احساس کے انداز
ذرا سوچ کے انداز بدلیں
ہمارے اباجی جب بھی کھانا کھاتے تو ہمیں نصیحت کرتے کہ رزق کا ادب یہ ہے کھانے کے کٹورے یا پلیٹ میں ایک بھی دانہ چاول یا سالن باقی نہیں بچنا چاہیے روٹی کا ایک ٹکڑا بھی ضائع نہ ہونے پاے اپنی پلیٹ میں اتنا ہی ڈالیں جو کھا سکیں اور پلیٹ کھا کر بالکل صاف کرنا سنت رسول ؐ ہے ۔کھانا انسان کی بنیادی ضرورت تو ہے ہی مگر مختلف ممالک اور معاشروں میں اس کا مذہبی ،اخلاقی یا سماجی بنیادوں پر بہت احترام بھی کیا جاتا ہےکہیں مشکل سے کمائی گئی دو وقت کی روٹی کہہ کر اور کہیں خدا کے عطا کردہ رزق کا نام دیکر خصوصا” ہمارا دین اسلام تو رزق کے بارے میں بہت سختی سے احترام کی ہدایت کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے لاکھوں گھرانوں میں آج بھی خوراک کے ضیاع کو گناہ سمجھا جاتا ہےآج بھی روٹی کا ٹکڑا یا کوئی بھی رزق کا دانہ زمین پر گر جاے تو اسے اٹھا کر چوما جاتا ہے اور اس رزق کے ضیاع کو رزق کی بےادبی تصور کی جاتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اتنی نعمتوں سے نوازا ہے کہ انہیں اگر شمار کرنا چاہیں تو شمار کرنا ممکن نہیں ہے لیکن بہت کم ایسے لوگ ہیں جو ان نعمتوں کو محسوس کریں اور ان کا شکر بجا لائیں ۔لفظ “نعمت ” بولتے یا سنتے ہی ذہن میں عام طور پر مال دولت اور روپے پیسے کا خیال ہی آتا ہے بلاشبہ یہ بھی اللہ کی بڑی نعمت ہوتی ہیں لیکن اس سے بڑھ کر بےشمار ایسی نعمتیں انسان کو عطا کی گئی ہیں جن کی قدر وقیمت کا اندازہ بھی لگانا ممکن نہیں ہے جیسے صحت و تندرستی اور انسانی اعضا کا سلامت ہونا اور ہر وہ سانس جو ہماری زندگی کی ضمانت دیتا ہے ،ہوا اور پانی کا ہر قطرہ اور غذا کا ہر ہر دانہ جو ہماری بھوک وپیاس بجھاتا ہے یہ کتنی بڑی نعمت ہے اور ناجانے اس طرح کی کتنی نعمتیں ہیں جن کو ہم شب وروز استعمال کرتے ہیں لیکن ان کے بارے تصور نہیں ہوتا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی ،اہم اور قابل قدر نعمتیں ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ ہم ان کی صحیح طرح قدر نہیں کر پاتے اور جب یہ نعمتیں ہاتھ سے چلی جاتی ہیں تب کہیں ان نعمتوں کے کھو دینے کا احسا س ہوتا ہے رسول اللہ ؐ نے فرمایا ہے کہ “پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو جوا نی کو بڑھاپے سے پہلے ،صحت کو مرض سے پہلے ،دولت کو غربت سے پہلے ،فراغت کو مشغولیت سے پہلے ،اور زندگی کو موت سے پہلے” اس لیے جوانی ،زندگی ،مال ودولت ،صحت وتندرستی ،رزق اور خالی وقت یہ وہ چیزیں ہیں جن کی قدر کرنا اور ان کا درست اور صیح استعمال اور ساتھ ساتھ ان کی حفاظت کا اہتمام دراصل ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا طریقہ ہوتا ہے ۔