“خدا کا خوف کریں اماں، یہ کیا کر رہی ہیں آپ؟”

#آپا_منزہ_جاوید اسلام آباد "افسانہ " "دروازے کے اُس پار

15

میری آواز کانپ رہی تھی۔ شاید رو دی تھی، شاید صرف اندر کا شور باہر آ گیا تھا۔ میں حیران تھی، دکھ زدہ، اور خوفزدہ… جیسے زمین پر کھڑی کوئی جڑ سے اکھڑ جائے اور اسے خود خبر نہ ہو۔
آج میری شادی کا دن تھا۔
گلابی جوڑا، جس پر ناز کیا تھا، وہ اب میرے جسم پر بوجھ سا لگنے لگا تھا۔
میرے ہاتھوں کی مہندی ابھی تازہ تھی، انگلیوں کے پور چمک رہے تھے۔ کانوں میں ماں کے دیے وہ جھمکے تھے، جو انہوں نے بڑے پیارے سے یری شادی کے لیے رکھا تھا جنہیں وہ برسوں سے سنبھالتی آئی تھیں — کہ یہ میری شادی پر پہنائے گی۔
اور پھر… بس ایک لمحہ، سب بدل گیا۔
اماں نے میری کلائی مضبوطی سے تھامی، جیسے میں قیدی ہوں۔ ان کی گرفت میں سردی نہیں، غضب تھا۔ “چل، اندر جا۔ چیخے گی نہیں۔ بدنامی ہوگی۔” ان کی آواز میں وہ لہجہ تھا جسے میں نے صرف دوسروں کے لیے سنا تھا،
خود کے لیے کبھی نہیں۔
“اماں، کیا ہوا ہے؟ کیا کر رہی ہیں آپ؟”
“بکواس بند کر، اور سیدھی ہو جا۔ بہت بول چکی ہے تُو جتنا بولنا تھا۔ اب وقت آیا ہے سچ کا سامنا کرنے کا۔”
پہلی بار مجھے اپنی ماں کی آنکھوں میں اجنبیت نظر آئی۔ وہ آنکھیں جن میں ہمیشہ دعا، پیار، اور فکر ہوا کرتی تھی، آج ان میں فیصلہ تھا… اور فیصلہ میرے خلاف۔
انہوں نے مجھے اسٹور روم کی طرف دھکیلا۔
“یہ کیا مذاق ہے؟ آج میری شادی ہے!”
“تھی۔ اب نہیں ہے۔”
دروازہ دھڑ سے بند ہوا۔ میری چیخ اندر ہی دم توڑ گئی۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔ نمی، گرد، بوسیدگی اور خاموشی — جیسے سالوں پرانا کوئی راز سانس لے رہا ہو۔ دیوار کے ساتھ ایک پرانی چارپائی تھی جس پر ماضی سویا ہوا تھا،
اور ایک بوسیدہ الماری جو اندر کے دکھ چھپا رہی تھی۔
میں دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ میری سانسیں اونچی ہو گئیں۔ دل جیسے پسلیوں میں قید ہو، اور روح کچھ کھو بیٹھی ہو۔
باہر ساز بج رہے تھے، پیار کے گیت گائے جا رہے تھے۔ وہی گیت، جو میری زندگی کے ہونے تھے — اب کسی اور کی پیشانی پر سجائے جا رہے تھے۔
ہمنہ، میری چھوٹی بہن…
کیا وہی اب میری جگہ لے رہی تھی؟
میرے کپڑوں میں؟
میرے خوابوں میں؟
میرے نصیب میں؟
میں نے اپنے ہاتھ کی مہندی کو دیکھا — وہ اب بھی خوشبو دے رہی تھی۔ مگر اب وہ خوشبو غم کی تھی، جیسے کوئلے پر گلاب رکھ دیا ہو۔
مجھے کچھ یاد آیا…
زوار کی وہ بات، جب میں نے کال پر اپنی سہیلی کے ساتھ کلاس فیلو سے اسائنمنٹ پر بات کی تھی۔ تو اس نے پوچھا تھا
“کون تھا؟”
“بس گروپ اسائنمنٹ تھا، تم جانتے ہو نا، سب یونی میں یہی کرتے ہیں۔”
“مجھے پسند نہیں۔ تم کسی اور سے بات نہ کیا کرو۔”
