ہماری محافظ،پروفیسر محمد اختر کی آگاہی۔

4

ن و القلم۔۔۔مدثر قدیر
اکتوبر کا مہینہ شہری زندگی ہلچل کی طرح آتا ہے اس میینہ میں دیسی مہینہ کاتک کا آغاز ہوتا ہے جو سردیوں کا پیش خیمہ ہوتا ہے ۔ دن میں گرمی اور راتوں،صبح صادق میں سردی ہوتی ہے جو بتدریج بڑھتی جاتی ہے اور محلہ کے لوگ،خواتین اور بچے اپنا ذیادہ وقت چھت پر گزارنا شروع کردیتے ہیں کئی خاندان تو اس موسم میں اپنا باورچی خانہ بھی صحن یاں پھر چھت پر ہی ٹرانسفر کرلیتے ہیں تاکہ دھوپ کی شدت کا مزہ اور اپنے جسم میں وٹامن ڈی کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ سردی سے بچاؤ اور ہڈیوں کی حفاظت ہوسکے۔سابق چیف جسٹس خواجہ محمد شریف سے میری اکثر ملاقاتیں ریس کورس کی جھیل کے پاس ہوتی تھیں وہ سردیوں کے اس موسم میں دھوپ سے لطف اندوز ہونے کے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد ڈیفنس اپنے گھر سے صبح ریس کورس جیل روڈ آتے ان کی گاڑی کو خصوصی اجازت دی گئی تھی جو ان کو جھیل کے پاس ڈراپ کرتی اور وہ ایک کرسی ساتھ ہی چادر بچھا کر پارک میں لیٹ جاتے اور نماز عصر کے بعد ان کا ڈرائیور آتا اور ان کو گھر لے جاتااور یہی حال ان لوگوں کا اب بھی ہے جو گھر کی چھت پر نہیں چڑھ سکتے وہ نزدیکی باغوں کا رخ کرتے ہیں اور اپنا ذیادہ وقت وہیں گزارتے ہیں۔سردی کے موسم میں ہڈیوں اور جوڑوں کی دردیں ہونا عام بات ہے اور اگر کسی کی ہڈی کمزور ہو تو فریکچر کے باعث انسان کی زندگی دوبھر ہوجاتی ہے ۔ہڈیوں کے کمزور ہونے کو آسٹیوپروسس کہا جاتا ہے جو دنیا بھر میں دل کی تکلیف کے بعد سب سے بڑا مرض جانا جاتا ہے ۔اس بیماری میں ہڈیوں کی لچک کم ہوجاتی ہے اور وہ سوجن اور نرمی جیسے مسائل کا شکار ہوجاتی ہیں۔آسٹیوپوروسس کا عالمی دن ہر سال 20 اکتوبر کو منایا جاتا ہے تاکہ آسٹیوپوروسس کی جلد تشخیص، اس کے علاج اور احتیاطی تدابیر کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔ آسٹیوپوروسس ایک بیماری ہے جس میں ہڈیاں کمزور اور ٹوٹ جاتی ہیں۔یہ دن 1996 میں نیشنل آسٹیوپوروسس فاؤنڈیشن کی طرف سے قائم کیا گیا تھا اور اب بین الاقوامی آسٹیوپوروسس فاؤنڈیشن (IOF) کی طرف سے دنیا بھر میں رائج ہے ۔اس سال یہ دن اس عزم کے ساتھ منایا جارہا ہے کہ نازک ہڈیوںکو ناں کہو۔ سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے پروفیسر آف آرتھو پیڈک سرجری ڈاکٹر محمد اختردرویش طبیعت کے مالک ہیں ان سے ہڈیوں کے امراض بارے گفتگو کی جائے تو کئی نئی چیزیں سمجھنے کو ملتی ہیں گزشتہ روز آسٹیوپروسس کے موضوع پر ان سے بات ہوئی تو کہنے لگے کہ اس کی وجہ سے کولہے، کلائی اور ریڑھ کی ہڈی کے فریکچر عام طور پر سامنے آتے ہیں جبکہ ہر دو میں سے ایک عورت اور ہر چار میں سے ایک مرد کو اپنی زندگی میں اس بیماری سے متعلق فریکچر ہوتا ہے اور30 فیصد ایسے بھی ہیں جن میں ہڈیوں کی کثافت کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے انہیں اس بیماری کے ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ۔