یاد رہے کہ یہ نعمتیں کسی کو ہمیشہ کے لیے نہیں دی جاتیں بلکہ عروج وزوال قانون قدرت ہے وقت یکساں نہیں رہتا ہماری ناشکری اور بےقدری کی باعث انسان سے چھن بھی جاتی ہیں ہمیں ان تما م نعمتوں کی حفاظت اور قدر کرنی چاہیے اور ان کا ضیاع روکنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی عطاکردہ نعمتوں پر ہمارے تشکر کا محتاج نہیں اوراگر وہ شکرگزاری کا حکم دیتا ہے تو وہ بھی ہم پر ایک اور نعمت کا موجب ہے اور ایک اعلیٰ درجہ کا تربیتی انداز ہے ۔شکر کا مطلب زبانی شکر یا الحمداللہ ہی کافی نہیں ہے، بزرگ شکر کےتین مراحلہ بیان کرتے ہیں پہلا یہ کہ سنجیدگی سے غور کیا جاے کہ نعمت عطا کرنے والا کون ہے یہ توجہ ،ایمان اور آگاہی شکر کا پہلا ستون ہے دوسرا مرحلہ اس سے بھی بالاتر ہے اور وہ عمل کا مرحلہ کہلاتا ہے یعنی شکر یہ ہےکہ ہم پوری طرح سے غور کریں کہ ہر نعمت ہمیں کس مقصد کے لیے دی گئی ہے اور اسے ہم اس کے اپنے مقام پر صرف کریں اور اگر ایسا نہ کیا تو پھر ہم نے کفرا ن نعمت کیا اس لیے بزرگ فرماتے ہیں شکر یہ ہے کہ بندہ ہر نعمت کو اس کے مصرف ہی میں صرف کرے ۔اسلام اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کے اسراف سے سختی سے منع کرتا ہے بلکہ فضول خرچ یا اسراف کرنے والے کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے ۔ارشاد ربانی ہے کہ ” اور کھاو اور پیو اور اسراف نہ کرو بےشک اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ” کہتے ہیں کہ دنیا میں ایک ارب سے زیادہ لوگ مضر صحت غذا کھانے پر مجبور ہیں دوسری جانب روزآنہ لاکھوں ٹن غذا کوڑے میں پھینک کر ضائع کر دی جاتی ہے اقوام متحدہ کے مطابق سالانہ ایک ارب تیس کروڑ ٹن سے زائد خوراک ضائع ہو جاتی ہے ۔گھروں میں ضائع ہونے والی خوراک کی شرح ساٹھ فیصد بتائی جاتی ہے جبکہ شادی ہال ،ہوٹل اور ریسٹورنٹس کا سترہ فیصد کھانا کوڑے کی نظر ہو جاتا ہے ائیر لائنز میں بھی بچ جانے والی خوراک کی بڑی مقدار کوڑے دان کی نذر ہو جاتی ہے ۔
اشفاق احمد خان مرحوم فرماتے تھے کہ “ایک بات میری روح پر ضرور بوجھ ڈالتی ہے جب میں کہیں پانی کا کوئی فضول کھلا ہوا نل یا کوئی بجلی کا بلب بلا ضرورت جلتے ہوے دیکھتا ہوں تو میرے دل سے یہ آواز آتی ہے کہ اگر یہ نل یا بلب بلاوجہ چل رہا ہے تو ملک میں کسی نا کسی کا حق تھا جو اس سے محروم ہو رہا ہے ۔” حقیقت یہ ہے کہ اسراف اور فضول خرچی چاہے جس بھی شعبہ یا جگہ ہو دوسروں کا حق مارنے کے مترادف ہے جسے کسی طور درست یا جائز قرار نہیں دیا جاسکتا اسلام نے خرچ کرنے میں اعتدال و میانہ روی کا حکم دیا ہے ہمارے معاشرے میں” وقت “کے بعد جس نعمت خداوندی کا سب سے زیادہ ضیاع دیکھنے میں آتا ہے وہ “رزق” ہے ۔دنیا کی بیس فیصد آبادی بروقت اور اچھی خوراک سے محروم ہے ہمارے ملک میں رزق اور کھانا ضائع کرنے کے بےشمار طریقے دیکھنے کو ملتے ہیں جس میں شادی اور تقریبات سرفہرست ہیں ایک جائزے کے مطابق ہر شادی یا تقریب میں اوسطا’ ایک تہائی کھانا ضائع ہو جاتا ہے ایک اور تحقیق کے مطابق ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے بڑے شہروں میں جس قدر خواراک کا ضیاع ہوتا ہے اس کے دسویں حصے سے دنیا میں بھوک سے مرنے والے لاکھوں قحط زدہ افراد کو دو وقت کا کھانا فراہم کیا جاسکتا ہے اس بارے میں ہمیں بس ایک ذرا اپنی سوچ کا انداز بدلنے کی ضروت ہے۔
