آج کل انسانی بے حسی اور خود غرضی میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے اکثر سڑک پر پڑۓ کسی زخمی کو کو ئی رک کر نہیں دیکھتا یہاں تک کے ریسکیو والوں کو اطلاع دینے سے بھی ڈرتا ہے کہ کہیں اسے کوئی گواہی دینی نہ پڑ جاۓ ۔ایک بار ایک مصروف بازار میں ایک بوڑھا شخص زمیں پر گر گیا ۔وہ بیمار معلوم ہوتا تھا اور چلنے کے قابل نہیں تھا ۔وہاں سے لوگ گزر رہے تھے لیکن کسی نے رک کر اس کی مدد کرنے کی کوشش نہیں کی ۔کچھ لوگ دیکھ کر نظر انداز کر گئے اور کچھ نے سوچا کہ شاید یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ کچھ کے پاس اس کے لیے وقت ہی نہیں تھا ۔آج ہر انسان اپنے کام سے کام رکھنا چاہتا ہے۔ایسے واقعات آۓ دن ہر طرف دکھائی دیتے ہیں اور اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ بعض اوقات ہم اپنی روزمرہ کی مصروفیات میں اس قدر مگن ہو جاتے ہیں کہ انسانیت اور ہمدردی کو بھی بھول جاتے ہیں ۔ بعض لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ لوگوں کی فکر کرنا ایک لا حاصل کام ہے اور اس دور میں خود غرضی ہی بہترین حکمت عملی ہے جو مفت کی پریشانیوں سے بچاتی ہے ۔جبکہ کسی کو مدد کی ضرورت ہو تو ہمیں فورا” آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ کسی دن ہمیں بھی کسی کی مدد کی ایسے ہی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔ گو ہمدردی میں خود کو نقصان پہنچانے کی ضرورت نہیں اور احساس ہمدردی رکھتے ہوۓ عقلمندی اور محتاط رویہ رکھنا بھی کچھ غلط نہیں ہوتا ہے۔لیکن اس وجہ ہمدردی جیسے نیک کام سے پیچھے ہٹ جانا بھی درست نہیں ہوتا۔میں ذاتی طور پر کسی کا درد اور دکھ سمجھنے کو احساس اور اس درد کو دور کرنے کی کوشش کے عملی اظہار اور کوشش کو ہمدردی سمجھتا ہوں ۔
کہتے ہیں کہ احساس ہمدردی معاشرت کی بنیاد ہوتے ہیں ایک امریکی ماہر بشریات مارگریٹ انسانی معاشرت کی پہلی نشانی کے متعلق کہتی ہے کہ انسانی معاشرت کے قدیم آثار ہمیں فریکچر کے بعد ایک جڑی ہوئی را ن کی ہڈی سے ملتے ہیں ۔ٹوٹنے کے بعد جڑنے والی اس ہڈی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شفا یابی کے دورانیے میں کسی دوسرے شخص نے ایک شخص سے احساس ہمدردی کے تحت اس کی تیمارداری کی ہوگی ۔چنانچہ یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ احسا س اور ہمدردی معاشرت اور حسن معاشرت کی بنیاد ہوتی ہے ۔ہمارا دین اسلام احساس اور ہمدردی کا سبق دیتا ہے اور ہمارے پیارے نبی پاک ؐ کی زندگی کے بےشمار واقعات تاریخ کا حصہ ہیں جہاں انہوں نے احساس اور انسانی ہمدردی کا عملی مظاہرہ کرکے ہمیں خدمات انسانیت کا درس دیا ہے ۔کہتے ہیں کہ احسا س ہمدردی خود کو اور دوسروں کو انسان اور انسانی زندگی پہ دوسروں کے رویے اور عمل کے اثرات کو سمجھنے کی صلاحیت کا نام ہے ۔انسانی جذبے اور رویے میں موجود اس حس کو اہمیت دینا اس دور کی اہم ترین ضرورت بنتا جارہا ہے ۔بےشک ایک بہتر معاشرے کے لیے معاشرے کے تمام افراد کے اندر یہ احسا س ہمدردی اجاگر کرنا آج پہلے سے بہت ضروری ہو چکا ہے ۔ہمیں ناصرف خود اس پر عمل پیرا ہونا چاہیے بلکہ دوسروں کے احساس ہمدردی کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ یہ روایات ہماری نئی نسل میں بھی فروغ پا سکیں ۔
