مقدر میں سفر ٹھہرے ۔۔
محمد نوید مرزا۔۔۔۔
پاکستان بننے کے بعد جن شاعرات نے ادبی دنیا میں اپنی پہچان بنائی اور تخلیقی اعتبار سے شہر ادب پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ان میں ادا جعفری،کشور ناہید،فہمیدہ ریاض،شبنم شکیل ،بسمل صابری،شاھدہ حسن ،یاسمین حمید،پروین شاکر اور سارہ شگفتہ کے نام لئے جا سکتے ہیں،بعد ازاں فاطمہ حسن، نوشی گیلانی،ثمینہ راجہ نے بھی بے مثال شاعری کی۔ان دنوں حمیدہ شاہین،پروین سجل،شاھدہ دلاور شاہ ،اقصی صابر اور بینا گوئندی ادب کی آبیاری کر رہی ہیں۔
نئی شاعرات میں کئی اور نام بھی ہیں۔ثمینہ بٹ سیمی آج کی شاعرات میں ایک عمدہ شاعرہ کے طور پر متعارف ہوئی ہیں۔ثمینہ فوج میں ایک طویل عرصہ ملازمتی امور سر انجام دیتی رہی ہیں۔انھوں نے شاعری کا آغاز زمانہء طالب علمی میں ہی کر لیا تھا،لیکن فوج کی نوکری میں وہ شاعری کے لئے زیادہ وقت نہیں نکال سکیں۔یوں ملازمت اور بچوں کی ذمہ داریوں نے انھیں ادبی حلقوں سے دور رکھا۔جب برس قبل جب وہ فوج سے بحثیت میجر ریٹائرڈ ہوئیں تو انھوں نے نئے سرے سے خود کو دریافت کیا اور مختلف ادبی حلقوں میں شعر و سخن کی محفلوں میں شریک ہوئیں انھوں نے غزلیں،نظمیں اور نثری نظمیں لکھیں اور جب ان تخلیقات کو یکجا کیا تو ایک شعری مجموعہ تیار ہو گیا،جو اب ،مقدر میں سفر ٹھہرے کے عنوان سے آپ کے سامنے ہے۔
ثمینہ بٹ سیمی کی شاعری انسانی مسائل،دکھوں،ادھوری خواہشوں اور اندر کی ٹوٹ پھوٹ سے جنم لیتی ہے۔انھوں نے اپنی غزلوں اور نظموں میں عصری مسائل،سماجی و معاشی المیوں اور اندر کی ٹوٹ پھوٹ کو موضوع سخن بنایا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ محبت کی عالمگیریت سے بھی خوب واقف ہیں۔محبت کے موضوع پر ان کے بہت سے اشعار ہیں۔
غزل میں چھوٹی بحر میں شعر کہنا خاصا مشکل ہے۔ثمینہ کی کئی غزلیں چھوٹی بحر میں ہیں۔ان کی شاعری میں بلا کی سادگی اور روانی ہے۔لہجہ متاثر کن ہے۔آئیے آپ بھی چند شعر دیکھیں۔۔۔
سکون ختم ہو گیا
ملیں گی کیسے راحتیں
کہاں گئے وہ لوگ سب
کدھر گئیں روائیتں
مال و زر سے رفعتیں یوں مل گئیں
جو بہت کم تر تھے عالی ہو گئے
کر چیوں میں عکس اٹھانے پڑ گئے
سنگ شیشوں پر گرانے پڑ گئے
جتنے بھی لکھے تھے خط مہکے ہوئے
اب وہ دریا میں بہانے پڑ گئے
شاید میں بھی ان کو رکھ کے بھول گئی
سوکھے پھول ملے ہیں آج درازوں سے
قبرستان کے سناٹوں سے بھاگتے ہیں
ڈرتے ہیں کچھ زندہ لوگ جنازوں سے
کتنے معصوم تھے جذبات مرے
کوئی لے کر نہ کھلونا آیا
وہ رکھتا تھا کشادہ دل
حقیقت میں قلندر تھا
ثمینہ بنیادی طور پر غزل کی شاعرہ ہیں۔دراصل غزل ہی میں کھل کر دل کی باتیں کی جا سکتی ہیں۔غزل کا ایک ایک شعر پوری کائنات ہو سکتا ہے۔ثمینہ نے غزل کے علاؤہ چند پابند اور کئی نثری نظمیں بھی لکھی ہیں۔ان کی نظموں کا بیانیہ بھی عمدہ ہے۔ان نظموں میں کہیں وہ اپنے والدین کو یاد کرتی ہیں تو کہیں معاشرتی المیوں ،عدم مساوات ،ملکی نظام اور وطن عزیز کے دھواں دھواں منظروں پر نوحہ کناں ہیں۔
میری دعا ہے کہ ان کا اولین شعری مجموعہ ،مقدر میں سفر ٹھہرے پذیرائی حاصل کرے اور ان کا شعری سفر تا دیر جاری رہے،آمین
محمد نوید مرزا
بانی و صدر بزم بشیر رحمانی
و بشیر رحمانی ادبی فاؤنڈیشن
لاہور۔۔۔۔۔۔پاکستان