بس ہوسٹس اور معاشرتی رویے _ ایک تلخ حقیقت

تحریر: انجینئر بخت سید یوسفزئی - قلمِ حق (بریڈفورڈ، انگلینڈ) (engr.bakht@gmail.com)

8

معاشرے کی ترقی اور سہولت کے اس دور میں جب سفر کو آسان بنانے کے لیے مختلف کمپنیاں بس ہوسٹس کے فرائض متعارف کروا رہی ہیں، تو دوسری طرف ان معصوم لڑکیوں کو جنہیں عزت و احترام کے ساتھ پیش آنا چاہیے، انہیں آئے دن تضحیک، غلیظ رویوں اور ذلت آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک بیٹی، ایک بہن اور ایک ماں جب اپنے گھر کے حالات بہتر بنانے کے لیے میدانِ عمل میں نکلتی ہے تو اس کا مقصد صرف اور صرف اپنے خاندان کی کفالت اور عزت کا تحفظ ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرے میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو ان کے کام کو کمتر سمجھ کر ان کی عزت سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک بس ہوسٹس مریم کی کہانی ہمارے معاشرتی رویوں پر کئی سوالات چھوڑتی ہے۔ مریم اپنی ماں کے ساتھ بات کرتے ہوئے آنکھوں میں نمی لیے بتاتی ہے کہ کس طرح ایک مسافر نے اسے بیٹی کہہ کر عیدی دی۔ یہ اس کے لیے خوشی اور دکھ کا ملا جلا لمحہ تھا۔ خوشی اس بات کی کہ آج بھی انسانیت زندہ ہے، اور دکھ اس حقیقت کا کہ ایسے رویے روزمرہ میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اکثر اوقات یہی لڑکیاں مسافروں کی غلیظ نظروں، جملوں، اور غیر اخلاقی حرکات کا نشانہ بنتی ہیں۔ ان کی مسکراہٹ کے پیچھے کئی دکھ چھپے ہوتے ہیں اور ان کی خاموشی اس معاشرتی بے حسی کی عکاسی کرتی ہے جسے ہم نے معمول سمجھ لیا ہے۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ان لڑکیوں پر تنقید کرتے ہوئے یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ عورتوں کو گھروں میں رہنا چاہیے۔ یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ عورت کی اصل عزت اور تحفظ اس کا گھر ہے، لیکن وہ لوگ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ بعض اوقات حالات عورت کو گھر سے نکلنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ مریم کے پاس کوئی اور سہارا نہیں، اس کے والد دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، اور وہی اپنے گھر کی واحد کفیل ہے۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ماں، اپنے چھوٹے بھائی اور بہن کی پرورش کرے، ان کی تعلیم کے اخراجات پورے کرے اور ان کے بہتر مستقبل کے لیے جدوجہد کرے۔ ایسے میں اگر وہ گھر سے نکل کر محنت کرتی ہے تو یہ کوئی عیب یا گناہ نہیں بلکہ یہ عزم اور قربانی کی ایک روشن مثال ہے۔

ہمارا دین اسلام عورت کو عزت، وقار اور احترام کا درجہ دیتا ہے۔ قرآنِ پاک میں صاف الفاظ میں فرمایا گیا ہے: “اور عورتوں سے نرمی کے ساتھ زندگی بسر کرو” (النساء: 19)۔ اس آیت کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ عورت کو معاشرے میں تضحیک یا اذیت دینا نہ صرف گناہ ہے بلکہ یہ انسانیت کے بنیادی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ یہ افسوسناک ہے کہ ایک طرف ہم زبان سے عورت کی عزت کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف عملی طور پر ان کی تضحیک میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔

یہ سوال آج ہر ذی شعور کے لیے ہے کہ آخر کیوں ہم بس ہوسٹس یا کسی بھی ورکنگ خاتون کو ان کی نوکری کی بنا پر حقیر سمجھتے ہیں؟ کیا یہ ہمارے معاشرے کی کمزوری نہیں کہ ہم اپنی بہن بیٹیوں کو عزت دینے کے بجائے ان پر الزام تراشی اور غیر اخلاقی رویے اپناتے ہیں؟ ہمارا فرض ہے کہ ہم ایسے افراد کو روکیں، ان کے رویے پر آواز بلند کریں اور معاشرتی اصلاح کی طرف بڑھیں۔ معاشرے میں جب تک ہر فرد یہ سوچ نہ اپنائے کہ دوسروں کی بیٹی بھی میری ہی بیٹی ہے، تب تک عزت اور وقار کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔

مریم جیسے کردار ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ ہر کالی بھیڑ کے باوجود معاشرے میں اچھے لوگ بھی موجود ہیں۔ ایک اجنبی شخص نے اسے بیٹی کہہ کر جو عزت دی، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر نیت صاف ہو تو معاشرے میں روشنی کے چراغ جل سکتے ہیں۔ اگر چند لوگ اچھے کردار کے ساتھ سامنے آئیں تو نہ صرف ایک فرد کا حوصلہ بڑھتا ہے بلکہ یہ معاشرتی رویوں میں تبدیلی کی طرف پہلا قدم بن سکتا ہے۔

بس ہوسٹس یا کوئی بھی ورکنگ خاتون معاشرے کا حصہ ہیں اور ان کی عزت کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں ان کے ساتھ ایسے پیش آنا چاہیے جیسے ہم اپنی بہن یا بیٹی کے ساتھ پیش آنے کی توقع رکھتے ہیں۔ اگر معاشرہ انہیں تحقیر کی بجائے عزت دینا شروع کر دے تو یہ معاشرہ خود بخود بہتر ہو سکتا ہے اور ہم آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ اور باوقار سماج دے سکتے ہیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.