بھروسہ یار،عہد ساز موسیقار طافو کی یاد میں۔

11

و القم۔۔۔مدثر قدیر

مجھے جب بھی پاکستان فلم انڈسٹری کے شعبہ موسیقی کے کسی لیجنڈری موسیقار،میوزیشن اور شاعر کے حوالے سے کوئی بات پوچھنی ہوتی یاں کسی پروگرام کے دوران کسی فلمی شخصیت کے حوالے سے آگاہی حاصل کرنا ہوتی تو میں اپنے بزرگ خواجہ پرویز سے رجوع کرتا اور وہ میرے مسئلہ کو حل کردیتے ایک بار گفتگو کے دوران میں نے ان سے موسیقار طافو کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے میری ان سے ملاقات ہی کرادی یہ خواجہ صاحب کی شخصیت کا پہلو تھا کہ استاد طافو نے میری باتوں کا جواب دیا ان سے میری ملاقات تقریبا 25سال قبل ہوئی مگر اس دوران میری دوستی ان کے فرزند سجاد طافو سے ہوگئی جو خود اپنی ذات میں انجمن ہیں اور آج بھی کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا جب میں ان سے نہ ملوں اور ان کی مہمان نوازی سے مستفید نہ ہوں۔26اکتوبر 2024کو پاکستان فلم انڈسٹری کے میوزک ڈائریکٹر اور طبلہ نواز االطاف حسین المعروف طافو نے ذندگی کی آخری سانس لی وہ گردوں کے امراض میں مبتلا تھے ان کی وفات سے پاکستانی فلمی موسیقی کا ایک عہد تمام ہوا۔الطاف حسین المعروف طافو 1945میں اندرون لاہور میں معروف ڈانس ڈائریکٹر اور طبلہ نواز خادم حسین کے ہاں پیدا ہوئے جن کے بھائی فدا حسین بھی فلمی صنعت کی جانی مانی شخصیت تھے۔الطاف حسین نے ابتدائی تعلیم اپنے محلہ کے اسکول سے حاصل کی اور سٹی مسلم اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کرکے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں داخل ہوئے اور وہاں سے انٹرمیڈیٹ کی ڈگری حاصل کی۔الطاف حسین کی ابتدا ء ہی سے میوزیکل انسٹر ومنٹس سے رغبت تھی اور انھوں نے طبلہ،ڈھولک اور ردھم اریجمنٹ کی تعلیم مہارت کے ساتھ حاصل کی اور 15سال کی عمر میں فلموں میں سازندے کی حثیت سے کام کرنے لگے۔الطاف حسین طافو کی رہنمائی ان کے کزن ماسٹر عنایت حسین نے کی جن کا شمار اس دور کے چوٹی کے موسیقاروں میں ہوتا تھا اس کے بعد طافو ماسٹر عبداللہ،ایم اشرف کے اسسٹنٹ بنے اور ان کی کئی فلموں ردھم کی اریجمنٹ کی اور طبلہ اور دیگر ساز بجائے جس کی وجہ سے ان موسیقاروں کی فلموں میں شائقین موسیقی نے عمدہ گیت سنے۔1970کی دھائی کے آغاز میں اداکار خلیفہ نذیر اور ان کے بھائی خلیفہ سعید انورا کے نام سے فلم بنانے کی تیاریاں مکمل کرچکے تھے اور اس فلم کے گیتوں کے لیے کسی اور موسیقار کا انتخاب بھی ہوچکا تھا مگر آخری وقت میں میرے بزرگ خوا جہ پرویز نے اس فلم کی موسیقی کے لیے الطاف حسین المعروف طافو کا نام ریکمنڈ کردیا جس کے بعد فلم انورا کے گیتوں کی ذمہ داری طافو کو دے دی گئی اور خواجہ پرویز نے اس فلم کے لیے سب سے پہلا گیت سن وے بلوری اکھ والیاں لکھا جسے ملکہ ترنم نورجہاں کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا اور یہ گیت فلم بننے سے پہلے ہی سپرہٹ ہوگیا جس کے اس فلم کے باقی گیت ریکارڈ ہوئے جو سارے سپرہٹ ہوئے اور فلم انورا نے الطاف حسین طافو کو موسیقاروں کی فہرست میں شامل کردیا۔