ماں کی عظمت – اسلامی اور عالمی تناظر میں یومِ مادر

انجینئر ظفر محی الدین

2

دنیا کی تمام زبانوں میں سب سے زیادہ پیارا، نرم، مقدس اور بابرکت لفظ اگر کوئی ہے تو وہ “ماں” ہے۔ یہ لفظ جب کسی کی زبان پر آتا ہے تو دل میں ایک عجیب سا سکون اترتا ہے، آنکھوں میں ایک نمی تیرنے لگتی ہے اور دل، جذبات کی شدت سے لرزنے لگتا ہے۔ دنیا میں محبت، قربانی، ایثار، اخلاص، بے غرضی اور وفا کا جو پیکر حقیقی معنوں میں موجود ہے، وہ ماں کی ذات ہےاگرچہ دنیا نے ماں کے مقام کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک مخصوص دن “مدرز ڈے” کے طور پر مختص کیا ہےلیکن اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ماں کا رشتہ اتنا عظیم ہے کہ وہ صرف ایک دن نہیں بلکہ پوری زندگی کا مرکز ہے۔
مدرز ڈے ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو دنیا کے بیشتر ممالک میں منایا جاتا ہے۔ اس دن کی بنیاد اگرچہ ایک مغربی عورت “انا جاروس” کی ذاتی جدوجہد سے پڑی، جس نے اپنی مرحومہ ماں کی یاد میں ایک دن مختص کرنے کی مہم چلائی،جسے بعد ازاں امریکی حکومت نے 1914 میں باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا۔ تب سے دنیا بھر میں مدرز ڈے منایا جا رہا ہے، تحائف دیے جاتے ہیں، دعائیں کی جاتی ہیں، اور سوشل میڈیا پر ماں کے ساتھ تصویریں شیئر کی جاتی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک دن کی محبت، عزت اور یادداشت ایک ایسی ہستی کے حق میں کافی ہے جس نے زندگی کے ہر لمحے میں ہماری راحت کو اپنی تکلیف پر ترجیح دی؟
اسلام نے جس قدر ماں کو عزت دی ہے، اس کی مثال دنیا کے کسی اور نظام یا مذہب میں نہیں ملتی۔ قرآن مجید میں والدین کی اطاعت کا بار بار حکم آیا ہے، کا ذکر ہے،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں بھی ماں کی عظمت کو کئی پہلوؤں سے اجاگر کیا گیا ہے۔ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ نے فرمایا: “تمہاری ماں۔” اس نے پھر پوچھا، تو آپ نے پھر فرمایا: “تمہاری ماں۔” تیسری بار بھی یہی جواب دیا اور چوتھی بار فرمایا: “تمہارا باپ۔” یہ حدیث ماں کے تین گنا زیادہ حق کو بیان کرتی ہے، اور یہ اس کی ان قربانیوں کا اعتراف ہے جو وہ اپنے بچوں کے لیے کرتی ہے۔
حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔” یہ حدیث اسلامی فلسفہ حیات میں ماں کے بلند مقام کی ایک جامع تصویر پیش کرتی ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ماں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے سے جنت ملے گی،بلکہ یہ ایک پورا طرزِ زندگی ہے جو ماں کی خدمت، اس کی عزت، اس کی دعاؤں اور اس کی رضا پر منحصر ہے۔
اسلام نے ماں کو معاشرے کا مرکز قرار دیا ہے۔ اگر ماں صالح ہو، نیک ہو، صابر ہو، علم دوست ہو، تو وہ ایک ایسی نسل تیار کرتی ہے جو نہ صرف خود کامیاب ہوتی ہے بلکہ قوم و ملت کے لیے بھی اثاثہ بن جاتی ہے۔
اب اگر ہم مغربی معاشروں کا جائزہ لیں تو وہاں مدرز ڈے کو ایک تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ بچے ماں کو کارڈ دیتے ہیں، تحفے دیتے ہیں، اور بعض اوقات ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ محض ایک دن تک محدود رہتا ہے۔ سال کے باقی دنوں میں وہی ماں اکثر تنہا، اداس اور اولڈ ہومز میں زندگی گزارتی ہے۔ مغربی معاشرے میں انفرادی آزادی، ذاتی مصروفیت اور خود غرضی نے خاندانی نظام کو کمزور کر دیا ہے۔ اولاد، والدین کو بوجھ سمجھنے لگی ہے اور والدین، اولاد سے توقعات ختم کر بیٹھے ہیں۔ نتیجتاً، مدرز ڈے ایک وقتی خوشی کا سبب تو بن سکتا ہے لیکن ماں کی اصل تکریم نہیں۔
دوسری جانب اسلامی معاشرے میں ماں کو ہر لمحہ یاد رکھا جاتا ہے۔ اس کی خدمت کو عبادت سمجھا جاتا ہے۔ وہ بیمار ہو تو اولاد اس کے پاس راتیں جاگتی ہے، وہ ناراض ہو تو دعاؤں سے محرومی کا خوف دل کو ہلا دیتا ہے۔ ماں کو اس کے بڑھاپے میں تنہا چھوڑنا اسلام میں نافرمانی سمجھا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص ناکام ہے، ذلیل ہے جس نے اپنے ماں باپ کو بڑھاپے میں پایا اور پھر بھی جنت نہ حاصل کر سکا۔
ہمارے ہاں اگرچہ مغرب کی نقالی میں مدرز ڈے منایا جانے لگا ہے،لیکن یہ لازم ہے کہ ہم اس دن کو صرف خوشنما کارڈز اور تحائف تک محدود نہ کریں۔ یہ دن ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم ماں کی عظمت کو نئے انداز سے سمجھیں، اس کے احسانات کو یاد کریں، اور اپنی زندگیوں کو اس کے مقام کے مطابق ڈھالیں۔ ماں صرف ایک دن کا عنوان نہیں، وہ ایک زندگی ہے، ایک دعا ہے، ایک روشنی ہے، جو ہر قدم پر ہمیں ہدایت دیتی ہے۔
ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی ماں کی خدمت کو ایک رسم یا روایت نہ بنائیں بلکہ اسے دین اور ضمیر کا تقاضا سمجھیں۔ ہم ماں کے قدموں میں جنت تلاش کریں، اس کی دعا میں برکت دیکھیں اور اس کی مسکراہٹ میں رب کی رضا محسوس کریں جو معاشرے ماں کی قدر کرنا چھوڑ دیتے ہیں، وہ صرف خاندانی نظام نہیں، پوری تہذیب کا حسن کھو دیتے ہیں۔
مدرز ڈے کا سب سے مثبت پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ ہم اس دن اپنی ماں کے ساتھ ایک نیا رشتہ استوار کریں، اس سے معافی مانگیں، اس کی قربانیوں کا اعتراف کریں، اور وعدہ کریں کہ ہم صرف ایک دن نہیں، زندگی کے ہر دن کو ماں کے نام کریں گے۔ ہم اس کے ناز اٹھائیں گے، اس کے دکھ بانٹیں گے، اور اس کی خاموش دعاؤں کو اپنی زندگی کی ڈھال بنائیں گے۔
ماں ایک ایسا رشتہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ جب ماں زندہ ہوتی ہے تو زندگی میں روشنی، تحفظ اور محبت کا سمندر بہتا ہے، اور جب وہ رخصت ہو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.