باطنی احساسات و کیفیات کا شاعر (عماد اظہر)

تحریر : فیصل زمان چشتی

2

؎ حلقہءِ آب سے تصویر اٹھائی میں نے
دوسری شکل بھی اپنی ہی بنائی میں نے

اسم اور جسم کی تعلیم مکمل دے کر
ساتویں دن مجھے آواز لگائی میں نے

جب ہم کسی تخلیق کار کی فنی عظمت اور شعری خوبیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا خیال و فکر اس کا اندازِ بیان اور لہجہ و اسلوب کیسا ہے اور عہدِ موجود میں باقی تکلیق کاروں سے کیسے منفرد ہے ۔ کیا وہ اسی روانی اور سیلاب میں تو نہیں بہ گیا جس میں ہزاروں شعراء پہلے سے ہی موجود ہیں ۔ باقی لوگوں سے ہر طرح سے جدا ہو کر اپنا خیال اپنی سوچ اور اپنا لہجہ منفرد بنانا ہی کامیانی ہے اور وہی لوگ تخلیقی طور پر زندہ بھی رہتے ہیں ۔ جس طرح آج شعری میدان میں ایک پڑطونگ مچی ہے سینئر جونیئر چھوٹا بڑا ہر کوئی بازی لے جانے کے چکر میں شاعری کا بیڑہ غرق کر رہے ہیں اور مشاعرہ بازی نے خیال و فکر کی جو دھجیاں اڑائی ہیں اور لطافت کو کثافت میں تبدیل کر دیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ایسے ابتر حالات میں ایک خوبصورت ، نظریاتی اور بامقصد شعری مجموعے کا منصہ شہود پر آنا بذاتِ خود ایک معجزہ ہے۔اور قدرت کا ادب پر احسان بھی کہ کوئی ایسا شعری مجموعہ تو سامنے آیا کہ جس کو ہم بڑے فخر اور مان کے ساتھ ادب کا اثاثہ کہہ سکیں اور لوگوں کو بتا سکیں کہ شاعری ایسے بھی کی جا سکتی ہے ۔ میری مراد عماداظہر کے تازہ شعری مجموعے “ساتواں دن” سے ہے ۔عماد اظہر نے اس شعری مجموعے میں اپنی قلنی واردات ، باطنی کشف اور اپنے روحانی سفر کو گواہ بنا کر محفوظ کر دیا ہے ۔ یہ مجاز سے حقیقت کی طرف سفر کر رہے ہیں ۔ عماد اظہر کا جذنہ لافانی اور محبت کا رنگ اتنا پکا اور گہرا ہے جو دنیاوی معاملات کی گرد سے ہر گز ملا نہیں ہوتا اور نہ پھیکا پڑتا ہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مزید خوبصورت ہو رہا ہے ۔ اس مجموعے میں ان کی شاعری سطحی معاملات سے بہت اوپر ہے خالص اور باطنی سچائیوں کا خوبصورت اور نفیس اظہار بہترین اور باکمال اشعار کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے جو ہماری روح کو شاداب کر رہا ہے ۔ اس مجموعہ کلام “ساتواں دن “میں ان کی شاعری اُس عارفانہ کیفیت کی گواہ ہے جس میں یہ رہتے ہیں اور انہوں اپنی لازوال اور بہترین شاعری کے ذریعے ہمیں بھی اپنا ہمراز اور ہمرکاب بنا لیا ہے ۔ کچھ اشعا ر دیکھیئے
؎جانے کس سمت لیئے پھرتا فقیری کا غرور

