مٹی اوڑھا بیٹا، نور اوڑھی ماں۔۔۔

راحیل قریشی کا کالم

14

کبھی کبھی لفظ خود بخود سجدے میں گر جاتے ہیں جب کسی ایسے غم کا سامنا ہو جو انسانی تحمل کی تمام حدیں پار کر جائے میرے تدریسی معمولات کے دوران ایک  طالب علم کی والدہ سراپا تقدیس، مجسمہ حیا ء،حجاب میں ملفوف،سراپا وقارِ مکتوم سے تعلیمی مشاورت کی غرض سے تشریف لائیں، بالمشافہ گفتگو ہوئی۔جنہوں نے دوران گفتگو  ذکر کیا کہ ان کا ایک نایاب جوہر، انمول چراغ،معصوم روح  ان کا نور دیدہ، لختِ جگر، جگر گوشہ سمیدالدین جو عمر کے اولین اور معصوم  13برس کاتھا سینے میں قرآن پاک کا نور لیے ایک روز اچانک داعی اجل کو لبیک کہہ گیا۔اس ماں کے لبوں پر نہ کوئی آہ تھی، نہ شکوہ، بلکہ استرضاء الہی کا چراغ تھا جو مسلسل جلتا تھا اس کا ایمان، جیسے معرفت کی حدود کو چھو رہا ہو۔ یکایک جیسے گفتگو کا کمرہ قبروں کی کاموشی میں بدل گیا ہر لفظ، ہر لمحۃ جیسے پژمردہ ہو گیا ہو اس لمحے میرے لیے وقت، تدریس، علم سب غیر متعلق ہو گئے۔ وہ ایک ماں تھی جو اپنے جگر گوشے کی موت کا ذکر کر رہی تھی لیکن اس  انداز سے جیسے وہ کوئی عرفانی راز افشا کر رہی ہو۔یہ وہ ماں تھی جو گریہ نہیں کررہی تھی بلکہ قضا کی پیشانی پر بوسہ دے رہی تھی۔تفسیر ابن کثیر میں ہے:
“The believer is tested in his wealth, children and body, and if he remains patient, Allah will raise his rank and expiate his sins.”
غم کی بھٹی میں وہی کندن نکلتا ہے راحیل
جو سوز میں بھی شکر کا تسبیحی وظیفہ کرتا ہے
سمیدالدین کے والدین نے رب سے شکوہ نہیں کیا بلکہ صبر کی چادراوڑھ کر رضا کے سجدے میں جھلک گئے۔ انکے لبوں پر آہ نہیں، استرضائے الہیٰ کی مدھم سی دعا تھی۔ غم نے ان کا دامن نہیں جلایا بلکہ معرفت کے چراغ روشن کر دیے۔ انہوں نے د کھ کو پی کر شکر کا جام پی لیا اور دل کو تسلیم کے دریا میں بہا دیا۔یہ صرف صبر نہیں تھا یہ ایک ماں کی ایمانی معراج تھی جو آزمائش کو عبادت میں ڈھال گئی۔ رب سے شکوہ نہیں کیا، کوئی بین نہ کیا بلکہ نہایت ایمان افراز انداز میں کہا جو ہوا تقدیر الہی کے مطابق ہوا، اللہ سبحان تعالیٰ کا کوئی حکم حکمت و مصلحت سے خالی نہیں اللہ جو کرتا ہے اپنے بندوں کی بہتری کے لیے کرتا ہے یقینا اس میں خیر کا پہلو ہوگا۔ ایمان کا وہ درجہ جو علم کلام کے ہزار صفحے نہ سمجھا سکیں بچے کی والدہ کے ایک فقرے نے مجھے سکھا دیا۔یہ وہ لمحہ تھا جہاں دکھ کی معراج، صبر کا نقطہ عروج بن گیا اور میں یہ جان گیا کہ کچھ مائیں خالی کوکھ نہیں رکھتیں بلکہ ان کے دلوں میں رب کے فیصلے بستے ہیں سمیدالدین کی وفات نے نہ صرف اس خاندان کی کائنات کو بدل دیا بلکہ ان کے زاویہ حیات کو بھی بدل دیا وہ دنیا سے کٹ گئے مگر آسمان سے جڑ گئے۔ اس قلب شکن لمحے نے ان والدین کے دل میں ایمان کی جو شمع روشن کی وہ اب تک فروزاں ہے۔ انہوں نے دنیا کے فریب اور فانی مناظر کو ترک کر کے ایک باطنی انقلاب کو اپنے اندر جنم دیا۔ شرعی پردے کی پاسداری، ذکر واذکار کی ترجیح اور ہرہر بات میں رب کی رضا کو فوقیت دینا شروع کر دی۔
