حسنین جمیل کی عجب فرمائش

44

حسنین جمیل سے میری پہلی ملاقات 1996 میں روزنامہ مساوات کے ڈیوس روڈ آفس میں ہوئی تھی
آفس کچھ مہینے قبل ہی یہاں منتقل ہوا تھا
دفترچونکہ زیرزمین واقع تھا اس لیے جو بھی بغیر سیڑھی کے سلائیڈ نما راستے سے نیچے اترتا تو خوامخواہ ضرورت سے زیادہ تیز اور تھوڑا گھبرایا اور سانس پھولا ہوا محسوس ہوتا
حسنین بھی جب آفس کے اندر پہنچا تو اپنے قدرے بھاری بھرکم جسم کے ساتھ اوپر نیچے ہوتی ہوئی اپنی سانسوں کو درست کر رہا تھا۔
ویسے تو یہ اب بھی بات کرے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسے اپنا گلا صاف کرنا چاہیے
مجھے بعد میں پتا چلا کہ یہ تو ریڈیو پر بھی کام کرتا ہے ،پھر بھی خدا جانے اس کا گلا کیوں صاف نہیں ، یہ تو خدا کا شکر ہے کہ یہ گاتا نہیں ورنہ اس کے چاہنے والوں کو گیلے سر سننے کو ملتے ۔
مجھے یاد نہیں کہ حسنین کے ساتھ میری پہلی ملاقات کسی ریفرنس کے ذریعے ہوئی البتہ اس کے ایک ماموں مساوات میں کالم لکھا کرتے تھے۔
حسنین کے توسط سے مساوات کے فلمی ایڈیشن کے لیے اس دور کے سٹار اداکار عجب گل کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا، عجب گل نے حسنین کے ساتھ جس محبت کا اظہار کیا وہ مجھے آج بھی یاد ہے
اور میں حیران تھا کہ ایک سٹار کیسے کسی کے ساتھ اس قدر الفت کااظہا ر کرسکتا ہے اور خاص طور پر ایک ایسے نوجوان کے ساتھ جو خود شعبہ صحافت میں نووارد ہو۔
حسنین جمیل کے ساتھ یہ میرا پہلا تعارف تھا ،دہائیوں بعد اس پہلی ملاقات کا تذکرہ کرنے کی وجہ گذشتہ دنوں کئی سال سے دیار غیر میں بسے ہمارے دوست حسنین کا فون أیا جس میں اس نے کہا کہ کوئی لڑکی آپ کوفون کرے گی اور میرے بارے میں کچھ بات کرے گی
آپ بات کر لیجیے گا،اس فون کی وجہ بھی حسنین نے بتائی کہ فیصل آباد کی ایک سٹوڈنٹ اس کی ایک کتاب پر تھیسز کر رہی ہے اور میرے شخصی حوالے سے اسے کچھ معلومات درکار ہوں گی ۔
حسنین کے اس میسیج پر مجھے خوشی ہوئی کہ کم ازکم وہ نوجوانی میں ہی اس مقام پر پہنچ گیا
جہاں کئی سینئر عمر بھر نہیں پہنچ پاتے ۔یعنی ان کے کام یا شخصیت بارے تھیسز تو دور ذکر بھی نہیں ہو پاتا۔ حیرت بھی کہ اگلے روز سچ مچ اس بچی نے مجھے کال کر کے حسنین جمیل صاحب بارے کچھ لکھنے کا کہا۔
ہمارے بچے اپنے تھیسز سے متعلق دوسروں کی تحریر پر اس قدر انحصار کرتے ہیں اس کا مجھے پہلے سے تجربہ تھا اس لیے فوراً حامی بھرلی ۔زیر نظر تحریر اسی حوالے سے کچھ کانٹ چھانٹ کے بعد پیش کی جا رہی ہے۔
کانٹ چھانٹ سے ہماری مراد”کالم برابر تحریر“ سے ہے۔
گورا چٹا رنگ حسنین جمیل، ایک زمانے میں اس کے سر پر بال بھی تھے ،مزاجاً تابعدار اور اس کا یہ مزاج آج بھی برقرار ہے ۔90 کی دہائی میں ہم مساوات میں حسنین گاہے بگاہے اپنی فلمی خبریں اور آرٹیکلز لے کر آتا رہتا۔
اس دورمیں چوں کہ کاغذ قلم کا استعمال کافی تھا اس لیے حسنین بھی اپنی تحریر جب لے کر آتا تو گویا کوئی امتحان شروع ہو جاتا ،اسے لکھ کر دوبارہ پڑھنے کی عادت نہیں تھی
ممکن ہے اب یہ عادت بدل گئی ہو لیکن اپنی اسی عادت کی وجہ سے یہ بہت غلطیاں کرتا تھا اور میں سر پکڑ لیتا ۔
اردو کے ساتھ یہ سلوک برداشت کرنا خاصا مشکل تھا لیکن حسنین شاید انگلش میڈیم تھا اور اس کے ساتھ ہمارا معاملہ” پہلی نظر کا پیار“والا تھا
