سیاست کریں مسائل بھی حل کریں
ناصف اعوان
بانی چیئرمین پی ٹی آئی سے متعلق سنسنی خیز ڈھیروں ویڈیو پروگرامز دیکھے جا رہے ہیں بعض وی لاگرز دن میں تین تین چار چار بار ویڈیوز بنا کر پیش کر رہے ہیں چونکہ عمران احمد خان نیازی کو عوام میں کافی پزیرائی حاصل ہے لہذا وی لاگرز کو بھی بہت شہرت مل رہی ہے اور وہ دولت بھی خوب کما رہے ہیں لوگ سمجھ رہے ہیں کہ خان کی رہائی ان ہی کی وجہ سے ہو گی جبکہ ایسا نہیں ۔عدالتوں میں ان کے کیس چل رہے ہیں معروض میں سوچ بھی مختلف ہے لہذا آنے والے دنوں میں کیا ہو گا اس کا اندازہ لگانا ذرا مشکل ہے مگر ہمارے وی لاگرز ”آزادی “ کی خوشخبری مسلسل دئیے جا رہے ہیں ؟
سیاست سیاست کھیلنا باقاعدہ ایک کھیل بن چکا ہے ایسا لگتا ہے کہ اس کے سوا اور کوئی موضوع باقی نہیں رہا کہ جس پر کچھ بولا جائے یا لکھا جائے ہم بھی اس مرض میں مبتلا ہیں کہ سیاست پر لکھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں جبکہ اس رجحان سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیے لہذا کوشش کریں گے کہ سماجی موضوعات کو زیادہ سے زیادہ زیر بحث لائیں ویسے ہم سیاسی موضوع میں سماجی کو بھی شامل کرتے آئے ہیں مگر اب محسوس کیا گیا ہے کہ سماجیات ہی پر زیادہ لکھاجائے بولنے کا بھی پروگرام بنا رہے ہیں!
بہرحال اس وقت مہنگائی کی باتیں ذرا کم ہونے لگی ہیں کیونکہ موجودہ حکومت نے اپنی مقبولیت میں کمی کی وجہ تلاش کرلی ہے اسے یہ احساس ہو گیا ہے کہ جب تک عوام کے بنیادی مسائل جن میں مہنگائی سر فہرست ہےمیں کمی لائی جائے تاکہ اجتماعی سوچ جو غریب عوام میں پائی جاتی ہے اس کو تبدیل کیا جا سکے لہذا خصوصاً صوبہ پنجاب میں اس پر بھر پور توجہ مرکوز کی جا رہی ہے اور عام آدمی کو اس کے نتائج بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں مگر ہم اس پہلو کی جانب بھی اہل اختیار کو متوجہ کریں گے کہ ماحولیات کو بھی بنظر غائر دیکھا جائے کیونکہ قومی صحت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں لہذا اس کو آلودہ کرنے والے اسباب کو دور کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں ۔ماحول کو انسان دوست بنانے کے لئے شجرکاری مہم کا آغاز کیا جائے آبادیوں کے اندر موجود کارخانوں اور ملوں کو صنعتی زونوں میں منتقل کیا جائے ان میں جلائے جانے والے مضر صحت ایندھن پر پابندی عائد کی جائے کیونکہ اس سے سرطان دمہ اور گردوں کی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ غریب لوگ تو بمشکل اپنی روٹی پوری کر رہے ہیں دواؤں کے لئے بھاری رقوم کہاں سے لائیں اور پھر جو ایسے تیسے ادھار لے کر دوائیں لیتے بھی ہیں وہ اکثر غیر موثر ہوتی ہیں یوں وہ ہر طرح سے پریشانیوں میں گِھرے نظر آتے ہیں شہروں اور قصبوں میں ٹریفک نے بھی ماحول کو خراب کر رکھا ہے سڑکوں پر موٹر گاڑیوں رکشاؤں اور موٹر سائیکلوں کی بھر مار ہے جنہوں نے سانس لینا دشوار کر رکھا ہے ان میں بتدریج کمی لائی جائے پبلک ٹرانسپورٹ کا خاطر خواہ انتظام کیا جائے ۔ہم یورپین ممالک میں دیکھتے ہیں کہ وہاں ہر دو دو چار چار منٹ پر بسیں آتی جاتی ہیں برقی ٹرینیں بھی چل رہی ہوتی ہیں خواہ ان میں چند مسافر ہی کیوں نہ بیٹھے ہوں مگر وہ رواں رہتی ہیں پھر زیادہ تر لوگ پیدل گھومتے پھرتے ہیں بازاروں میں کسی قسم کی گاڑی وغیرہ کا داخلہ بند ہوتا ہے ہاں مگر برقی سائکلیں کچھ لوگ ضرور لے آتے ہیں جس سے ماحول کو بالکل کوئی نقصان نہیں پہنچتا ۔