہ پوری قوم کو ہنر مند بنایا جاے ہمارے معاشی مسائل کا ایک حل یہ بھی ہے کہ چین اور جاپان کی طرح ہر گھر کا ہر فرد ہنر مند ہو اور کام کرے ۔
ہمارے ایک مرحوم دوست نے ایسے غریب مریضوں کی ایک لسٹ بنائی ہوئی تھی جو طویل المدتی بیماریوں میں مبتلا ہوتے تھے اور پوری زندگی ادویات کھاتے تھے وہ ان کو ہر ماہ ایک مہینے کی ادویات عطیہ کرتے تھےکرونا وباء کے دوران تو انہوں نے کرونا کی مہنگی تریں ادویات بھی گھروں تک پہنچا یں مگر خود بدقسمتی سے کرونا کی زد میں آگئے ۔اسی طرح میرے ایک ڈاکٹر دوست پورے سال ہر ہفتے فری میڈیکل کیمپ کا اہتمام کرتے ہیں جہاں ادویات بھی مفت فراہم کرتے ہیں ان کا تہیہ ہے کہ یہ سلسلہ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک جاری رکھیں گے ۔ایسے ہی ہمارے ایک دوست ہر سال کم از کم دس معذوروں کو مصنوعی اعضاء لگواتے ہیں ۔رمضان المبارک کے دوران اس قسم کی خاموش انسانی خدمت قابل ستائش ہے ۔آج جب ہمارا معاشرہ شدید تریں مہنگائی اور بےروزگاری کے ہاتھوں پریشان ہے ہمیں صرف حکومت کی طرف نہیں دیکھنا بلکہ خود آگے بڑھ کر عید سے قبل ہی اپنے صدقات ،زکوۃ اور فطرآنے کو غیر محسوس طریقے سے مستحق اور سفید پوش لوگوں تک پہچانے کی کوشش کرنے کی اشد ضرورت ہے چاہے وہ مال سے ہو یا پھر آپکی جانی و جسمانی خدمات سے ہو لیکن دکھاوے اور شوبازی کے بغیر ہونا چاہیے ایسے دیں کہ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے ہاتھ کو خبر تک نہ ہونے پاے وہ اپنے مقدر کا رزق کھاتے ہیں او ر ہم اسی ذات کے دئیے ہوے رزق کو بانٹتے ہیں بزرگ کہتے ہیں انسان کا زوال اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ میری وجہ سے دوسروں کو رزق مل رہا ہے ۔بےشمار اور ان گنت گمنام لوگ ایسے ہیں جنہیں کوئی نہیں جانتا مگر ان کے دسترخوان وسیع ہوجاتے ہیں ان کی خیرات بڑھ جاتی ہے ۔واقعی ایسے لوگوں صحراوں کے ان پھولوں کی مانند ہوتے ہیں جو کانٹے دار خشک جھاڑیوں میں چھپے ہوتے ہیں مگر ان کی خوشبو سے بےشمار لوگ مستفید ہوتے ہیں ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.