پچھلے سال اللہ کے فضل سے بڑے عرصہ بعد عمرہ کرنے اور روضہ رسول پر حاضری کی سعادت حاصل ہوئی تو وہاں جاکر دیکھا کی وہاں تو سب کچھ بدل چکا ہے نہ وہ بازار نظر آے اور نہ وہ پہاڑیاں دکھائی دیں نہ عمارات ہی پرانی والی تھیں لیکن لوگوں کا مہمان نوازی کا جذبہ وہی پرانہ ہی نظر آیا وہاں موجود ہر شخص زائرین کی خدمت میں پیش پیش ہوتا ہے اور کھانا کھلانے کے لیے اسقدر بے چین دکھائی دیتا ہے کہ اسے انکار کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا ۔لیکن درد ناک بات یہ محسوس ہوئی کہ شوق مہمان نوازی میں بےتحاشا کھانے کا آرڈر دیا جاتا ہے جس میں سے بچ جانے والا کھانا ضائع کر دیا جاتا ہے۔بچ جانے والے کھانے کو یوں ضائع کردینے سے بہت بہتر ہوتا کہ اسے کسی ضرورت مند تک پہنچا دیا جاے ۔بےشک اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ نعمتوں سے لطف اٹھانا چاہیے مگر ان نعمتوں کی قدر کے ساتھ ساتھ اپنے اخراجات میں اسراف سے اجتناب ضروری ہے ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہے اور کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم خود بھی رزق کی ناقدری نہ کریں اور اپنے زیر دستوں کو بھی اس سے بچانے کی فکر کریں تو کتنے غریبوں کی بھوک کا علاج اور ان کے فاقوں کا مداوا ہو سکتا ہے اس وقت اگر مال ودولت کی فراوانی کے زمانے میں ہم رزق کے ضیاع اور بے قدری کے یہ نقوش پیش کریں گے تو خدانخواستہ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے رزق سے برکت ختم ہوتی چلی جاے گی کہتے ہیں کہ نعمتون کا ضیاع نعمتوں سے محرومی کا باعث بن جاتا ہے ۔ اگر ہم تھوڑی سی منصوبہ بندی کرلیں تو اس کھانے کومحفوظ کرکے ان مستحق لوگوں تک پہنچایا جاسکتاہے جو دو وقت کے کھانے سے محروم ہیں اگر ہم اپنی سوچ کو تھوڑا سا بدل لیں اور اللہ کے عطا کردہ رزق کی قدر کریں تو ناجانے کتنے غریبوں کی بھوک اور فاقوں کا مداوا ہو سکتا ہے ۔بےشک اللہ تعالٰی ہی رازق ہے اور وہ ہر ذی روح کے لیے وافر رزق مہیا کرتا ہے لیکن ہماری دنیا وی تقسیم اس میں توازن برقرار نہیں رکھ پاتی جو ایک لمحہ فکریہ ہے ؟ آئیں بھوک کے خاتمے کے لیے ” زیرو ہنگر”پروگرام کے تحت دنیا کے تمام انسانوں کو دی جانے والی تجاویز اور اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہوکر بھوک کے خاتمے اور خوراک کے ضیاع کے خلاف جنگ اور جدوجہد میں اپنا انفرادی اور اجتماعی حصہ ڈالنے کے لیے اپنی سوچ کا انداز بدلیں کہ ضرورت سے زیادہ ہر شے کا ضیاع دراصل کسی دوسرے مستحق کا حق مارنے کے مترادف ہوتا ہے ۔