سو اسی لیے اس خواہش کے ساتھ اس کا ساتھ دینے کی کوشش کی کہ کہیں یہ میرے برے رویے کی وجہ سے باغی نہ ہو جائے ۔ وقت گزرتا گیا ،حسنین سے گاہے بگاہے ملاقات رہتی
،پتا چلتا رہتا کہ کیا کیا کر رہا ہے۔ حسنین ایک جگہ ٹک کر نہیں بیٹھا ،جب بھی ملاقات ہوتی تو معلوم پڑتا کہ اب فلاں جگہ کام کر رہا ہے۔اسی طرح ایک مرتبہ لاہور پریس کلب میں ملا تو بتایا کہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کا پی آر او بن گیا ہے ۔خوشی ہوئی کہ چلو کہیں ڈھنگ کی جگہ پہنچ گیا ہے ،لیکن ہمارا یہ خیال بھی خام ہی ثابت ہوا ،اگلی ملاقات میں یہ کہیں اور تھا۔خوشی اس بات کی تھی کہ یہ رکا نہیں ،اچھی بری جیسی بھی نوکری تھی ،کرتا اور آگے بڑھتا رہا۔ حسنین ہفت روزہ ” ہم شہری “ کے لیے بھی کام کرتا رہا ،یہ ہفت روز ہ بڑی شاندار کامیابی لیے ابھرا لیکن کچھ عرصے بعد ہی پرنٹ میڈیا کے زوال کی نذر ہو گیا ۔ حسنین اس کے لیے آرٹیکلز لکھنے کے ساتھ ساتھ اس کے ایف ایم ریڈیو کے لیے بھی سارا دن شہر بھر کی خبریں اکٹھی کرتا ،انہیں بناتا اور بہ طور نیوز کاسٹر پڑھتا بھی ۔ ایک روز اپنی کتاب ،غالباً اس کانام ”ہم لوگ ‘ ‘ تھا یا اس سے ملتا جلتا ،لے کر آیا ،مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ تخلیق کا سلسلہ جاری ہے ۔کتاب پڑھ کر حسنین کی سوچ کے اس زاویے کو سمجھنے کا موقع ملا جس سے میں اس کے ساتھ اپنی بہت سی مختصر ملاقاتوں میں آگاہ نہ ہو سکا تھا ۔بائیں بازو کی سوچ کے حامل حسنین جمیل کی وہ کہانیاں پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ اگرچہ موجودہ دور ایسی سوچ رکھنے والوں کے لیے خاصا کٹھن ہے تاہم خوشی اس بات کی تھی کہ حسنین کو اپنے اظہار کے لیے زیادہ لمبا انتظار نہیں کرنا پڑا ۔اس کتاب پر میں نے شاید اس وقت ایک کالم بھی لکھا تھا اور نشاندہی کی تھی کہ حسنین نے ہمیشہ کی طرح عجلت کا مظاہرہ کیا اور اس کی اچھی طرح پروف ریڈنگ نہیں کی۔ اس نے اپنی اس غلطی کا اعتراف بھی کیا لیکن اپنی مستقل مزاجی کی وجہ سے سیکھا نہیں ، اگلی کتاب میں بھی کئی جگہ پر لفظوں کی غلطیاں موجود تھیں۔
وقت گزرتا رہا پھر ایک روز مجھے وٹس ایپ پر حسنین کے نمبر سے ایک تقریب کا میسج ملا کہ پاک ٹی ہاﺅس میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا اجلاس ہے ،آپ نے شرکت کرنی ہے۔ حسنین غالباً اس کا سیکرٹری یا شاید جوائنٹ سیکرٹری تھا ۔میں چوں کہ اس قدر ترقی پسند نہیں جس طرح انجمن ترقی پسند مصنفین کے احباب ہیں ،اس لیے حسنین کے” دور اقتدار“ کے دوران انجمن کے کسی اجلاس میں شرکت نہ کر سکا ۔اگرچہ تب تک میری کتاب ” جگ بیتیاں“ شائع ہو چکی تھی اور حسنین نے اس کے حوالے سے تقریب کرانے کا وعدہ بھی کیا جو اس کی سیکرٹری شپ کے دوران وفا نہ ہو سکا ، میں منتظر رہا اور یہ کہیں مصروف ۔بہ طور انسان میں نے حسنین کو بہت خوش اخلاق پایا ،آج تک میرا بہت زیادہ احترام اس لیے بھی کرتا ہے کہ اس کا یہ خیال ہے کہ اس کی صحافت کی ابتداء میرے توسط سے ہوئی حالاں کہ یہ جس قدر محنتی تھا ،اسے آگے ہی بڑھنا تھا۔ اوراب یہ اس قدر آگے بڑھ چکا ہے کہ دیارغیر میں ایک نئی دنیا بسالی ہے لیکن لاہور پریس کلب کو مس کرتا ہے ۔

خواجہ آفتا ب حسن

12/03/24
https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-8-1-scaled.jpg

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.