ہمارے ہاں تو ہر دکان کے آگے سے گاڑیاں موٹر سائکلیں گزر رہی ہوتی ہیں جس سے سڑکیں تنگ ہو جاتی ہیں ٹریفک رک رک کر چلتی ہے اور پھر دھواں ہر سمت پھیل جاتا ہے جو دم گھٹنے کا سبب بنتا ہے بالخصوص دکانداروں کو سخت پریشانی کا سامنا رہتا ہے غیر محسوس طور سے وہ مختلف امراض میں مبتلا ہو تے جاتے ہیں۔
رہی بات ٹریفک پولیس کی ڈیوٹی کی کہ وہ کیوں اس ٹریفک کی بے ترتیبی اور بے ڈھنگی کو نہیں روکتی عرض ہے کہ وہ چونکہ گوشت پوست کی بنی ہوتی ہے اسے بھی پیٹ لگا ہوتا ہے لہذا اسے اس کو بھرنے کا انتظام کرنا ہوتا ہے کسی کا دم گھٹے یا کسی کو دمہ ہو اسے اس سے غرض نہیں ہوتی۔
مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے بازار گلیاں محلے اور خرید وفروخت کے مراکز عالمی معیار کے مطابق نہیں ہوتے لہذا ہر چیز میں بے ترتیبی عام دکھائی دیتی ہے جو انسانی صحت کو سخت متاثر کر رہی ہے ۔ہمارےکرتاؤں دھرتاؤں کو چاہیے کہ وہ اقتدار اقتدارِ سیاست سیاست ضرور کھیلیں مگر سلگتے تڑپتے عوامی مسائل حل کرنے کی طرف بھی آئیں کیونکہ یہی وہ مسائل ہیں جن کو حل نہ کرنے پر کوئی سیاسی جماعت قابل قبول نہیں رہتی لہذا لازمی ہے کہ انہیں حل کرنے کے لئے اقدامات کیے جائیں ایسا مشکل نہیں کہ حکومتیں جب انتظامی محکموں کو احکامات و ہدایات جاری کرتی ہیں تو سب ٹھیک ہو جاتا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور ہمارے سیاستدان مصلحتوں کے مارے ہوئے ہیں وہ ایسے کہ انہیں علاقائی سطح پر خود کو مضبوط و مقبول بنانے کے لئے دھڑے بنانا ہوتے ہیں وہ بارعب طاقتور افراد کو باقاعدہ تیار کرتے ہیں پھر انہیں تحفظ دیتے ہیں اور وہ اپنی آمدنی کی غرض سے جو جائز و ناجائز ذرائع ہوتے ہیں ان سے بھر پور طور سے مستفید ہوتے ہیں انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا لہذا چھوٹے چھوٹے مصنوعی مسائل جنم لینے لگتے ہیں دھیرے دھیرے وہ گمبھیر ہوتے جاتے ہیں مگر مصلحتاً انہیں حل نہیں کیا جاتا کہ کہیں ان سے استفادہ کرنے والے خفا نہ ہو جائیں ؟
بہر کیف اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارا سماجی ڈھانچہ شکست وریخت کا شکار ہے اُسے اس عمل سے روکنے کے لئے اوپر سے نیچے تک ایک اصلاحاتی ایجنڈا ترتیب دینا ہو گا جس میں انصاف سے لے کر روزی روٹی تک کی فراہمی کو ممکن بنایا گیا ہو اس کے بغیر امن و استحکام کا قیام مشکل نظر آتا ہے کیونکہ اب لوگ باتوں سے نہیں عمل سے مطمئن ہوتے ہیں لہذا مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن و شرائط سے ہٹ کر پالیسیاں وضع کرنا ہوں گی تاکہ عوام کے ذہنوں میں اٹھنے والے نفرت و اضطراب کے طوفان کی شدت کو کم کیا جا سکے علاوہ اذیں سیاسی استحکام جو ملکی ترقی کے لئے ضروری ہوتا ہے اس کے لئے بھی حکمت و دانائی سے کام لیا جائے ۔
حرف آخر یہ کہ آغاز میں ہم نے وی لاگرز بارے جو بیان کیا ہے ان سے درخواست ہے کہ وہ ذاتی مفاد سے تھوڑا باہر آکر اپنا نقطۂ نظر پیش کریں جس میں ٹھہراؤ ہو سنسنی سے ان کی کریڈیبلٹی متاثر ہوتی ہے جو وہ نہیں چاہیں گے !