اسی حوالے سے مجھے اپنی زندگی کا ایک واقعہ یاد آجاتا ہےے کہ ہماری امی جان بتایا کرتی تھیں کہ جب میں تین سال کا چھوٹا سا بچہ تھا اور اپنے پیروں پر چلنا پھرنا شروع کرچکا تھا ۔اباجی کی ڈیوٹی فوج میں سی ایم یچ ڈیرہ نواب صاحب میں ہوا کرتی تھی ۔اس زمانے میں فوجیوں کے لیے سرکاری گھر بہت کم ہوتے تھے تو اباجی نے ڈیرہ نواب صاحب کے ایک محلہ میں گھر کرایے پر لیا ہوا تھا ۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب بجلی اور گیس نام کی کوئی چیز میسر نہ تھی ۔آگ جلانے کے لیے لکڑی یا مٹی کا تیل استعمال کیا جاتا تھا ۔ گھر میں امی جان کے ساتھ اس وقت ہم صرف دو بہن بھائی تھے بڑی بہن پانچ سال کی اور میں تین سال کا تھا۔ایک دن کھیلتے کھیلتے مجھے مٹی کے تیل کی بوتل ہاتھ آگئی ۔ناسمجھی اور شرارت کرتے ہوۓ بوتل کو منہ لگایا اور امی جان کے بقول آدھی بوتل تیل پی گیا جس کی باعث یکایک طبیعت خراب ہوئی اور بےہوش ہوگیا ۔امی جان بتاتی ہیں کہ ایکدم رنگ پیلا پڑا گیا لگتا تھا کہ شاید بچہ زندہ نہیں ہے تو وہ گھر میں اکیلے ہونے کی وجہ سے بہت پریشان ہوئیں ۔انہوں نے شور مچا کر مدد کے لیے ہمسائی کو بلایا ۔اتفاق سے گھر پر ہمسائی کے خاوند چاچا عبدالغفور خان مرحوم موجود تھے ۔وہ فورا” آۓ اور مجھے بےہوش حالت میں دیکھ کر اپنے بازوں پر اٹھا لیا امی جان سے اجازت لیکر مجھے گھر سے ہسپتال کے لیے دوڑے ۔وہ اباجی کو جانتے تھےکہ وہ سی ایم ایچ میں ڈیوٹی پر ہیں ۔ روتی ہوئی امی جان کو تسلی دیتے ہوۓ وہ ننگے سر اسی حالت میں گھر سے نکلے اور دوڑتے ہوۓ گھر سے ایک فرلانگ دورسڑک کی جانب رخ کیا ۔راستے میں انہیں پریشان دیکھ کر دوسرے محلے والے بھی ساتھ ساتھ دوڑنے لگے ۔سڑک پر ایک تانگے والے نے انہیں سوار کرا کر سی ایم ایچ کی جانب گھوڑا دوڑا دیا ۔تانگے پر چاچا عبدالغفور مرحوم کے ساتھ ساتھ کئی ہمساۓ بھی سوار تھے اور باقی لوگ تانگے کے ساتھ ساتھ پیدل ہی دوڑنے لگے ۔راستے میں جسے بھی اس واقعہ کا پتا چلتا وہ ا پنا رخ سی ایم ایچ کی جانب کر لیتا ۔ سی ایم ایچ اس وقت ایف جی پبلک اسکول والی عمارت میں ہوتا تھا ۔پیدل ،سایکل سوار اور تانگوں پر سوار لوگوں کا ایک پورا ہجوم ہسپتال پہنچا تو وہ ایک جلوس کی شکل اختیار کرچکا تھا ۔اس وقت سی ایم ایچ کے انچارج میجر ڈاکٹر آفتاب شاہ صاحب ہوا کرتے تھے ۔انہیں جب پتہ چلا تو وہ خو تشریف لاۓ اور مجھے آپریشن تھیٹر میں لے گئے ۔ ہانپتے کانپتے ہوۓ چاچا عبدالغفور خان مرحوم بھی ساتھ ساتھ تھے ۔ میجر صاحب نے چاچا عبدلغفور خان مرحوم کو بہت شاباش دی اور کہا کہ اگر تم ذرا دیر کردیتے تو بچہ بچ نہیں سکتا تھا۔ اباجی ڈیوٹی پر تھے وہ بھی پہنچ گئے ۔میجر صاحب ان کے ذاتی دوست بھی تھے ۔