عوامی ریلیف اور تنقید
اورنگزیب اعوان
حکومت کا کام عوام کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنا ہوتا ہے. ناکہ مشکلات. گزشتہ دنوں وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف نے اپنے صوبہ کی عوام کے لیے بجلی کے بلوں میں 14 روپے فی یونٹ کے ریلیف کا اعلان کیا. جس سے بجلی کے بلوں سے ستائی ہوئی عوام کو کچھ ریلیف ملا. جس کی تعریف کی بجائے، دیگر صوبوں کی حکومتوں نے تنقید کے نشتر چلانا شروع کر دیئے. ریلیف ریلیف ہوتا وہ کسی بھی صورت میں ہو. عوام کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنی چاہیے. خوشی قسمتی سے پاکستان کے چاروں صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں ہیں. انہیں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہوئے. اپنے اپنے صوبوں کی عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ ریلیف دینا چاہیے. تنقید برائے تنقید کی بجائے آپس میں عوامی ریلیف پر مقابلہ کرے. عوام انہیں ووٹ اس لیے نہیں دیتی. کہ یہ اقتدار کے ایوانوں میں آکر ایک دوسرے پر صرف اور صرف تنقید کرے.. حکومت کا کام ہی عوام کو خوشیاں دینا ہے. صوبائی حکومتوں کو اپنے صوبائی بجٹ سے اپنے شہریوں کے لیے ریلیف پیکج کا اعلان کرنا چاہیے. یہ عوام پر ٹیکس کس لیے لگاتی ہیں. اس ٹیکس کی رقم سے عوام کو سہولیات دینا ہوتی ہیں. لحاظ ایک دوسرے پر تنقید کرنے کی بجائے. ایک دوسرے سے عوامی ریلیف پر مقابلہ کرے. اس سے عوام کی مشکلات میں کمی واقع ہوگی. کچے کے علاقہ میں ایک بار پھر خون کی ہولی کھیلی گئی. پنجاب پولیس کے جوان چھٹیوں پر اپنے گھروں کو جا رہے تھے. کہ بارش کے پانی میں ان کی گاڑیاں پھنس جانے پر ڈاکوؤں نے راکٹ لانچر سے ان پر حملہ کیا. جس سے 12 جوان شہید ہو گئے، اور متعدد زخمی. سمجھ سے بالاتر ہے. کہ کچے کے علاقہ میں کتنے ڈاکوؤں ہیں. جو تین چار سال سے ان کا خاتمہ نہیں ہو پا رہا. یا ہماری حکومتیں سنجیدہ نہیں. ان کو ختم کرنے میں. شاید ان کے اپنے کوئی مفادات ہیں. ان سے. رحیم یار خان میں ہونے والے اس دلسوز واقع پر ہر آنکھ اشک بار ہے. وفاقی و صوبائی حکومت کو کچے کے علاقہ میں بھرپور آپریشن کرنا چاہیے. تاکہ ان مٹھی بھر ڈاکوؤں کا قلع قمع کیا جاسکے. جو ملک پاکستان کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں.
حکومت کو اپنی مشکلات سے فرصت نہیں. وہ عوام کے بارے میں کیا سوچے گی. گزشتہ دنوں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے جلسہ کا اعلان کیا گیا. جس کو روکنے کے لیے وفاقی حکومت نے بھرپور تیاری کی. دوسری طرف خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلیٰ محترم علی آمین گنڈا پور تمام سرکاری وسائل کے ساتھ وفاق پر چڑھائی کرنے آ رہے تھے. مگر صبح سویرے ہی جیل میں پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کی اپنے پارٹی چیئرمین سے ملاقات ہوتی ہے. جس پر جلسہ ملتوی کر دیا جاتا ہے. یہ ملاقات بھی ایک عجوبہ تھی. جیل قوانین سے ہٹ کر یہ ملاقات کروائی گئی. صبح سویرے سات بجے. جبکہ جیل قوانین کے مطابق ملاقات نو بجے سے پہلے نہیں ہو سکتی. مطلب کہی سے سہولت کاری ابھی بھی جاری ہے. اب پاکستان تحریک انصاف نے لاھور والا جلسہ بھی ملتوی کر دیا ہے. چئرمین تحریک انصاف کو لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے ٹرائل کا غم ستا رہا ہے. وہ کہتے ہے. کہ فیض حمید کو میرے خلاف وعدہ معاف گواہ بنا کر مجھے 9 مئی کے کیسز میں سزا دی جائے گی. اس لیے وہ فیض حمید کے اوپن ٹرائل کا مطالبہ کر رہے ہیں. جلسوں کو ملتوی کرنے کی حکمت عملی سمجھ سے بالاتر ہے. شاید وہ اس نازک وقت میں حکومت وقت سے محاذ آرائی نہیں چاہتے. چیف جسٹس آف پاکستان کی تبدیلی کا بھی وقت قریب ہے. حکومت موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان کو تین سال کی توسیع دینا چاہتی ہے. جس کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے. اس کے لیے حکومت کو پاکستان جمعیت علمائے اسلام ف کے آٹھ ووٹوں کی ضرورت ہے. اس مقصد کی تکمیل کے لیے صدر پاکستان محترم آصف علی زرداری اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی مولانا فضل الرحمان کے پاس تشریف لیکر گئے. مولانا فضل الرحمان نے اگر اپنا وزن حکومت کے پلڑے میں ڈال دیا. تو پاکستان تحریک انصاف کے لیے مزید مشکلات پیدا ہونے والی ہیں. مولانا فضل الرحمان اس وقت پاکستان کی سیاست کے اصل ہیرو ہے. وہ جس کے ساتھ بیٹھے گے. اس کی قسمت جاگ جائے گی. پاکستان کی سیاست غیر یقینی کی صورتحال سےدوچار رہتی ہے. اس لیے عوام کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا. سب کو اپنے اقتدار کی فکر لاحق رہتی ہے. دیکھتے ہیں. آنے والے دنوں میں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے. پاکستان تحریک انصاف کی مشکلات کم ہوتیں نظر نہیں آ رہی. بلکہ ان میں مزید اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے. سیاست دانوں کی آپسی لڑائی میں عوام پس رہی ہے. اس کے مسائل بارے کوئی نہیں سوچ رہا. ملکی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مخالفین کو دبانے میں لگی ہوئی ہیں . اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پر اپنا کرم فرمائے.
دھوپ کا تو بس نام ہی بدنام ہے
جلتے تو لوگ ایک دوسرے سے ہیں