نایاب لوگوں کی کہانی

8

دشتِ امکاں
بشیر احمد حبیب

2 فروری 1958
ایک ورلڈ ریکارڈ بنا
پاکستان ائیر فورس کے پائیلٹس نے مسرور ائر بیس کراچی میں سولہ جنگی ایئرکرافٹس کے ساتھ ایکروبیٹک ڈیمونسٹریشن دی۔ یہ ایک ورلڈ ریکارڈ تھا اس سے قبل چھ یا سات ائر کرافٹ کے ایکروبیٹ کی مثالیں موجود تھیں۔ اور اس مظاہرے کو دنیا بھر میں سراہا گیا اور اس کی تصویر وقت کے globally renewoned میگزین LIFE کے ٹائٹل پیج پر چھپی ۔
اس achievement کے پیچھے ایک ہیرو تھا جو Man of Steel کے لقب سے جانا جاتا ہے اور جس کا نام ائر مارشل نور خان ہے ۔
آ پ حیران ہوں گے آ ج نہ تو نور خان کا برتھ ڈے ہ اور نہ ہی ائیر فورس کا کوئی سلیبرشن ڈے تو میں کیوں ائر مارشل نور خان کو یاد کر رہا ہوں۔
اس کی وجہ میرے سابقہ کالم ” آ تے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں ” پر وہ feedback ہے جو مجھے دوستوں کی طرف سے ملا ۔ ان کے مطابق یہ بانجھ سوسائٹی ہے اور مجھے مشرق اور اس کے مستقبل کے حوالے سے کوئی دھوکا ہوا ہے۔جب کے مجھے اپنی لکھی ہوئی ہر بات پر ایسے ہی یقین ہے جیسے کہ کل مقررہ وقت پر سوج طلوع ہو گا۔ ہم ہر گز بانجھ تہزیب کے باسی نہیں ، اس تہزیب کے آ سمان پر سینکڑوں درخشندہ ستارے چمکے جن سے تمام عالم نے سمتوں کا تعین کیا اور ایسا ہی اک دمکتا ہوا ستارا ائر مارشل نور خان ہے۔آپ اسکو میرا biased تجزیہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری نئی نسل کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت misdirect کیا گیا ہے۔ یعنی ایک ایسی قوم جو منزل کھو چکی ہو۔ بقول منیر ،ہیں رواں اس راہ پر جس کی کوئی منزل نہ ہو۔آج میرے ساتھ آ پ بھی اس زاویے سے سوچئیے کیا وجہ ہے جس ملک میں بنیادی ضروریات زندگی تو پوری نہ ہورہیں ہوں مثلاً خوراک ، پوشاک اور چھت ، جہاں تعلیم بتدریج روبہ ء زوال ہو وہاں آپ کی نوجوان نسل کو تقریبآ Free ہر طرح کے اچھے برے میڈیا کی Access ہو ، مثلاً فلم ، ڈرامہ ، میوزک ، اخلاق سے عاری فلمی مواد ۔ اور جس میں وہ اپنے شب و روز ایسے بسر کر رہے ہوں کہ یہی مقصدِ حیات ہو ۔۔
اور سب ہی انجانے میں ایک ایسی منزل کی طرف سفر کر رہے ہوں جس کا اختتام تاریکی ہو۔یہ لمحہ فکریہ ہے ، ہمیں سوچنا ہے کیا یہ بغیر کسی پلاننگ کے ہو رہا ہے ۔ یعنی اپنے آپ ہوتا چلا جارہا ہے یا اس کے پیچھے کوئی گہری سوچ ہے اور چند بہترین دماغ کام کر رہے ہیں کہ اس talented قوم کو اس کار لا حاصل پر تسلسل سے لگایا جائے۔ سوچنا یہ ہے کہ بے راہ روی پر بنے اس تمام مواد کی فراہمی کیا جدید ممالک میں بھی اسی طرح ارزاں ہے ۔۔۔ یقیناً نہیں۔
