کچھ عرصہ سے پاکستان میں خطرناک پالتو جانور پالنے کا شوق دیکھنے میں آرہا ہے۔اس سے قبل کبھی کبھار جنگلی جانور بھی مرگلہ کی پہاڑیوں سے اتر کر شہری علاقوں میں خوف پھیلا دیتے تھے ۔لیکن اب یہ پالتو جانور فرار ہو کر باہر نکل آتے ہیں اور شہریوں کے لیے خوف کا باعث بنتے ہیں اور شہری محصور ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ایسے ہی واقعات ہربنس پورہ لاہور ،کراچی اور کچھ نئے اور نجی چڑیا گھر سے فرار کی خبریں میڈیا اورسوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی ہیں ۔ہربنس پورہ میں پالتو شیر پنجرے سے باہر نکل آیا تو مجبورا” سیکورٹی گارڈ نے اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا ۔ دو سال قبل کراچی کے علاقے گلبرگ میں مبینہ طور پر پالتو شیر نے دس سالہ بچے کو زخمی کر دیا تھا ۔جنگلی جانوروں کو پالتو جانوروں کی طرح پنجروں میں رکھنا بے حد خطرناک رواج بڑھتا جارہا ہے ۔
امریکی ریاست ٹیکساس میں فرار ہونے والے بندر کو پکڑ لیا گیا، بندر کے مالکان کو 5 جرائم میں جرمانے کا خدشہ ہے۔ گو بظاہر یہ ایک معمولی خبر ہے لیکن بےشمار لوگوں کی توجہ حاصل کر چکی ہے ۔تفصیلات کے مطابق غیر ملکی میڈیا نے رپورٹ کی ہے کہ امریکی ریاست ٹیکساس کے پوٹیٹ اور جورڈنیں کے علاقے کے مکینوں نے شکایت کی تھی کہ ان کے گھروں کی چھت پر ایک بندر بھاگتا پھر رہا ہے ۔جانوروں کی دیکھ بھال کے افسران نے علاقہ مکینوں کی شکایت پر فوری کاروائی کرتے ہوۓ شرارتی بندر کو پکڑ لیا ۔افسران کا کہنا ہے کہ انہیں تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ اس بندر کو اسی علاقے کے ایک رہائشی نے اپنے گھر پر غیر قانونی طور پر پالتو جانور کے طور پر رکھا ہوا تھا ۔افسران کے مطابق انہوں نے مالکان کو بندر واپس کرتے ہوۓ حکم دیا ہے کہ وہ اسے شہر کی حدود سے باہر لے جائیں کیونکہ غیر ملکی جانوروں کو اس علاقے میں پالتو جانور کے طور پر رکھنا غیر قانونی ہے ۔بندر کے مالکان پر پانچ جرائم عائد ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے ۔جن میں ممنوعہ جانور کا گھر میں ہونا ،پہلے بندر کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے دوسرا بندر لانا ،جانوروں کا شہری علاقے میں گھومنا ،ریبیزکی ویکسینیشن کی کمی اور مائیکرو چپ کی کمی بھی شامل ہیں ۔افسران کے مطابق مالکان پر فی الحال جرمانہ عائد نہیں کیا گیا اس کا جرمانے کا فیصلہ میونسپل کورٹ کرے گی ۔
واضح رہے کہ اسی نوعیت کا ایک واقعہ چند ہفتوں قبل کراچی کے علاقے گارڈن ٹاون میں بھی پیش آیا تھا جب گارڈن کے علاقے میں چار بندروںکو گھروں کی چھتوں کے اوپر گھومتے دیکھا گیا تھا ۔ ڈپٹی کنزرویٹر محکمہ جنگلی حیات نے بتایا ہے کہ کچھ دن قبل بھی اس علاقے میں بندر نظر آنے کی اطلاع ملی تھی اس موقع پر ٹیم نے علاقے کی تلاشی لی تھی لیکن کوئی بندر نہیں مل سکا تھا ۔انہوں نے بتایا کہ آج بھی ٹیم متعلقہ علاقے میں روانہ کی جاۓ گی۔