اس حالت کو اوسٹیوپینیا کہا جاتا ہے۔پروفیسر ڈاکٹر محمد اختر نے دن کی مناسبت سے آگاہی دیتے ہوئے بتایا کہ آپ کی ہڈیاں زندہ، بڑھتے ہوئے ٹشو سے بنی ہیں صحت مند ہڈی کا اندر ایک اسپنج کی طرح لگتا ہے اس علاقے کو ٹریبیکولر ہڈی کہا جاتا ہے۔ گھنی ہڈی کا ایک بیرونی خول اسپنجی ہڈی کے ارد گرد لپٹ جاتا ہے اس سخت خول کو کورٹیکل ہڈی کہا جاتا ہے۔عام طور پر اس بیماری کی کوئی علامات نہیں ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اسے بعض اوقات خاموش بیماری بھی کہا جاتا ہے تاہم آپ کو یہ باتیں نظر انداز نہیں کرنی چاہیں۔اول اونچائی میں کمی (ایک انچ یا اس سے زیادہ کم ہو رہی ہے۔دوئم پوسچر میں تبدیلی (اسٹوپنگ یا آگے جھکنا۔سوئم سانس کی تکلیف اورکمر کے نچلے حصے میں درد یہ تمام چیزیں اس بیماری کا پیش خیمہ کہلاتی ہیں۔ اس مرض میں ہڈیوں کی لچک میں کمی ہوتی ہے اور وہ بھربھرے پن اور نرم پڑ جانے جیسے مسائل سے دوچار ہو جاتی ہیں اور ان کے ٹوٹنے کا خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔پروفیسر محمد اختر نے بتایا کہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں یہ مرض زیادہ پایا جاتا ہے، ”عورتوں میں 45 برس کی عمر کے بعد یہ مرض پیدا ہوتا ہے جبکہ مردوں میں 50 برس میں آسٹیوپوروسس ہوتا ہے۔ عورتوں میں اس کی شرح 40 فیصد زیادہ ہوتی ہے۔ہڈیوں کا یہ مرض پاکستان کے دیہی علاقوں سے زیادہ شہروں میں پایا جاتا ہے، شہروں میں رہنے والے لوگ جن کا دھوپ میں نکلنا نہیں ہوتا، دودھ نہیں پیتے یا مچھلی نہیں کھاتے، ان لوگوں کو ہڈیوں کا مسئلہ ہو جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین جو کھیتوں میں کام کرتی ہیں ان میں آسٹیوپوروسس کی شرح کم ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ ہم نے جتنا جدید لائف اسٹائل اختیار کیا ہے مثلاً ایئر کنڈیشنر میں سونا، دھوپ میں نہ نکلنا اور موٹاپے کے خوف سے مناسب غذا نہ لینا، تو ایسا کرنے والوں میں آسٹیوپوروسس پیدا ہو جاتا ہے۔ آسٹیوپوروسس کی بعض دیگر وجوہات میں بڑھتی عمر، خاندان میں پہلے سے اس بیماری کا موجود ہونا، جسمانی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی عادت، خواتین میں ماہواری کا نہ ہونا، بہت زیادہ کیفین کا استعمال، کیلشیم کی کمی اور تھائرائڈ ہارمونز کے لمبے عرصے تک علاج وغیرہ شامل ہیں۔ڈاکٹر اختر کی گفتگو میں جو اہم نکتہ سامنے آیا وہ بلکل وہی ہے جو اندرون شہر کی زندگی کا اس موسم میں روزمرہ کا معمول ہے یعنی ایک خاص وقت تک دھوپ میں بیٹھ کر وٹامن ڈی کا حصول جس کی وجہ سے ہڈیوں کی دن بھر کی مضبوطی قائم رہتی ہے آج بھی ایسے بزرگ شہر میں موجود ہیں جو اپنے گھروں کی بلند پایہ سیڑھیاں اترتے اور چڑھتے ہیں جبکہ پوش علاقوں میں گھروں کو دو منزلوں سے زائد تعمیر نہیں کیا جاتا اور انھی جگہوں پر رہنے والے باسی جن کو اس مرض کا آغاز ہوجاتا ہے وہ اگر گرتے ہیں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.