چاچا عبدالغفور خان مرحوم مجھے بتاتے تھے کہ جتنی دیر تم اپریشن تھیٹر میں رہے ۔میں باہر قرآنی آیات اور درود شریف پڑھ کر تمہاری صحت یابی کی دعا مانگتا رہا ۔میں ڈر رہا تھا کہ اگر خدا نخواستہ کچھ ہو گیا تو تمہاری امی جان کو کیا جواب دوں گا ۔دوسری جانب ہسپتال کے باہر محلے اور شہر کا ایک بڑا مجمع موجود تھا جن میں مشہور ڈاکٹر محمد حسین بدر مرحوم بھی شامل تھے جو باربار خریت دریافت کرتےتھے ۔ وہ پورا مجمع تمہاری صحت کے لیے دعا گو تھا اور باوجود باربار کہنے کے وہ وہاں سے ہٹنے کو تیار نہ تھا ۔ایک فوجی ڈاکٹر نے چند گھنتوں بعد باہر آکر بتایا کہ بچہ اب ٹھیک ہے آپ لوگ جاسکتے ہیں مگر کوئی ٹس سے مس نہ ہوا ۔ چاچا عبدلغفور خان بتاتے تھے کہ چند گھنٹوں بعد جب مجھے ڈسچارج کیا گیا تو میں ہوش میں آچکا تھا ۔ہسپتال کی گاڑی مجھے چھوڑنے آئی تو چاچا عبدالغفور خان نے کہا کہ بچہ میری گود میں دے دو میں نے اسے اسکی ماں کی گود سے لیا تھا اپنے ہاتھوں سے اس کی ماں کی گود تک پہنچاوں گا ۔ میجر صاحب نے اباجی اور چاچا عبدالغفور خان کو میری نئی زندگی کی مبارکباد دی ۔اور مجھے پھر سے چاچا عبدالغفور خان مرحوم کی گود میں دےدیا ۔وہ ہی مجھے گود میں لیکر گاڑی میں سوار ہوۓ تو جونہی گاڑی سی ایم ایچ سے باہر آئی لوگ دیکھنے کے لیے ٹوٹ پڑے ۔اور خوشی سے نعرے لگانے لگے ۔وہ سب گاڑی کے ہمراہ گھر تک آۓ اور جب چاچاعبدالغفور نے مجھے میری امی کی گود میں دیا تو امی جان کے ساتھ ساتھ گھر میں موجود ہمسائیوں اور چاچا عبدالغفور خان کے بھی آنسو بہے رہے تھے ۔چاچا عبدالغفور خان مرحوم مجھے اکثر بتایا کرتے تھے کہ میں زندگی میں اتنی تیزی سے کبھی نہیں دوڑا جتنا اس روز دوڑا تھا ۔احساس وہمدردی کے پیکر چاچا عبدالغفور خان مرحوم آج اس دنیا میں نہیں رہے ۔لیکن ان کی یاد مجھےاپنے والدین کی طرح ہر لمحہ آتی ہے ۔وہ جب بھی مجھے ملتے تھے بڑی محبت سے اس واقعہ کا تذکرہ ضرور کرتے تھے ۔شاید یہی وجہ تھی کے وہ مجھ سے ہمیشہ بڑی محبت کرتے تھے ۔میں ا ن کا شکریہ ادا کرتا تو فرماتے تمہارے والدین نے جو محبتیں یہاں بوئیں ہیں یہ سب ا ن کا ثمر ہے ۔ان کا ایک بیٹا عبدالحمید میرا کلاس فیلو اور پرانہ دوست ہے جبکہ دوسرا بیٹا عبدالمجید ناصح ایک بڑی پیاری ادبی ،سماجی او سیاسی شخصیت ہے ۔ہماری محبتوں کا یہ سفر آج بھی جاری ہے۔
احساس اور ہمدردی انسانی جذبات کی اہم ترین خصوصیات ہیں جو ہمارے تعلقات اور معاشرتی رویوں کی بنیاد بنتی ہے ۔احساس وہمدردی کا اظہار بڑے چھوٹے چھوٹے عملوں سے بھی ہوسکتا ہے جیسے کسی کی بات سن لینا ،مدد کی پیشکش کر نا یا کسی کو اچھے الفاظ سے تسلی دینا ۔یہ دونوں جذبات معاشرتی خوشحالی اور انسانی تعلقات کی بنیاد ہیں یادرہے کہ احساس اور ہمدردی ہمارا معاشرتی ہی نہیں بلکہ مذہبی فریضہ بھی ہے اس کی ادائیگی صرف ہماری تحریر وتقریر سے نہیں بلکہ ہمارے عمل اور کردار سےبھی دکھائی دینی چاہیے ۔کیونکہ انسان کی سب سے بڑی طاقت اس کی ہمدردی ،شفقت اور احساس میں پوشیدہ ہے ۔