میں نے معذرت کی تھی، وعدہ کیا تھا۔ لیکن وہ بات زوار کے دل میں کہیں بیٹھ گئی تھی — شاید وہاں زہر کی طرح پھیل گئی۔
میں نہیں جانتی تھی کہ اماں کو اس بات کا پتہ کب چلا کیسے چلا ہے۔ شاید زوار نے خود انہیں بتایا۔
یا شاید… وہ خود بھی چاہتی تھیں کہ میں اس شادی سے ہٹ جاؤں۔ وہ ہمیشہ ہمنہ کو مجھ پر ترجیح دیتی تھیں۔
اور اب انہیں بہانہ بھی مل گیا تھا۔
دروازے کے اُس پار زندگی جاگ رہی تھی، قہقہے لگ رہے تھے، گجرے بٹ رہے تھے۔
اور میں… میں دروازے کے اِس پار سانس لینا بھول گئی تھی۔
کیا محبت اتنی ناپائیدار ہوتی ہے؟
کیا اعتبار صرف لفظ ہوتا ہے؟
کیا بیٹی ہونا بس ایک عارضی شناخت ہے، جو کبھی بھی چھین لی جاتی ہے؟
ایک وقت آیا، جب قدموں کی چاپ آئی۔ دروازہ کھلا۔ اماں کی آنکھوں میں کوئی رحم نہیں تھا۔
“چل نکل۔ بدذات! ہمیں رسوا کرنے چلی تھی؟ بھاگنے کی تیاری کر رہی تھی، ہاں؟”
“میں؟ اماں… آپ کی بیٹی ہوں۔ بھاگنے کا سوچ بھی نہیں سکتی!”
“چپ کر! زوار نے سب بتایا ہے۔ ہمارے پاس ثبوت بھی ہیں۔ تُو کسی اور سے باتیں کرتی رہتی تھی۔ ہم نے چھوٹی کو تمہاری جگہ چن لیا ہے ۔ تُو ہمارے لیے مر چکی ہے۔”
میں کچھ کہہ نہیں سکی۔ زبان جیسے سینے میں اٹک گئی۔
دروازہ بند ہوا، اس بار ہمیشہ کے لیے۔
میں لڑی، گری، گڑگڑائی… لیکن کوئی نہ سن پایا۔ نہ ابا، نہ زوار، نہ کوئ اور… شاید وقت میرا امتحان لے رہا تھا۔
میں دروازے کے باہر آئی تو روشنی میں دھند تھی — یا شاید آنکھوں کے آگے پردہ تھا۔
دروازہ جو مجھ پر بند ہوا، اُس کے ساتھ میرا نام، پہچان، اور خواب بھی بند ہو گئے۔
صحن کی دیوار کے ساتھ بیٹھ کر میں نے آسمان کی طرف دیکھا۔ کبھی ابا یہی چھت پر بیٹھ کر
مجھے چاند دکھایا کرتے تھے۔اور دعا کرتے تھے میرے الله “میری بیٹی کو کوئی دکھ نہ دینا،
اتنے میں ابا نیچے آئے، مجھے گیٹ کے پاس بیٹھا دیکھا، ایسے میری طرف دیکھا
جیسے کسی اجنبی کو دیکھا جاتا ہے، وہ میری طرف سے منہ موڑ کر ویسے ہی آگے نکل گئے۔
میں نے ان کے پاؤں پکڑنے چاہے۔
“ابا… میں نے کچھ نہیں کیا، مجھے واپس لے جائیں!”
انہوں نے ایک لمحہ کو آنکھیں بند کیں، اور پھر ایک قدم پیچھے ہٹ گئے۔
“تو تو مر چکی ہے ہمارے لیے۔”
کبھی کبھی ایک جملہ انسان کو مٹی کر دیتا ہے۔
وہ لمحہ میری پہلی موت تھی۔
میں اٹھی، لڑی، مگر کوئی دروازہ نہیں کھلا۔
زمین جیسے چپ ہو گئی تھی، اور آسمان نے منہ پھیر لیا تھا۔
دوپہر دھیرے دھیرے ۔
شام میں ڈھلی۔
میں چھت کی نکڑ پر جا کر بیٹھ گئی۔
شادی کے گیتوں کی بازگشت اب بھی سنائی دے رہی تھی — لیکن اب وہ کسی اور دلہن کے لیے تھے۔
میں نہیں جانتی تھی کہ کہاں جاؤں، کس کو پکاروں۔
اسی لمحے وہ آیا۔
زوار…
اب بھی ویسا ہی، مہنگے لباس میں، قیمتی گھڑی پہنے، مگر چہرے پر اب محبت نہیں تھی — حقارت تھی، غصہ تھا، شکست

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.