صاحبو شکر ہے ہم خاک ہوئے پاک ہوئے

یہ مدینہ ہے یہاں رنج والم کوئی نہیں

جو گنہگار بھی عشاق ہوئے پاک ہوئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ کیسے مدینہ سے لوٹ آتے ہیں
جو اپنے آپ کو عشاق بھی سمجھتے ہیں
یہ کائنات بھی اس غار کی بدولت ہے
جہاں فقیر ہمیشہ دیا جلاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوزہءِ خواب ِ گزشتہ کو دوبارہ سے بھرا
میں نے مٹی کی جگہ دشت کو دریا سے بھرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ لاگانی جذبات ، احساسات و کیفیات ہیں جو انسان کو کسی اور ہی جہان کی سیر کرواتے ہیں اور انسان دنیا کے معاملات سے ماورا ہو جاتا ہے
عماد اظہر پیدائشی شاعر ہیں وہ قدرے کی صناعی اور خوبصورتی کو ایک شاعر کی نظر سے دیکھتے ہیں اپنے اردگرد کا ماحول اور ذاتی کیفیات یعنی داخلی اور خارجی صورتحال کا انہیں بخوبی ادراک رہتا ہے ۔ ایک خالص اور جینوئن شاعر کی طبیعت ، فطرت اور سوچ عام لوگوں سے مختلف ہوتی ہے کیونکہ وہ حالات کو اور مشاہدات کو اور نظر سے دیکھتا ہے اسی طرح عماد اظہر کی سوچ اور فکر و خیال طھی عام لوگوں سے مختلف ہے جس کا اظہار ان کی شاعری میں جابجا ملتا ہے
انسان ، مقدر ، قسمت ، حالات ، مشکالات ، جنت ، دوزخ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات شروع سے لیکر آج تک انسان ڈھونڈتا رہا ہے اور ڈھونڈتا رہے گا کیونکہ مختلف مذاہب و عقائد کی وجہ سے ان کی تشریحات اور اندازِ بیاں مختلف ہوتا رہا ہےاور ہر ذی شعور کے ذہن میں ان کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ عماد اظہر نے بھی ایسے سوالات و جوابات کو اپنے اشعار کا موضو ع بنایا ہے اور قدرت کے ان رازوں کو جاننے کی کوشش کی ہے جو ابھی تک انسان کے لیئے حیرت کا باعث ہیں ۔ جیسا کہ
؎؎خدا سے پہلے خدا بھی کوئی کہانی تھا
بس ایک اسم تھا اور اسمِ لا مکانی تھا
ہری بھری سی کوئی شاخ غار میں تھی کہیں
اور اس پہ سبز سنہری دعا کا پانی تھا
۔۔۔۔۔۔۔
باعثِ وحشتِ دلگیر بنانے لگا تھا
جب خدا خاک کی تقدیر بنانے لگا تھا
عین اس وقت ہوا مجھ سے کوئی کارِ خدا
جس گھڑی میں تری تصویر بنانے لگا تھا
۔۔۔
رونقِ حجرہءِ درویش بھی معزول ہوئی
اب وہاں فقر تمنا سے بھرا رہتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عماد اظہر کی شاعری سے ہمیں ان کی طبیعت اور مزاج کا پتا چلتا ہے کیونکہ شاعری ایک ایسا دروازہ ہے جس کے راستے سے ہم شاعر کے مزاج کو جان سکتے ہیں ان کی شاعری میں ایقان اور حقیقت کا رنگ اتنا نمایاں ہے کہ ان کے اشعار پڑھ کے پاکیزگی اور حقیقت نمایاں ہو کر سامنے آنے لگتی ہے۔ ایسے اشعار سے اسرار و معرفت کے خزانوں کی تلاش کا شوق بڑھتا ہے ۔ ان کی شاعری کی خوبصورتی اور تہہ داری ازل اور اب کے فلسفہ کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور انسان زمان و مکان کی بندشوں کو مسخر کرنے کا متلاشی ہو جاتا ہے
محمد و آلِ محمد اور کربلا سے نسبت اور تعلق انسان میں ایثار ، قربانی اور عشق و محبت کے سمندر میں مدوجزر لاتی ہے ، دکھ اور کرب کے جذبات و کیفیات کو جلا بخشتی ہے ۔ کربلا کا مفہوم ہی تب سمجھ آتا ہے جب ایثار و وفا کا جذبہ وافر مقدار میں موجود ہو۔ محمد و آلِ محمد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.