اس حوالے سے چڑیا گھر انتظامیہ کا کہنا ہے کہ چڑیا گھر میں بندروں کی تعداد پوری ہے ۔چڑیا گھر انتظامیہ نے بتایا ہے کہ ہمیں بھی سولجر بازار میں کئی روز قبل بندر نظر آنے کی اطلاع مل رہی ہے ۔اگر یہ بندر چڑیا گھر سے نہیں آۓ تو اب یہان ذہن میں پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ بندر علاقے میں موجود رہائشی مکان کی چھت پر کہاں سے آۓ ؟ جس کا جواب فی الحال نہیں مل سکا ۔شاید مل بھی نہیں پاۓ گا ۔
پالتو اور آوارہ جانوروں کا شہری آبادی میں داخلہ اور موجودگی ہمیشہ ہی شہریوں کے لیے پریشانی کا باعث بنتی ہے ۔شہریوں کی جان کی حفاظت اور انہیں پریشانی سے بچانے کے لیے پوری دنیا میں ایک نظام اور ادارے ہوتے ہیں ۔جو ترقی یافتہ ممالک میں ادارے اس قدر ایکٹو اور سرگرم ہوتے ہیں کہ فوری کاروائی کرکے ان کا سدباب ممکن بنادیتے ہیں ۔ایک دوست نے بتایا کہ بھارت میں بندروں کی بہتات ہے اور وہ بلا روک ٹوک شہروں اور بازاروں میں شرارت کرتے موجود دکھائی دیتے ہیں ۔گو وہاں ان کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا بلکہ احترام کیا جاتا ہے لیکن جب یہ گھروں میں گھس کر تنگ کرتے ہیں تو مار تو نہیں سکتے مگر انہیں پکڑ کر متعلقہ حکام کے حوالے کر دیا جاتا ہے ۔ان کو پکڑنے کے لیے وہ زمین میں ایک گڑھا کھودتے ہیں اوراس میں تنگ گردن والی مٹی کی ہنڈیا ہندیا رکھتے ہیں پھر اس میں آخروٹ بھر دیتے ہیں ۔جب بندر آتا ہے اور وہ گڑھے میں پڑے آخروٹ دیکھتا ہے تو وہ اپنا ہاتھ اندر ڈالتا ہے اور جتنی زیادہ مقدار میں اخروٹ لے سکتا ہے لے لیتا ہے لیکن پھر وہ اپنا ہاتھ کھنچتا تو ہے مگر باہر نہیں نکال سکتا کیونکہ اس کا ہاتھ جتنا بھرا ہوا ہوتا ہے وہ اتنا ہی تنگ مٹی کے منہ میں پھنس جاتا ہے اخروٹوں کے لالچ میں مٹھی کھنچتا تو ہے مگر لالچ کی وجہ سے مٹھی کو ڈھیلا نہیں کرتا کہ کہیں اخروٹ ہاتھ سے چھٹ نہ جائیں وہ اسی جدوجہد میں ہوتا ہے کہ شکاری آکر اسے پکڑ لیتے ہیں ۔
ہمارے ملک میں ایسے بندر تو نہیں ہوتےجنہیں پکڑا جا سکے البتہ آوارہ کتے بڑی کثرت سے پاۓ جاتے ہیں ۔گذشتہ دنوں مجھے اپنے علاج کے سلسلے میں پنجاب کے سب سے بڑے شہر لاہور جانے کا اتفاق ہوا جہاں فیصل ٹاون میں رات کے وقت کئی آوارہ کتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا گھر سے باہر ان کتوں کے بھونکنے اور ایک دوسرے سے لڑنے کی آوازیں بھی سنائی دیتی تھیں تو میں سوچ رہا تھا کہ ہم کس سے شکایت کریں ؟ملک کے اس بڑے شہر میں ان آوارہ کتوں کی موجودگی مجھے عجیب لگی جو یقینا”توجہ طلب ضرور ہے ۔دوران سفر سڑکوں پر ان آوارہ کتوں اور دیگر جانوروں کی باعث بےشمار خطرناک حادثات بھی جنم لیتے ہیں ۔جو انسانی جانوں اور قیمتی گاڑیوں کے ضیاع کا باعث بن جاتے ہیں ۔لاہور میں ہی ایک سوسائٹی میں رکھے گئے پالتو شیر بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا گو وہ مضبوط جنگلوں میں محصور تھے لیکن کسی بھی کمزور لمحے میں شہری علاقوں میں ان کی موجودگی کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کو جنم دے سکتی ہے
