ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی سیاست اب ایوانوں سے زیادہ “ایکس” یعنی سابق ٹوئٹر پر ہو رہی ہے، جہاں ایک ٹویٹ جمہوریت کو ہلا کر رکھ سکتی ہے، ایک ویڈیو کسی ریاستی ستون کو گرا سکتی ہے، اور ایک پوسٹ کسی کو “غدار” یا “ہیرو” ثابت کر سکتی ہے۔ حال ہی میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا جو بیان سامنے آیا، وہ ایک طرف سچائی کی تلاش کا دعویٰ ہے تو دوسری طرف ایک ایسا اشارہ ہے جو پردے کے پیچھے بیٹھے ان “کی بورڈ وارئیرز” کی طرف ہے جو بظاہر پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ونگ سے منسلک ہیں۔
محسن نقوی کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں مکمل علم ہے کہ آصف زرداری، شہباز شریف اور جنرل عاصم منیر کے خلاف مذموم مہم کے پیچھے کون سے سیاسی ٹھگ ہیں‘‘۔ اگرچہ انہوں نے کسی جماعت یا شخصیت کا نام نہیں لیا، لیکن سیاسی فضا میں سب جانتے ہیں کہ ان کا نشانہ کس طرف ہے: پاکستان تحریک انصاف، جو اس وقت اپنی سیاسی بقا کے لیے ہر ہتھکنڈے کو “بیانیہ” کا نام دے چکی ہے۔
محسن نقوی نے کہا کہ “نہ تو صدر سے استعفیٰ لینے کی بات ہوئی ہے اور نہ ہی چیف آف آرمی سٹاف کے صدر بننے کی کوئی تجویز زیر غور ہے”۔ سوال یہ ہے کہ یہ افواہیں پیدا کہاں سے ہو رہی ہیں؟ اور کس مقصد کے تحت؟ اگر بغور دیکھا جائے تو اس فضا کو پیدا کرنے والے عناصر کا تعلق اسی سیاسی جماعت کے سوشل میڈیا ونگ سے جڑا نظر آتا ہے جو خود کو “متبادل بیانیہ” کا بانی کہتی ہے، لیکن اصل میں وہ ایک “فیک بیانیہ فیکٹری” میں بدل چکی ہے۔
پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا سیل آج کل جھوٹ، مبالغہ، اور گمراہ کن خبروں کے ذریعے ایسی فضا بنا رہا ہے جو نہ صرف قومی اداروں کے وقار کو مجروح کرتی ہے بلکہ عوام کے ذہنوں میں انتشار بھی پیدا کرتی ہے۔ کبھی چیف آف آرمی سٹاف کے استعفے کی جھوٹی خبر، کبھی صدر مملکت کے اختیارات محدود کرنے کی افواہ، کبھی وزرائے اعظم کو غیبی سازشوں کا حصہ ثابت کرنے کی کوشش—یہ سب کچھ کسی دشمن ملک کی پروپیگنڈا مشینری کرتی تو حیرت نہ ہوتی، لیکن جب اپنے ملک کی سیاسی جماعتیں یہ کھیل کھیلیں تو سوال ضرور بنتا ہے۔
پی ٹی آئی جس انداز سے سیاسی فضا کو زہر آلود کر رہی ہے، اس کی جھلک سب سے زیادہ سوشل میڈیا پر نظر آتی ہے۔ پارٹی کے آفیشل اکاؤنٹس سے لے کر فین پیجز تک، سب جگہ ایک ہی کام ہو رہا ہے: جھوٹ گھڑنا، اسے سچ کے لباس میں لپیٹ کر عوام کے ذہن میں اتارنا، اور پھر اس پر جذبات بھڑکانا۔ یہی وہ بیانیہ ہے جس پر محسن نقوی نے شدید ردعمل دیا اور کہا: “جو لوگ اس بیانیے کا حصہ ہیں، وہ چاہیں تو دشمن غیر ملکی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر جو کرنا ہے کر لیں۔”
