اکیلی بیٹی، اکیلی موت: حمیرا اصغر اور ہمارا اجتماعی فکری دیوالیہ پن

تحریر: ڈاکٹر عمرانہ مشتاق

5

کراچی کے ایک تنہا فلیٹ سے ملنے والی ایک لاوارث لاش، جو اب بدبو سے لبریز تھی ہمیں ایک بار پھر جھنجھوڑنے آئی ہے۔ یہ لاش کسی معمولی عورت کی نہیں، لاہور کی ایک نوجوان شو بز آرٹسٹ، حمیرا اصغر کی تھی، جو کئی ماہ سے اس دنیا سے رخصت ہو چکی تھی بغیر کسی شور کے، بغیر کسی آواز کے، اور بغیر کسی کو اطلاع دیے۔

حمیرا ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کے والدین نے، جیسا کہ اکثر والدین کرتے ہیں، اپنی بیٹی کو عزت، تہذیب اور مذہبی شعور کی بنیاد پر سمجھایا کہ شوبز ایک رنگین دنیا ضرور ہے، مگر یہاں انسان کی وقعت کام سے زیادہ جسم سے جُڑی ہوتی ہے۔ یہاں روشنیوں کے پیچھے اندھیرے بہت گہرے ہوتے ہیں، اور یہاں عزت سے زیادہ شہرت کی بولی لگتی ہے۔

مگر حمیرا نے والدین کی بات کو روایتی قدامت پسندی سمجھا، اسے اپنی “خود مختاری” اور “خوابوں کے قتل” کے مترادف قرار دیا، اور کراچی کا رخ کیا اکیلی، آزاد، بااعتماد۔

کچھ عرصہ تک وہ اسکرین پر چمکتی رہی۔ شاید کچھ کامیابیاں بھی سمیٹیں۔ لیکن پھر اچانک وہ خاموش ہو گئی، سب سے کٹ گئی۔
کوئی خبر نہ لی، کوئی فون نہ کیا، اور کوئی اسے ڈھونڈنے نہ آیا۔
یہاں تک کہ وہ مر گئی۔ اور اس کی موت کی خبر بھی اس کی خوشبو سے نہیں، اس کی لاش کی بدبو سے ملی۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا حمیرا کی موت کا ذمہ دار صرف اس کا باپ ہے؟
یا وہ شوبز کی وہ مصنوعی دنیا ہے جس نے اسے عزت، تحفظ، اور انسانیت کے بنیادی اصولوں سے محروم رکھا
کیا وہ اینکرز سماجی کارکنان، اور خواتین کے حقوق کی علمبردار تنظیمیں، جو ہر وقت “میرا جسم میری مرضی” کے نعرے لگاتی ہیں، کبھی حمیرا کے فلیٹ پر دستک دینے گئیں؟

ہم اُس وقت تو بہت جوش میں آ جاتے ہیں جب کوئی بیٹی کہتی ہے “مجھے اکیلے جینا ہے، اپنے خوابوں کو جینا ہے”
مگر جب وہ خواب تنہائی کی قبر میں دفن ہو جاتے ہیں تو ہم صرف ایک ٹوئٹ، ایک پوسٹ اور ایک ماتمی تبصرہ کر کے خاموش ہو جاتے ہیں۔

اصل سوال یہ ہے
ہم اپنی بیٹیوں کو صرف خواب کیوں دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ خطرات، ذمہ داریاں اور حقیقتیں کیوں نہیں بانٹتے
ہم آزادی کا مطلب “اکیلا جینا” کیوں بتاتے ہیں؟ “اکیلا مرنا” کیوں نہیں؟

شاید حمیرا زندہ رہ سکتی تھی
اگر اس کے ساتھ کوئی ایسا ہاتھ ہوتا جو اسے صرف کام نہ دیتا، بلکہ اُس کا حال بھی پوچھتا۔
اگر وہ سماج جو اسے اسٹیج پر سراہتا تھا اس کی زندگی میں جھانکتا بھی ہوتا۔
اگر وہ معاشرہ جو عورت کے فیصلے کا احترام چاہتا ہے، اُس کی حفاظت کا ضامن بھی ہوتا۔

اور شاید وہ گھر واپس آ سکتی تھی
اگر ہم نے باپ کے مذہبی خیالات کو تنگ نظری نہ کہا ہوتا۔
اگر ہم نے اُس کے والدین کو جذباتی بلیک میلر کے بجائے فکرمند محافظ سمجھا ہوتا۔

لیکن افسوس کہ حمیرا کا المیہ تنہا نہیں۔
حال ہی میں ایک اور ماڈل کی کہانی منظرِ عام پر آئی جو پالتو جانوروں کے ساتھ اکیلی رہتی تھی لا ہور ویڈیوز کے ذریعے نہ صرف شہرت حاصل کر رہی تھی بلکہ اپنی تنہائی اور نفسیاتی پیچیدگیوں کو “آزادی” کا لیبل دے کر بیچ بھی رہی تھی۔ کچھ رپورٹس کے مطابق وہ جانوروں کو نقصان پہنچاتی اور اس سب کو “کامیابی” کا اظہار سمجھتی تھی۔

یہاں سوال صرف معاشرے یا شوبز انڈسٹری کا نہیں بلکہ خود والدین کی شراکت داری کا بھی ہےکیا شہرت اور کمائی کے بدلے ہم اپنی بیٹیوں کے وجود اور فطری تحفظ کو داؤ پر لگا دیتے ہیں؟
کیا کچھ والدین اس سارے “گلیمری” کاروبار میں خود بھی خاموش شراکت دار بن چکے ہیں
کیا ہم نے بچیوں کو صرف یہ سکھایا ہے کہ وہ خود کمائیں خود رہیں اور خود کو کسی کے سامنے جواب دہ نہ سمجھیں۔
اور کیا ہم نے کبھی یہ بتایا کہ آزادی کے ساتھ خطرات بھی ہوتے ہیں خود مختاری کے ساتھ ذمہ داریاں بھی آتی ہیں؟ اور تنہائی بعض اوقات قبر سے بھی زیادہ سرد اور تاریک ہوتی ہے۔

ہم بیٹیوں کو خواب ضرور دیں، مگر ان کے ساتھ خطرات کا شعور، رشتوں کی اہمیت، اور باوقار جدوجہد کا سبق بھی دیں۔
یہ نہ ہو کہ وہ کام کرتے کرتے، مشہور ہوتے ہوتے، اور سب کچھ خود کرتے کرتے خود کو ہی کھو بیٹھیں۔

اب وہ قبر میں ہے۔ اور ہم پھر سے بٹے ہوئے ہیں
ایک طرف وہ طبقہ جو مذہب کو قاتل کہتا ہے،
اور دوسری طرف وہ والدین جو اپنی باقی زندگی اس سوال کے ساتھ گزاریں گے کہ “ہم کہاں غلط تھے؟”

کیا ہم واقعی غلط ہیں۔
یا ہم صرف اس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جو بیٹی کو آزادی تو دیتا ہے،
مگر اُس کی موت پر شرمندہ نہیں ہوتا۔

کاش حمیرا اصغر کی لاش، ہماری بےحسی، ہماری روشن خیالی، اور ہماری نام نہاد ترقی پر ایک مستقل سوالیہ نشان بن جائے۔
ورنہ کل کوئی اور بیٹی، کسی اور شہر میں، کسی اور فلیٹ میں… تنہا مر جائے گی۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.