دو چھوٹی سی باتیں دو بڑے سے حل

37

احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایازخان


پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک تصویر نے مجھے چونکا دیا جو ایک حجام کی دوکان کی تھی اور جہاں حجامت کے منتظر کئی لوگ کتا ب پڑھ رہے تھے اور ساتھ ہی شیلف میں ہمہ قسم کتب نظر آرہی تھیں ۔
تفصیل دیکھی تو پتہ چلا کہ ہندوستان کے تامل ناڈو میں ایک حجام نے کسٹمرز کے لیے ٹیلی ویژن رکھنے کی بجائے ایک مفت لائبریری قائم کی ہے۔
جو شخص وہاں انتظار کے دوران کتاب پڑھے گا اُسے 30 فی صد ڈسکاؤنٹ دیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں سے بڑا فرق پڑتا ہے۔
عوام میں شعور اُجاگر کریں آپ کی ذمہ داری کا ادا کیا ہُوا چھوٹا سا حصہ بھی بڑی تبدیلی لا سکتا کوئی انقلاب برپا کر سکتا ہے۔
اردو کتب کے اس بحرانی قحط کے دور میں جب کتابوں کی دوکانیں بند ہو رہی ہیں ،کتب ردی میں بک رہی ہیں ،کتابوں کی دکانیں بند کرکے جوتوں اور کپڑوں کی دوکانیں بنائی جارہی ہیں
پرانی کتب فٹ پاتھوں پر پڑی کوڑیون کے بھاؤ بکتی نظر آتی ہیں ۔ایسے میں اس حجام کی یہ چھوٹی سی قابل ستا ئش بات بہت بڑی لگتی ہے ۔
ایک جانب تو کتب بینی پر بڑھتا زوال اور دوسری جانب کاغذ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے کتابوں کی مہنگائٰی قاری کی قوت خرید کو متاثر کرہی ہے۔
کتاب قوم کو تاریخ ،تہذیب وثقافت ،دین و معاش ،سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ ادبی تشنگی مٹانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتا ہے ۔
کہتے ہیں کہ کتابوں سے دوستی رکھنےوالا شخص کبھی تنہا نہیں ہوتا ۔کتاب انسان کا ہر برے اور اچھے وقت میں ساتھ دیتی ہے ۔کتاب سے دوستی شعور کی نئی منزلوں کے راستے کھول دیتی ہے ۔
اس کے باوجود کہ ٹی وی ،انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے لوگوں کو اپنا گرویدہ کیا ہوا ہے ۔لیکن کتاب کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن ہو سکتا ۔
اس دور میں بڑوں اور بچوں کو کتاب کی جانب راغب کرنا بہت کٹھن ہو چکا ہے ۔میرے والدلفٹیننٹ (ر) محمد ایاز خان مرحوم کتب کے بارے میں بہت حساس تھے
ان کے خیال میں کتاب سے دوری نوجوان کو تشدد سے نزدیک کر دیتی ہے۔فلاح معاشرہ کے لیےکتاب کی اہمیت کے پیش نظر انہوں نے یہاں ایک دیہات مسافر خانہ میں ایک لائبریری کا قیام کیا تھا ۔
جس کے لیے ان کے ایک سوشل ورکر ڈاکٹر عبدالرحمان ناصر صاحب کے وا لد گرامی نے ایک کنال زمین بھی عطیہ فرمائی وہ لائبریری ڈاکٹر عبدالرحمان ناصر صاحب کی زیر نگرانی یہ صدقہ جاریہ آج بھی نہ صرف قائم ہے بلکہ پھل پھول رہی ہے ۔
۔ہمارے ان دوست کا خیال ہے کہ اگر صحت کی افادیت کو دیکھتے ہوے آج دنیا میں مٹی کے برتنوں کا استعمال پھر سے فروغ پا سکتاہے ۔
تو آج بھی معاشرے میں کتاب پڑھنے اور لکھنے کا کلچر رائج کیا جا سکتا ہے ۔جس کے لیے اجاڑ لائبریروں کو پھر سے آباد کیا جاۓ اور دور جدید کی پسند کا خیال رکھتے ہوے ٔ اچھا اور معیاری ادب تخلیق کیا جاے ٔ تو قاری اور کتاب کا یہ رشتہ پھر سے جڑ سکتا ہے ۔
آج کے بچوں اور جوانوں میں مطالعہ کا شوق پیدا کرکے اور جدید طرز پر کتابوں کو فروغ دے کر ہی معاشرے کی موجودہ شدت پسندی کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے ۔