یہ وہ مقام ہے جہاں کہا جاتا ہے ہمیں ایک لیڈر کی ضرورت ہے۔ ہمیں دراصل ایک نہیں بہت سے لیڈرز کی ضرورت ہے اور ہر شعبہ زندگی میں ۔ آ ج ہم نے اپنی نوجوان نسل کے لیے نئے افق تراشنے ہیں اور انہیں بتانا ہے انہوں نے اپنے وطن کے لیے کیا achieve کرنا ہے ۔ائر مارشل نور خان نے پاکستان ائر فورس میں جو کار ہائے نمایاں ادا کیے ان کا ذکر میڈیا پر جا بجا بکھرا پڑا ہے ۔ میرا یہ مقصد نہیں ان کو repeat کیا جائے ۔ مجھے آ ج اس نور خان کو آ پ سے متعارف کروانا ہے جو پاکستان کی محبت سے سر شار تھا جو ایک بڑا لیڈر تھا جس کی تمام زندگی پاکستان کا سر فخر سے بلند کرنے میں گزری ۔ نور خان ہر assignment جو اس کے سپرد کی گئی اسے بام عروج پر پہنچایا اور دنیا نے اسے acknowledge کیا اور سراہا۔نور خان نے پاکستان ائر فورس کو تکنیکی اعتبار سے وہ انفرا سٹریکچر دیا جس پر چلتے ہوئے پاکستان ائر فورس دنیا میں اپنا امتیازی مقام بنا سکی اور اس کا شمار دنیا کی چند بہترین Air Forces میں کیا جانے لگا۔1965 کی جنگ میں پاکستان ائر فورس کے سربراہ کے طور پر جو اخلاقی و جنگی فتح پاکستان کے حصے میں آئی وہ نور خان کے vision کا ہی شاخسانہ تھا۔ائر فورس کے ایک پائلٹ نے 1965 کی جنگ کی یاد داشتوں کوبیان کرتے ہوئے کہا جب جنگ کا امکان بڑھ گیا اور یہ لگنے لگا ایک دو روز میں انڈیا حملہ کر سکتا ہے تو انڈیا پر نفسیاتی برتری کے لیے مجھے چیف نے رابطہ کیا اور کہا تم امرت سر کے اوپر جا کر ساؤنڈ بیرئر کراس کرو ، وہ کہتے ہیں میں آذاد کشمیر میں پرواز پر تھا واپس مڑا اورنیچی پرواز لیتے ہوئے امرت سرکے اوپر ساؤنڈ بیرئر کراس کیا دھماکہ ہوا اور ساتھ ہی چیف کی ریڈیو ٹرانسمیٹر پر کال آئی ۔۔ کام ہو ہوگیا ۔۔۔ جی سر کام ہوگیا ۔۔۔ابھی کام نہیں ہوا دوبارہ واپس جاو اور ایک دفعہ پھر ساؤنڈ بیرئر کراس کرو ۔۔۔ میں نے دوبارہ دھماکہ کیا اور کچھ دیر بعد انڈین ریڈیو سے خبر نشر ہوئی پاکستان کے آ ٹھ ائر کرافٹس نے امرت سر کے اوپر دھماکے کیے ۔۔۔ اور چیف کا جو مقصد تھا پورا ہوچکا تھا۔غور کی جیے چیف کی اپنے ہر سپاہی اور پیادے کی پوزیشن پر کیسی گہری نظر تھی اور یہ بھی پتہ تھا میں نے اگلی چال کیا چلنی ہے۔

اسی جنگ میں کشمیر کے بارڈر پر جب سپلائی کا ذریعہ محض ائر روٹ رہ گیا تھا اور چیلنج یہ تھا اونچے پہاڑوں کے درمیان لینڈنگ خطرناک تھی ۔۔ چیف نے خود چیلنج قبول کیا اور C130 پر بحثیت کو پائلٹ بیٹھ کر پرواز بھری ۔۔ کہتے ہیں جب لینڈنگ کا مرحلہ آیا تو بادلوں کے ٹکرے سے نکلتے ہی سامنے آ گ کا دھواں تھا اور لینڈنگ ممکن نہیں تھی ۔۔۔ جہاز واپس موڑنا پڑا ۔۔۔ کچھ دیر بعد چیف کے حکم پر , دوبارہ واپس مڑے اور انچز کی accuracy کی ساتھ جہاز لینڈ ہوا۔وہ PIA کے سربراہ بھی رہے جو کہ خسارے اور برے حال میں تھی ۔ وہ ایسے لیڈر تھے جو نمبر ون پر رہنا چاہتے تھے اب وہ خواہ ان کی ذات ہو یا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.