اس فلم کے دیگر گیتوں میں میرا پیار نہ دلوں بھلاویں،لاج محبتاں دی رکھ وے تھے جو ملکہ ترنم نورجہاں ہی کی آواز میں ریکارڈ ہوئے۔یکم جنوری کو طافو کی موسیقی میں ترتیب دی گئی اردو فلم گھرہستی ریلیز ہوئی جس میں مسعود رانا کا گایا ہوا یہ گیت نہ جا میرے دلربا مقبول ہوا اس فلم کے نغمہ نگارحزیں صدیقی تھے۔1971میں طافو کی موسیقی میں ترتیب دی گئی دیگر فلموں میں اچاناں پیار دا جس میں مالا بیگم کا گایا ہو ایہ گیت ذبان زد عام ہوجس کے بول تھے دلوں من لئی تیری بن گئی دل جانیاں تھا جسے خواجہ پرویز نے لکھا تھا۔اسی سال خلیفہ برادران کی ایک اور پنجابی فلم اصغرا ریلیز ہوئی جس کے گیتوں نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کردیے اور طافو کا شمار فلم انڈسٹری کے صف اول کے موسیقاروں میں ہونے لگا۔ اس فلم میں اداکارہ نغمہ پر فلمایا ملکہ ترنم نورجہاں کا گیت منڈا شہر لاہور دا آج بھی فلم بینوں کے دلوں میں نقش ہے۔ اس فلم کے گیت بھی خواجہ پرویز ہی نے تحریرکیے اور یوں خواجہ پرویز،طافو اور خلیفہ برادران کی مثلث نے پاکستانی فلمی موسیقی میں شہرہ آفاق گیتوں کا اضافہ کیا۔1972میں موسیقار طافو کی 4فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں ہیرا موتی،پتر پنج دریاواں دا،سجن ملدا کدی کدی اور اردو فلم بدلے گی دنیا ساتھی تھی جس میں ملکہ ترنم نورجہاں اور مہدی کا گایا ہوا دوگانہ تجھ سے ملی زندگی مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کرگیا۔ 1973میں طافو کی موسیقی میں ایک فلم اک مداری ریلیز ہوئی جس میں مسعود رانا اور مالا بیگم کا گیت ایہ میلہ چار دناں دا مقبول ہوا۔1973سے لے کر 1976تک طافو نے 10فلموں کی موسیقی ترتیب دی مگر 1977میں ریلیز ہونے والی 8 فلموں ملک زادہ،دو چور، دادا،جاسوس،جیرا سائیں،شیر بابر،جینے کی راہ اور کون شریف کون بدمعاش کی موسیقی ترتیب دی جن کے گیت مقبول ہوئے۔1979کا سال ان کے فلمی سفر کا سب سے مصروف سال تھا اس سال ان کی موسیقی میں ترتیب دی گئی ایک درجن کے قریب فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں جٹ دا کھڑاک،ضدی جٹ،چالان،دو جی دار اور دبئی چلو تھیں فلم دبئی چلو کے لیے طافو کو نگار ایورڈ سے نوازہ گیا اس فلم کے گیت دوروں دوروں اکھیاں مارے منڈا پٹواری داجسے ملکہ ترنم نور جہاں نے گایا جبکہ دوسرا گیت آج مینوں مل گیا ویزا دبئی دا جسے گلوکار عنایت علی کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا مقبول ہوئے اس فلم کے گیت بھی خواجہ پرویز ہی کے قلم کا کمال تھے جنہوں نے سوشل ایشوپر بننے والی اس فلم کے مزاج کے مطابق گیت تحریر کیے اور طرزو ں کے لیے طافو نے فوک اور سازوں کے حسین اشتراک سے طرزیں بنائیں۔1980 اور 1990 کی دھائیوں میں بدلتے موسیقی کے رخ کے ساتھ ان کی طرزیں بھی بدلیں مگر ان پر پنجابی کا عنصر غالب رہااس دوران انھوں نے 100سے زائد فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔نئی صدی کے آغاز سے لے کر بیتے 24سالوں میں موسیقار

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.