ترمذی شریف میں حضرت ابو موسی ٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب کسی کا کوئی بچہ مرتا ہے تو اللہ سبحان تعالیٰ اپنے فرشتوں سے پوچھتا ہے کیا تم نے میرے بندے کے بچے کی جان قبض کی لی؟ وہ کہتے ہیں  جی۔پھر اللہ سبحان تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے تمنے اس کے جگر کے ٹکڑے کی جان نکال لی؟ وہ کہتے ہیں جی۔ پھر اللہ سبحان تعالیٰ ان سے پو چھتا ہے تومیرے بندے نے کیا کہا۔وہ کہتے ہیں کہ اس رنج و غم میں اس نے تیری حمد کی اور کہا انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا تو اللہ سبحان تعالیٰ ان سے فرماتا ہے میرے اس بندے کے لیے جنت میں ایک گھر تعمیر کرو اور اس کا نام بیت الحمد (شکر کا گھر) رکھو۔
اللہ سبحان تعالی ٰ نے ان کے صبر و استقامت کو انعامِ ثانی کی صورت میں حیات نو بخش کر ایک اور فرزند سے نواز جو خوبخو مرحوم سمیدالدین کی شباہت، اور معصومیت کا مظہر بن کر آیا۔اس فرزند کا نام محمد حید ر رکھا گیا۔جس کے لیے والدین نے عزم مقدس کیا کہ اسے حفظ قرآن پاک کے سفر پر روانہ کریں گے اور آج الحمداللہ محمد حیدر وہ مقدس مقام حاصل کر چکا ہے وہ حامل قران ہے وہ منزل حفظ کا امین ہے۔سمیدالدین محض دفن نہیں ہوا بلکہ ان کے خانوادے کے ہر عمل میں اَمر ہو چکا ہے اوریہ خاندان، ایمان کی راہوں کا راہی بن کر گویا اپنے لخت جگر کو دائمی زندگی کا تحفہ دے رہا ہے۔مولانا رومی نے کہا تھا: “Don’t grieve. Anything you lose comes round in another form.”
ترمذی شریف مین حضرت انس ؓ  فرماتے ہیں جتنی سخت آزمائیش اور مصیبت ہوتی ہے اتنا ہی بڑا اس کا صلہ ہوتا ہے اور اللہ جب کسی گروہ سے محبت کرتا ہے تو انکو مزید نکھارنے اور کندن بنانے کے لیے آزمائیش میں مبتلا کر دیتا ہے پس جو لوگ اللہ کی رضا پر راضی رہیں اللہ بھی ان سے راضی ہوتا ہے اور جو اس آزمائیش میں اللہ سے ناراض ہوں اللہ بھی ان سے ناراض ہو جاتا ہے۔
“Every pain is a lesson, and every lesson is a step towards lights”
جو مائیں اپنے جوان جگر گوشوں کواپنے نوخیز پھولوں کو خود اپنے ہاتھوں سے مٹی کے حوالے کر کے آئی ہیں اور کرب کی اندھیوں میں ہر روز تڑپتی ہیں  ان کے لیے یہ ایک گواہی ہے کہ صبر صرف آنسو روک لینے کا نام نہیں  بلکہ اپنے بکھرے وجود کو رب کی رضا سے جوڑ لینے کا نام ہے جب اللہ سبحان تعالیٰ اولاد  لیتا ہے وہ آزماتا ہے جب دیتا ہے وہ نوازتا ہے اور کچھ مائیں اپنے زخموں سے نور کشید کر لیتی ہیں۔ یہ ماں ہمیں یہ سکھا گئی کہ صدمے تقدیر کی چٹانہیں ہیں لیکن جو ان پر سجدہ ریز ہو جائے اس دنیا کی کوئی طاقت ہلا نہیں سکتی۔یہ صبر،شکر اور قرآن سے جڑنے کی وہ راہ دکھتا ہے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.