بہاولپور میں میرا گھر شہر کی نزدیک ترین آبادی فیصل باغ جیل روڈ پر واقع ہے ۔اس کالونی کی بڑی خاصیت یہ ہےکہ چاردیواری کے درمیان اس میں داخلہ کا ایک ہی راستہ ہے۔اس راستے کی انٹری پر سیکورٹی گارڈ تعینات ہیں ۔اس کے باوجود ناجانے کہاں سے بےشمار آوارہ کتوں کو دیکھا جاسکتا ہے ۔چند ماہ قبل تو ایک کتیا نے اپنے بچوں سمیت میرے گھر کے سامنے ڈیرے ڈال لیے اور ہر آنے جانے والے پر بھونکنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے پیچھے بھاگنا بھی شروع کردیا ۔اپنی کالونی کی انتطامیہ کمیٹی سے درخواست کی تو انہوں نے صاف جواب دے دیا کہ کتوں سے نجات ہمارا نہیں بلدیہ کا کام ہے ۔اس کتیا کی دیکھا دیکھی دیگر کتوں نے بھی ہماری گلی کا رخ کرلیا ۔کئی ماہ بڑی پریشانی رہی پھر شہر کی میونسپلٹی میں جاکر شکایت کی مگر کوئی شنوائی نہ ہو سکی ۔وہ وعدہ تو کرتے مگر عمل کچھ نہ کرتے۔ایک دن میں نے سوچا کہ انہیں بندوق سے ہی ماردیا جاۓ لیکن ہمارے ہمساۓ بہت رحمدل ثابت ہوۓ انہوں نے مجھے ایسا کرنے سے روک دیا ۔پھر مجھے کسی نے ایک میونسپلٹی کے ہی بندے کا رابطہ دیا ۔جس نے بڑی سفارش سے اس کتیا اور اسکے بچوں سے تو نجات دلا دی مگر آوارہ کتے آج بھی ہماری گلیوں میں مٹر گشت کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔یہ صرف ہماری ہی کالونی کا المیہ نہیں ہے بلکہ پورے شہر میں یہاں تک کہ سٹرکوں پر بھی آوارہ کتے لوگوں اور ٹریفک کے لیے زحمت بن جاتے ہیں ۔سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں میں بھی آوارہ کتوں کی بہتات دیکھنے میں آتی ہے اور کتوں کے کاٹنے کی خبریں ملتی رہتی ہیں ۔اگر یہ کتے کسی وجہ سے پاگل یا باولے ہو جائیں تو انسانی جانوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں ۔ان کتوں کے کاٹنے کی ویکسین کی موجودگی اور بروقت مہیا ہونے کا بھی مسئلہ بھی درپیش آتا ہے ۔پالتو کتوں کے ساتھ ساتھ لوگوں نے اپنے گھروں میں اب شیر اور چیتے اور ان کے بچے بھی پالنے شروع کردیے ہیں چند ماہ قبل ایک پالتو شیر نے باہر نکل کر کئی لوگوں کو زخمی کردیا تھا ۔یہ خبر شائع ہوئی اور نشر ہوئی تو بڑا شور مچا مگر پھر خاموشی چھا گئی۔
ملک بھر میں شہری اور دیہی علاقوں میں ایسے آوارہ اور پالتو جانوروں سے عوام کو بچانے کے لیے صرف وائلڈ لائف ،میونسپلٹی یا ریسکیو ۱۱۲۲ ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں ایک فوری ہیلپ لائن اور انہیں پکڑنے کے ماہرین کی ایک ٹیم کے قیام کی ضرورت ہے جو بروقت کاروائی کر کے لوگوں کی جانوں ، مالوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ انکے لیے پریشانی کا سبب بننے والے جانوروں کا سدباب ممکن بنا سکے ۔اس کے ساتھ ساتھ پالتو کتوں ،شیروں اور چیتوں کو اپنے نجی شہری گھروں میں رکھنے کے قوانین سخت تر کر دیے جائیں بلکہ اگر ممکن ہو سکتا ہے تو اس پر پابندی کے بارے میں بھی سوچا جا سکتا ہے ۔