“مجلہ خاتم النبین حصہ سوئم کی تقریب رونمائی کی روداد دل پذیر”

از قلم: خالد غورغشتی

348

ہے تصانیف صابر کی یہ رونمائی
خوش نما پر ضیا بہترین باکمال

علم کی خوشبوئیں بکھیرتا یہ خوب صورت ماحول جو امام اہل سنت لائبریری برہان کا تھا۔ جہاں اہل علم و فن دور و نزدیک سے جوق در جوق تشریف لا رہے تھے، جن میں ہر عمر اور ہر طبقے کے اہل ذوق شامل تھے۔ محفل کی خاص بات یہ تھی کہ تمام اہل شعور و نظر زمین پر براجمان تھے۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے آج سیدوں کے گھرانے سے سب کو خیر کثیر بانٹی جا رہی تھی۔

دورانِ محفل باری باری تمام باریک نکتہ داں اپنے اپنے فنی و تحقیقی مقالہ جات پیش کر کے حاضرین کے دلوں کو عشقِ مصطفیٰ سے تنویر بخش رہے تھے۔ نظامت کی ذمہ داری محترم سید حافظ سہیل شاہ بخاری کے سپرد تھی، جو بڑے مودبانہ انداز میں شمولیت اختیار کرنے والوں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ محترم ظفر قریشی بھی ایسے سعادت افروز موقع پر پیچھے رہنے والے نہ تھے؟ بار بار حاضرین کی دل جوئی کے لیے ان کے پاس تشریف لاتے اور حال احوال دریافت فرماکر محفل کو چار چاند لگاتے۔

اس محفل کی نوعیت ہرگز روایتی یا رسمی نہ تھی، اس لیے دور و دراز اور قرب و جوار سے آنے والے مہمان گرامی خوب دل جمعی سے محفل میں شریک تھے۔ اس نشست کے منعقد کرنے کا مقصد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کی اہمیت کو اُجاگر کرنا تھا۔ یہ نشست مجلہ خاتم النبین جلد سوئم کے اجراء کے بعد سید سہیل شاہ صاحب کی شدید خواہش پر انعقاد پذیر کی گئی۔ پروفیسر ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد صاحب نے زبردست مقالہ پڑھ کر سامعین سے داد وصول کی۔ ان کے لہجے اور الفاظ میں بلا کی شیرینی و مٹھاس، ترنم،نغمگی اور روانی تھی۔ شیریں بیانی اور لفظوں کی تازگی نے عوام کے ساتھ خواص کے دلوں کو بھی خوب محبتِ رسول کی حدت و شدت سے گرمایا۔ پروفیسر صاحب سے بہ ذریعہ سوشل میڈیا تو کافی عرصے سے بہ طور ماہرِ لسانیات شناسائی تھی، آج ان کی ختم نبوت پر محققانہ گفتگو نے یہ گمان بھی دور کر دیا کہ وہ محض ایک ادیب ہیں۔ مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ ناشاد صاحب اتنے پختہ ذہنیت کے مالک مذہبی شخصیت بھی ہیں۔

تنظیم المدارس کے مرکزی رہنما علامہ مفتی کامران مسعود رضوی صاحب نے بڑے ہی لاجواب انداز میں قرآن و احادیث اور اسلافِ اُمت کے اقوال سے مسئلہ ختم نبوت پر بحث فرمائی۔ اُنھوں نے موجودہ وقت میں سوشل میڈیا کے ذریعے پیدا ہونے والے بعض عجیب و غریب اعتراضات کو مفصل و مدلل انداز میں رد کیا۔ آپ نے دورانِ گفتگو فرمایا کہ یہ مجلہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی آواز ہے اور اس کے ذریعے پوری امت کے علماء ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہو رہے ہیں۔ آپ نے بعض کاذبینِ نبوت کو خوب لتاڑا۔ آخر میں آپ نے تاریخی الفاظ استعمال کیے ان کے بقول: “صاحب برہان نے براہین سے اہل باطل کو زمین بوس کر دیا۔” مختتم انداز اپنا کر آپ نے شاہ صاحب کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کی۔

عالمِ عصر پروفیسر ڈاکٹر ناصر خاں صاحب نے تحقیقی مقالہ تیار کر کے پیش کیا۔ انھوں نے معزز مہمانان سے گزارش کی کہ وہ تعلیم و تعلّم کے ساتھ ساتھ جدید ابلاغ سے بھی خود کو واقف کروائیں، اس دور میں اس کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں ختم نبوت پر مدلل گفتگو کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: “بعض لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے طرح طرح کے اعتراضات کر کے نسل نو کو شب و روز گمراہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ کلمہ طیبہ پر ایمان لانے کے بعد سب سے پہلا بنیادی مسئلہ نبی پاک کو آخری نبی ماننا ہے۔ جو اس کا انکار کرے، وہ مسلمان نہیں رہتا۔ مسلمہ کذاب سے لے کر مرزا قادیانی تک سب فتنے دین کی بنیادوں کو ختم کرنے کے لیے وجود میں لائے گئے۔ جس طرح ہمارے اسلاف نے اس مسئلہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے قربانیاں دیں، ہم بھی اس مقصد کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ قبلہ شاہ صاحب کا ختم نبوت پر قابل رشک کام ہے۔ اگر آپ اس مقصد کو مزید وسعت دے کر اپنی ویب سائٹ لانچ کر دیں تو اہل اسلام کو خاطر خواہ نفع ہوگا۔ شاہ صاحب کو کہیں بھی میری ضرورت ہوئی تو میں ہمہ وقت ساتھ کھڑا ہوں گا۔ آج ہماری زبوں حالی کی بڑی وجہ معاشی کمزوری ہے۔ جس کی وجہ سے دینی طبقہ اپنا وقار کھو رہا ہے اور باطل قوتیں جگہ جگہ سر اُٹھا رہی ہیں۔ مدارس و یونی ورسٹیوں کے نصاب میں تبدیلی کے لیے ہمیں مل جل کر منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔” آخر میں تمام اہل علم و قلم کا شکریہ کہ وہ دور و دراز اور نزدیک علاقوں سے تشریف لائے اور ہماری اس محفل کو رونق بخشی۔ یہ تقریب 9 فروری 2025ء صبح 10 تا 3:30 بجے تک امام اہل سنت لائبریری برہان میں منعقد کی گئی۔ اس تقریب میں علامہ مفتی محمد عبدالسلام قادری رضوی، پروفیسر ڈاکٹر محمد ارشد، پروفیسر مجیب احمد، پروفیسر ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد، عالم عصر پروفیسر ڈاکٹر محمد ناصر خاں، علامہ مفتی ڈاکٹر کامران مسعود رضوی، ماہر تعلیم ابرابر شاکر اور ملک محبوب الرسول قادری کے نام نمایاں ہیں۔ سب کی نذر یہ شعر:

سر لوحِ خیال الفاظ ہاتھوں میں قلم رکھنا
عزیزانِ گرامی جسم و جاں کو تازہ دم رکھنا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.