ٹرمپ اور مودی کی ملاقات کے بعد کے حالات کا اثر ان دونوں ممالک پر تو جو پڑنا تھا پڑا ہی ہوگا مگر اس خطے میں انڈیا کے حوالے سے کسی بھی نوعیت کے اقدام کے اثرات لا محاله پاکستان اور چین پر ضرور مرتب ہوتے ہیں اور اس سبب سے ہی چین نے اس ملاقات کے بعد دفاعی ساز و سامان کی گئی انڈیا کو فروخت کرنے کی امریکی خواہش یا یوں کہہ لیجئے کہ حکمت عملی پر بہت جچا تلا بیان دیا ہے کہ ایشیا پيسیفک امن کا خطہ ہے اور یہ خطہ عالمی سیاسی کھیل کی جگہ نہیں ہے ۔ امریکہ تو خالص طور پر اپنا کاروباری مفاد حاصل کرنے کی غرض سے انڈیا کو دفاعی ساز و سامان فروخت کرنے کی حکمت عملی پر کار بند ہے اور اس وجہ سے اس کو تو اس کی پرواہ نہیں ہے کہ کونسا خطہ امن و امان کا حامل ہے اور کونسا نہیں مگر انڈیا کو تو اس کا خیال رکھنا چاہئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انڈیا میں کوئی بھی چاہے برسر اقتدار ہو وه علاقائی غلبہ حاصل کرنے کی خواہش کو ہر خواہش پر فوقیت دیتا ہے ۔ ٹرمپ نے اپنی گفتگو میں دفاعی اعتبار سے جو سب سے اہم بات کی وه انڈیا کو ایف 35 لڑاکا طیارے فروخت کرنے کے حوالے سے راہ ہموار کرنے کی بات کردی ۔ لوگوں کو تماشہ دکھاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی پر کار بند مودی حکومت کے ہاتھ میں ایک ہتھیار دے دیا کہ وہ اس کے ذریعے اپنی عوام کا شکار کھیلے کہ ہم بہت بڑی فوجی طاقت کے طور پر ایف 35 کا استعمال کریں گے ۔ حالاں کہ ابھی ویسے بھی ہنوز دلی دور است والی صورت حال ہے کیوں کہ انڈیا کو اگر ایف 35 طیارہ فراہم کرنے کی جانب کوئی حقیقی معنوں میں پیش رفت ہو بھی گئی تو انڈین فضائیہ کو اس کے ساتھ ہم آہنگ ہونے میں بہت وقت درکار ہوگا ۔ سات آٹھ سال تو اس کو انڈین فلیٹ میں شامل ہونے میں ہی لگیں گے ۔ انڈیا کی تینوں مسلح افواج نے امریکی سامان دو ہزار سات سے استعمال کرنا شروع کیا تھا اور ان کی ایئر فورس کو امریکی طیارے استعمال کرنے کا قطعی طور پر کوئی تجربہ نہیں ہے ۔ اس سے قبل امریکہ نے یہ طیارے آسٹریلیا ، کینیڈا ، جرمنی ، اٹلی ، جاپان ، اسرائیل اور جنوبی کوریا کو بیچ چکا ہے ۔ فروخت تو امریکہ ترکی کو بھی یہ کر رہا تھا مگر جب ترکی نے روسی ساختہ ایس فور ہنڈرڈ میزائل دفاعی نظام خرید لیا تو امریکہ نے ترکی کو ایف 35 دینے سے انکار کرتے ہوئے یہ وجہ بیان کی کہ بيک وقت دو ممالک کے سیکورٹی سسٹمز کو استعمال میں آنے سے سیکورٹی لیک ہو سکتی ہے اور انڈیا کو بھی فروخت کرتے ہوئے یہ مسئلہ درپیش ہوگا کیوں کہ انڈیا کے تو دفاعی نظام میں تو روسی مصنوعات کا بہت عمل دخل ہے ۔ یہ بات واضح رهنی چاہئے کہ یہ کوئی صرف ٹرمپ کے برسر اقتدار ہونے کی وجہ سے امریکہ کی پالیسی نہیں ہے بلکہ ایرو انڈیا 2023 میں ایف 35 نے بھی شرکت کی تھی اور یہ انڈین سر زمین پر کسی سٹیلتھ طیارے کی پہلی اڑان تھی جب کہ ایرو انڈیا 2025 میں بھی یہ طیارہ شریک ہوگا جو اس بات کی واضح علامت ہے کہ امریکہ اس طیارے کو فروخت کرنے کے حوالے سے ٹرمپ کے دوبارہ بر سر اقتدار آنے سے قبل ہی انڈیا کو اس کا ایک ممكنه گاہک کے طور پر دیکھ رہا تھا ۔ امریکہ نے اس وقت بھی انڈین مارکیٹ میں داخلے کی کوشش کی تھی جب انڈیا فرانس سے رافیل طیارے خرید رہا تھا تو اس وقت بھی امریکہ نے انڈیا کو ایف 16 کا بلاک 70 فروخت کرنے کی پیش کش کی تھی جبکہ امریکی کمپنی میکڈونلڈ ڈگلس نے ایف 18 طیارے فروخت کرنے کی بات کی تھی ۔ پاکستان اس خطرے کو اچھی طرح سے بھانپ رہا تھا حالاں کہ انڈیا کو اگر یہ طیارہ ميسر آ بھی جاۓ تو کوئی غیر معمولی تبدیلی خطے میں وقوع پذیر نہیں ہوگی ۔ کیوں کہ پاکستان کے پاس امریکی طیاروں کے ساتھ ساتھ جے 10 سی بھی موجود ہیں مگر اس کے باوجود جنوری 2024 میں پاک فضائیہ کے سربراه نے کہا تھا کہ پاکستان چین سے جے 31 ملٹی رول سٹیلتھ طیارے حاصل کرنا چاہتا ہے اور پھر میڈیا میں تو یہاں تک خبریں آئی کے پاک فضائیہ کے ہوا باز چین میں اس طیارے کو اڑانے کی تربیت حاصل کر رہے ہیں ۔ ویسے گزشتہ نواز شریف دور میں ہی اس خطرے کو بھانپتے ہوئے پاکستان نے اپنے ذرائع سے ففتھ جنریشن لڑاکا طیارے تیار کرنے کا پراجیکٹ ” عزم ” کا آغاز کر دیا گیا تھا تا کہ کسی بھی دوسرے ملک پر انحصار کی ضرورت ہی پیش نہ آئے مگر پھر ” جوڈیشل عزم ” نے نواز شریف کو ہی اقتدار سے بے دخل کردیا اور معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا بہرحال اگر پاکستان کو جے 31 بلکہ اس کے بعد جے 35 بھی چین سے ميسر آ گئے تو جو فرق ایف 35 کے حصول سے انڈیا قایم کرنا چاہتا ہے وه بھی نہیں ہوگا ۔ مودی کے اس دورے میں ایک سفارتی کامیابی اس کو ضرور حاصل ہوئی ہے کہ اس کی وجہ سے امریکی صدر نے پاکستان کے حوالے سے ایک سخت بیان جاری کردیا ۔ اگر اس سارے معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ہمارے سامنے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ امریکہ کے اس بیان سے پاکستان کی ساکھ بہر حال ضرور مجروع ہوئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے اس حوالے سے اس نوعیت کی حکمت عملی تیار نہیں کی ہوئی تھی کہ جس کے ذریعے سے ٹرمپ کی آمد کے بعد والے حالات سے مقابلہ کیا جاتا جو لوگ اس وقت پاکستان کی امریکہ کے حوالے سے حکمت عملی کو تیار کر رہے ہیں ان کی آنکھوں کو کھل جانا چاہئے کیوں کہ انڈیا سے ٹرمپ 500 ارب ڈالر کی تجارت کے جس کا توازن امریکہ کے حق میں ہو کی حکمت عملی کی بات کر رہا ہے
ہیں ان کی آنکھوں کو کھل جانا چاہئے کیوں کہ انڈیا سے ٹرمپ 500 ارب ڈالر کی تجارت کے جس کا توازن امریکہ کے حق میں ہو کی حکمت عملی کی بات کر رہا ہے اور اس کے لئے وه بیانات سے آگے بڑھ کر اقدامات جیسے پابندیاں وغیرہ کی طرف بھی انڈیا کو خوش کرنے کیلئے جا سکتا ہے اس لئے بہت اعلی سطح کی حکمت عملی تشکیل دینے کی ضرورت ہے ورنہ نقصان بڑھ سکتا ہے