یہ الفاظ بظاہر سخت ہیں، لیکن حقیقت میں پاکستان کی ریاستی خودمختاری پر اٹھنے والے ان حملوں کا عکس ہیں، جو اندر سے ہو رہے ہیں۔ ہم نے ماضی میں دشمن ایجنسیوں کی پراکسی وارز کا سامنا کیا، لیکن آج ہمیں اپنی ہی سیاسی جماعتوں کی “ففتھ جنریشن وارفیئر” کا سامنا ہے، جو سچ اور جھوٹ کے فرق کو مٹانے کے مشن پر ہے۔
پی ٹی آئی کے سپورٹرز اور ان کے رہنما مسلسل یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ریاست کے تمام ادارے ایک سازش کے تحت عمران خان کو اقتدار سے باہر رکھنا چاہتے ہیں۔ اس بیانیے کو فروغ دینے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ صدرِ پاکستان، آرمی چیف، اور وزیر اعظم جیسے آئینی عہدوں کو بھی اپنے الزامات اور افواہوں کے دائرے میں لے آتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں “عاصم منیر صدر بننے جا رہے ہیں” جیسی خبریں، کسی را ایجنٹ نے نہیں پھیلائیں—بلکہ ہمارے اپنے ’محبان وطن‘ کی بورڈ سے نکلی ہوئی یہ چنگاریاں تھیں۔
مزید المیہ یہ ہے کہ فیک نیوز کا یہ طوفان محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ تک محدود نہیں، بلکہ یہ پاکستان کے اداروں کی ساکھ، ریاستی نظم و نسق، اور بین الاقوامی تعلقات کو بھی متاثر کرتا ہے۔ جب آپ اپنے ہی آرمی چیف کو “صدر بنانے کی سازش” کا حصہ بنا کر پیش کریں گے تو دنیا آپ کے اداروں پر کیسے اعتماد کرے گی؟ کیا ہم چاہتے ہیں کہ ہماری ریاست ایک ’میم سینٹر‘ بن کر رہ جائے، جہاں اقتدار کے فیصلے میمز، وائرل ویڈیوز اور فیک نیوز کی بنیاد پر کیے جائیں؟
محسن نقوی کا بیان اس تناظر میں بالکل بجا ہے کہ ریاست کو مزید خاموش تماشائی نہیں بننا چاہیے۔ جو لوگ اس فیک نیوز انڈسٹری کا حصہ ہیں، ان کو قانونی دائرے میں لانا، ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانچ، اور ان کے پیچھے موجود سازشی دماغوں کو بے نقاب کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ تاہم، اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے خود بھی شفافیت اور سچائی کو اپنائیں، تاکہ جھوٹ کے لیے زمین کمزور ہو جائے۔
پی ٹی آئی کو بھی سوچنا ہوگا کہ اگر وہ واقعی خود کو ایک جمہوری پارٹی سمجھتی ہے تو اس کا طرزِ عمل جمہوری ہونا چاہیے۔ سچائی، دلیل، شائستگی، اور مثبت بیانیہ ایک سیاسی جماعت کی اصل طاقت ہوتے ہیں، نہ کہ جھوٹ، فریب، اور افواہیں۔ اس وقت جو روش اپنائی جا رہی ہے، وہ درحقیقت ایک سیاسی خودکشی ہے، جس میں نہ صرف پی ٹی آئی خود اپنا اعتبار کھو رہی ہے، بلکہ وہ جمہوری عمل کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔
پاکستان کے عوام اب اتنے سادہ لوح نہیں رہے کہ ہر ٹویٹ پر یقین کر لیں، اور ہر افواہ کو سچ مان لیں۔ محسن نقوی کا بیان اگرچہ سخت تھا، مگر وقت کی ضرورت بھی۔ جھوٹ پر مبنی بیانیہ جتنا بھی جذباتی ہو، وہ دیر پا نہیں ہوتا۔ پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وہ فیک نیوز کی سیاست چھوڑ کر عوامی مسائل پر بات کرے، سچ بولے، اور اگر واقعی تبدیلی چاہتی ہے تو