ٹرمپ کی صدارت کے پاکستان پر ممکنہ اثرات

ڈیرے دار سہیل بشیر منج

0

ڈونلڈ ٹرمپ نے سنتالیسویں امریکی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا یہ امریکہ کی دو سو سالہ تاریخ کے پہلے صدر ہیں جو ایک بار صدر منتخب ہوئے اگلا الیکشن ہارے اور اس سے اگلے الیکشن میں پھر سے کرسی صدارت پر فائز ہو گئے اس پر وقار تقریب میں دنیا بھر سے سربراہان مملکت
اپوزیشن جماعتوں کے اراکین بہت سی کاروباری شخصیات کو دعوت نامے موصول ہوئے پاکستان میں صدر پاکستان جناب آصف زرداری اور بلاول بھٹو کو دعوت نامہ آیا لیکن ان دونوں افراد کی شرکت کی کوئی تصویر یا ویڈیو منظر عام پر نہیں
آئی ٹرمپ نے حلف اٹھاتے ہی سو سے زیادہ صدارتی حکم ناموں پر دستخط کیے دو تین جگہ تقاریر کی لیکن ان میں کہیں بھی پاکستان کا ذکر نہیں تھا بلکہ اس کی تقریروں کا زیادہ تر حصہ صرف امریکہ کے حوالے سے تھا
میں نے اپنے ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ تحریک انصاف کے حامیوں کی ٹرمپ کی جیت پر مٹھائیاں تقسیم کرنا ایسے ہی ہے جیسے بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ اور یہ کہ امریکی حکمرانوں کی یہ خاصیت ہے کہ وہ کسی شخصیت پرستی میں نہیں پڑتے بلکہ ان کے نزدیک امریکی مفادات سب سے مقدم ہیں میں ابھی بھی اپنی تحریر کے ساتھ ہوں کہ امریکہ کی طرف سے بانی پی ٹی آئی کو شاید کوئی مدد نہ ملے اور اگر ٹرمپ بانی کی رہائی کے لیے کوئی فون یا پیغام بھیجتے ہیں تب بھی ماضی کے حوالوں کو اگر مد نظر رکھا جائے تو شاید اس بار بھی اس کا کوئی خاطرخواہ فائدہ نہیں ہوگا جمی کارٹر جو امریکہ کے
انتالیسویں صدر تھے نے بھٹو صاحب کی پھانسی کی شدید مخالفت کی تھی انہوں نے جنرل ضیا صاحب کو بہت سخت پیغام بھیجا جس میں کہا گیا تھا کہ بھٹو صاحب کو فورا رہا کر دیا جائے لیکن اس وقت اسٹیبلشمنٹ اور جنرل ضیاء نے انکار کر دیا تھا اسی طرح جب جنرل مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کیا اور انہیں جیل بھیج دیا تو اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے جنرل مشرف سے نواز شریف کی رہائی کے لیے کہا لیکن جنرل مشرف نے انکار کر دیا تھا اس لیے میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ اگر ٹرمپ کوئی سفارش کرتے ہیں تو شاید اس بار بھی جواب پہلے سے مختلف نہ ہو
یہاں قابل ذکر بات بانی رہائی نہیں بلکہ یہاں زیادہ فکر والی بات یہ ہے کہ ٹرمپ پاکستان چین روس کی دوستی سی پیک اور دوسرے پروجیکٹس جس میں پاکستان ان ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے انہیں برباد کرنے کی ضرور کوشش کرے گا اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان کے لیے بہت مشکل حالات پیدا ہو سکتے ہیں کیونکہ پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال میں نہ تو امریکہ کے بغیر گزارا ہے اور نہ ہی چین کے آپ کو یاد ہوگا کہ جب تحریک انصاف کی حکومت تھی تب بھی ٹرمپ ہی صدر تھے انہوں نے بانی پی ٹی آی کے ذریعے سی پیک کے تمام معاہدے حاصل کیے اور پھر انہیں بند کروا دیا تھا جس سے پاکستان اور چین کے تعلقات اتنے خراب ہوئے کہ تقریبا ختم ہو گئے تھے موجودہ حکومت نے بڑی جدوجہد کے بعد حالات معمول پر لانے میں کامیابی حاصل کی ہے سی پیک میں چین کے تمام پروجیکٹس دوبارہ شروع ہو چکے ہیں اب پاکستان کے لیے مشکل ترین فیصلوں کے دن آ نے والے ہیں اگر پاکستان کو چین یا امریکہ میں سے کسی ایک کو چننا پڑتا ہے تو میرا خیال ہے کہ اس بار پاکستان کو چین کا انتخاب کرنا چاہیے اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ نے آج تک ہمیں نقصان کے علاوہ کچھ نہیں دیا ان کی یہ عادت رہی ہے کہ یہ اپنے دوستوں کے لیے ہمیشہ مشکلات کھڑی کرتے ہیں ہم نے ان سے دوستی کا انجام بھگتا ہے انہوں نے ہمیں دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا تھا جس میں ہمارے سکیورٹی فورسز کے جوانوں کے ساتھ بہت سے عام لوگ بھی لقمہ اجل بن گئے ہماری معیشت برباد ہو کر رہ گئی تھی
ویسے بھی اہل نظر فرماتے ہیں کہ ٹرمپ کا دور متحدہ امریکہ کا آخری دور ہوگا ان کی بہت سی پیشین گوئیاں سچ ثابت ہوئی ہیں اگر یہ بھی سچ ہو جاتی ہے تو پھر ہمیں کسی صورت چین اور روس سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے
دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کبھی
بھی کسی ایک ملک نے اکیلے ترقی نہی کی بلکہ ہمیشہ ایک خطے نے ترقی کی ہے امریکہ نے ترقی کی تو سارے امریکہ نے کی یورپ نے کی تو سارے یورپ نے کی اور اب انشاءاللہ ایشیا کی باری ہے اس لیے ہماری حکومت کو بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں کس کے ساتھ کھڑے ہونا ہے اور ہمارا یہ فیصلہ ہی ہمارے مستقبل کا فیصلہ کرے گا اور انشاءاللہ پاکستان اب ترقی کی راہوں پر چل نکلا ہے اور امید کی
جا رہی ہے کہ
2030
تک پاکستان دنیا کے پہلے دس یا بیس ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں کھڑا ہوگا پاکستان اپنے قرض اتار چکا ہوگا انڈسٹری چل چکی ہوگی اس لیے ہمیں ان خدشات کا بہترین سفارت کاری کے ذریعے مقابلہ کرنا ہوگا کہ تا کہ ہم ہر طرح کی پابندیوں سے بھی بچے رہیں اور چین کے ساتھ باہمی روابط اور پروجیکٹس کو بھی تعطل کا شکار نہ ہونے دیں کیونکہ اب کی بار ہم نے کوئی غلطی کر دی تو چین دوبارہ کبھی ہمیں قریب نہیں آنے دے گا امریکہ آج تک کسی ملک کی ترقی کا ذریعہ نہیں بنا اب ہمیں عزت اور وقار پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے اور یہ فیصلہ اٹل ہونا چاہیے کہ ہمیں اس کے ساتھ چلنا ہے جو ہمارے اچھے اور برے وقتوں کا ساتھی ہے اور وہ چین کے علاوہ کوئی اور نہیں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.