کیا وجہ ہےکہ ہم فوڈ سٹریٹ ،موبائل سنٹر تو بنا رہے ہیں مگر کتاب سڑیٹ بنانے پر غور نہیں کرتے ؟
گو مہنگائی اور لوگوں کے معاشی اور مالی حالات بھی اسکی ایک وجہ ہیں
لیکن پرانی کتب کی خریداری اس مسلے کا بہترین حل موجود ہے ۔
اپنے شیلف میں سجانے کے لیے نئی اور مہنگی کتاب نہ سہی البتہ پڑھنے کے لیے پرانی اور
سستی کتاب ضرور خریدیں۔کتابوں کے جمعہ اور اتوار بازار کو فروغ دیا جاۓ تاکہ کتاب پڑے پڑے ضائع ہونے کی بجاے ٔ
کسی کے علم میں اضافے کا باعث بن سکے ۔
یہ کتابیں بڑی عرق ریزی کے بعد وجود میں آتی ہیں ان کی قدردانی ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے ۔
ہر ایک جزو ہے آئینہ وسعت کل کا
ہر حرف کو ہم ایک کتاب کہتے ہیں
چند دن قبل عالمی دن براے ٔ ماحولیات کے موقع پر میرا کالم “ہر بشر دو شجر ” شائع ہوا
جس میں شجر کاری کی اہمیت و افادیت کے ساتھ شجرکاری کو صدقہ جاریہ سمجھ کر درخت لگانے کی ترغیب دی گئی تھی
میرے ہمساے ٔ ذوالفقار صاحب پڑھ کر بہت متاثر ہوۓاور تجویز دی کہ ہر سال ذاتی مکان پر پراپرٹی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اگر ہر گھر میں دو پھل درا درخت موجود ہوں تو اس ٹیکس میں دس فیصد رعایت کا اعلان کردیں
اور جس گھر میں درخت نہ ہو اس کا ٹیکس دس فیصد زیادہ کردیں تو دیکھیں
ہر گھر میں دو سایہ دار درخت دکھائی دیں گے ۔ یہ سہولت دیگر ٹیکس پر بھی ہو جاۓ تو سونے پر سہاگہ ہو جاۓ ۔
ان کی تجویذ تو بظاہر بڑی چھوٹی سی تھی مگر ان کی سوچ کا انداز بہت عمدہ اور بڑا تھا ۔
میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر واقعی حکومت شجر کاری کو فروغ دینے میں دلچسپی رکھتی ہے
تو اس طرح کے بےشمار اقدام ہماری ماحولیات کو چند دنوں میں ہی بہتر بنا سکتے ہیں
اور ہم موجودہ موسمیاتی تبدیلوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں ۔
اس پر مجھے یاد آیا کہ ریاست بہاولپور کے مرکزی شہر صادق گڑھ پیلس کے ہر ہر گھر میں پودے اور درخت لگانا اخلاقی فرض سمجھا جاتا تھا ۔
گھر گھر بیری ،جامن اور آم کے درخت نظر آتے تھے جو سایہ اور پھل دونوں فراہم کرتے تھے ۔
ہمارے اپنے گھر میں بےشمار سایہ دار سرس اور برنے کے درخت ہوا کرتے تھے جو اب نایاب ہوکر رہ گئے ہیں ۔
یہاں کے لوگ درخت لگانے کو اپنے اجداد کے قرض کی ادئیگی کا طریقہ سمجھتے تھے ۔
ان درختوں کی دیکھ بھال کو عبادت کا درجہ دیا جاتا تھا ۔
جبکہ بلاوجہ درخت کاٹنے کو ظلم اور جرم تصور کیا اور سمجھا جاتا تھا ۔
سڑک کنارے درختوں کی حفاظت ریاستی ذمہ داری ہوتی تھی ان کے تنوں پر سرخ اور سفید رنگ کرکے نمبر الاٹ کئے جاتے تھے
تاکہ درخت شماری میں آسانی ہو اور درخت چوری کو بھی روکا جاسکے
اور ہر سال باقاعدگی سے ان کی گنتی بھی کی جاتی تھی یہ سب کچھ آج سے ساٹھ سال پہلے ممکن تھا تو اب کیوں نہیں ؟
حکومتی سطح پر درختوں کی نشو نما اور شجر کاری کا فروغ اس طرح کی پالیسوں سے جلد ممکن ہو سکتا ہے ۔
میں نے ریاستی سطح پر ان درختوں پر سپرے ہوتے ہوۓ دیکھا ہے ۔
یہ وجہ تھی کہ ڈیرہ نواب صاحب کا موسم ہمیشہ خوشگوار رہتاتھا ۔یہاں بےشمابارش ہوا کرتی تھی
جو پورے ماحول کو سرسبز و شاداب رکھتی تھی ۔اب یہ سب کیوں نہیں ہو پارہا ہے ؟
یہ ایک سوالیہ نشان ضرور ہے ؟ہمیں ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر دھیان دینے کی ضرورت پہلے سے بہت زیادہ ہے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.