جب عقائد کی بنیادیں لرزنے لگیں تو محض نظریات نہیں گرتے، قومیں اپنی تہذیبی اور روحانی شناخت بھی کھو بیٹھتی ہیں۔ حالیہ دنوں سعودی عرب کی مستقل فتویٰ کمیٹی کی جانب سے جاری کردہ فتویٰ (نمبر 19402) نے اس فکری انتشار کو واضح کیا جو “اتحادِ مذاہب” جیسے مبہم، دل فریب مگر خطرناک تصور کے گرد پروان چڑھ رہا ہے۔ یہ فتویٰ کسی وقتی سیاسی ردعمل کا اظہار نہیں بلکہ اسلام کے خالص عقیدے، فکری خودمختاری اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا ایک جرات مندانہ اعلان ہے۔
بین المذاہب ہم آہنگی کے نام پر مسجد، چرچ اور مندر کو ایک ہی چھت کے نیچے جمع کرنے کی تجاویزجیسے “ابراہیمی ہاؤس”یا قرآن، تورات اور انجیل کو ایک ہی جلد میں شائع کرنے کی کوششیں، بظاہر تو رواداری اور ہم آہنگی کے نقاب میں لپٹی ہوئی ہیں، لیکن درحقیقت یہ اسلام کی امتیازی شناخت کو مٹانے کی عالمی سازشوں کا حصہ ہیں۔ اس طرز فکر کا مقصد مذاہب کو محض اخلاقی اقدار کا مجموعہ بنا کر ان کے الہامی اور روحانی سرچشموں کو غیر مؤثر کرنا ہے۔
اسلام نہ تو کسی دوسرے دین کے ماننے والوں کو جینے کا حق چھینتا ہے، نہ ہی ان پر زور زبردستی کی اجازت دیتا ہے یہ تعلیم قرآن میں واضح ہے: “لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ”۔ لیکن اسی قرآن میں یہ بھی صاف لکھا ہے.
“وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ”
یعنی اسلام کے سوا کوئی بھی دین اللہ کے ہاں قابلِ قبول نہیں۔
لہٰذا “مذاہب کا اتحاد” کا نعرہ اسلامی عقیدے کو ان عقائد کے برابر لا کھڑا کرتا ہے جنہیں خود قرآن نے باطل قرار دیا ہے۔ یہ امت مسلمہ کی فکری خودی کو زنگ آلود کرنے، توحید کے تصور کو گڈمڈ کرنے اور عقیدے کی بنیادوں کو خلط ملط کرنے کی کوشش ہے۔
قابلِ غور امر یہ ہے کہ سعودی فتویٰ کمیٹی کا یہ اعلان محمد بن سلمان جیسے ترقی پسند اور اصلاحات پسند رہنما کے دور میں سامنے آیا ہے یہی اس کی اہمیت کو دوچند کر دیتا ہے۔ ریاستی بیانیے سے مختلف موقف اپنانا دراصل یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسلام کا محافظ کوئی حکومتی نظام نہیں بلکہ وہ علمی روایت ہے جو وحی، سنت اور اجماع کے خالص سرچشموں سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ فتویٰ ریاستی پالیسی پر نہیں، ایمانی اصولوں پر مبنی ہے۔
یہ معاملہ صرف فکری بحث کا نہیں بلکہ عملی اثرات کا حامل ہے۔ آج ہم غزہ میں بہتے خون، کشمیر میں چھنتی عصمتوں، اور یورپ میں حجاب پر لگنے والی پابندیوں کو دیکھتے ہیں یہ سب اس عالمگیر فریب کا حصہ ہیں جو طاقتور دنیا کو مظلوم امت کے عقیدے، ثقافت اور شناخت سے بے دخل کرنا چاہتی ہے۔ “بین المذاہب اتحاد” ان ہی طاقتور قوتوں کی جانب سے تیار کردہ وہ پلیٹ فارم ہے جہاں اسلام کو محض ایک رائے، ایک ثقافتی رنگ یا مشترکہ اخلاقیات کا نمائندہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
ایسے میں سعودی فتویٰ ایک فکری اذان ہے ایک اعلانِ بیداری۔ سوال یہ ہے کیا ہم اس اذان پر لبیک کہیں گے. یا رواداری کے خوش نما جال میں اپنے عقیدے کی گٹھڑی اُن ایجنڈوں کے قدموں میں رکھ دیں گے جن کی نظر میں نہ قرآن کا مقام ہے، نہ نبوت کا تقدس، نہ امت کی حرمت.
یہ وقت امت مسلمہ کے لیے فیصلہ کن ہے۔ ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ہم اسلام کو ایک مکمل، غالب، اور آخری دین مان کر اس کی انفرادیت پر قائم رہیں گے یا “مشترکہ مذہب” کے اس فریب میں کھو کر اپنی شناخت کی قبر خود کھودیں گے۔