انصاف کی فراہمی ۔ میاں نواز شریف کا عزم
چوہدری امجد علی جاوید
(ممبر صوبائی اسمبلی)
(حصہ اوؔل)
10/06/24
ایک اچھی اور عوام دوست حکومت کا گہرا تعلق عوام کو سہولیات کی فراہمی، ترقی کے یکساں مواقع اور منصفانہ نظام انصاف ہوتا ہے۔
لیکن جب تک ان پر عملدرآمد کرنے والے ادارے مؤثر اور اچھی کارکردگی کے حامل نہ ہوں پالیسیوں کے مثبت اثرات کم ہی برآمد ہو سکتے ہیں۔
قانون کی حکمرانی قائم کئے بغیر کوئی ملک بھی دنیا کی نظروں میں باوقار نہیں ہو سکتا، کسی حکومت کو بھی عزت اور اچھی شہرت نہیں مل سکتی۔ قانون کی حکمرانی قائم ہونے تک عام آدمی اپنی عزتِ نفس کے تحفّظ کا احساس نہیں کر سکتا۔
قانون کی حکمرانی کے بغیر کسی معاشرے کو مہذب معاشرہ نہیں کہا جا سکتا۔ قانون کی حکمرانی قائم کرنے کا مطلب عام شہریوں کو لوٹ کھسوٹ، رشوت، چوری، ڈاکے، اغوا، بھتوں اور چھینا چھپٹی سے نجات دلانا بھی ہے اور قانون کی حکمرانی کا مطلب غریب کی طرح امیر اور صاحبِ اقتدار لوگوں کی طرف سے بھی قانون کی سختی کے ساتھ پابندی ہے۔
قانون کی حکمرانی اسی وقت قائم ہو سکتی ہے جب عام آدمی کو سستا اور فوری انصاف مہیا ہو سکے۔ اگر لوگ پولیس کو حفاظت کرنے والے ادارے کے بجائے ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ لوگوں کے سرپرست کے طور پر پہچانیں اور عدالتوں میں جائیں تو ان کی پوری زندگی عدالتوں کے چکر لگانے اور خوار ہونے میں گزر جائے تو اس طرح کی صورتِ حال کو لوگ قانون اور آئین سے پہلوتہی ہی تصور کریں گے نہ کہ قانون اور آئین کی حکمرانی۔ محترمہ مریم نواز شریف کی طرف سے کرپشن کے خاتمے اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے، فوری اور سستا انصاف فراہم کرنے کا اعلان اور عزم لائقِ تحسین ہے میاں محمد نواز شریف کے وژن کے مطابق یہ اعلان عوام کی امنگوں کا ترجمان اور ان کی عوام الناس کی خواہشات کا ادراک اور وقت کی نبض پر ہاتھ رکھنے کی صلاحیت کا غماز ہے۔ اگر محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ فوری اور سستاانصاف فراہم کرنے کا یہ انتہائی مشکل اور اہم کام کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو اس معاملے میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ نہ صرف وہ قائداعظم کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے اور مقبول لیڈر کا مقام حاصل کر لیں گے بلکہ وہ تاریخ میں سرچھوٹو رام اور حیدر بخش جتوئی کی طرح زندہ جاوید ہو جائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم بھی قیامِ پاکستان اور آزادی کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور جمہوریت جس کا ہم نے صرف نام سنا ہے اس کے فیوض و برکات سے پاکستانی قوم آج تک فیض یاب نہیں ہو سکی۔ اس کی اہمیت اور فوائد بھی قوم پر آشکار ہو جائیں گے۔ بے لاگ اور بروقت انصاف کی فراہمی نہ صرف لاقانونیت کا سیلاب اور معاشرے میں موجود عدم استحکام اور افراتفری بڑی حد تک دور ہو جائے گی بلکہ طبقاتی تفاوت جو صدیوں سے موجود ہے اور ان طبقات میں پائی جانے والی بے چینی میں بھی بلا تخصیص انصاف کی فراہمی سے ٹھہراؤ آجائے گا۔ میاں محمد نواز شریف وزیراعظم پاکستان نے فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کا جو اعلان کیا تھا اس پر عملدرآمد کی صورت میں پاکستان کے گلے سڑے اور فرسودہ نظام میں انقلابی تبدیلی کا آغاز اور گھٹن زدہ ماحول میں خوشگوار ہوا کا جھونکا ہوگا جس سے ملک میں بنیادی اور مثبت تبدیلیاں رونما ہونگی۔ طاقت اور اقتدار کے منبع تبدیل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ یہ ایسا نرم اور خاموش انقلاب برپا ہوگا کہ ہر شے خاموشی سے تبدیل ہوتی جائے گی کمزور پسماندہ اور محروم طبقات کے افراد بلا تخصیص اور فوری انصاف کی فراہمی سے خود کو بے سہارا تصور نہیں کریں گے جو قبل ازیں سارے نظام سے لاتعلق تھے وہ اونرشپ لینا شروع کر دیں گے۔ یہی وہ لمحہ ہوگا جو ترقی اور تبدیلی کا نقطۂ آغاز ہوگا۔
میاں محمد نواز شریف جو کام کرنے جارہے تھے یہ جتنا بڑا کام ہے اتنی ہی سخت مزاحمت بھی ہوگی۔ انہیں یقینا زد میں آنے والے اور متاثرہ اور مراعات یافتہ طبقات اور بیوروکریسی کی سازشوں اور مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم اگر یہ عمل متاثرہ فریق یعنی عوام کو ساتھ لے کر شروع کیا جائے تو اس کیخلاف کسی سازش کے پنپنے کا موقع نہیں ملے گا ورنہ حکومت کے کسی غلط اقدام کے نتیجہ میں ’’سٹیٹس کو‘‘ والے طبقات کو اپنی سازشوں کی تکمیل کا موقع مل گیا تو پھر سسٹم کی اصلاح کیلئے میاں محمد نواز شریف کے انقلابی اقدامات دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ سسٹم کی اصلاح کیلئے میاں محمد نواز شریف کی سوچ یقینا قابلِ قدر ہے اور معاشرے کو اس کلچر سے نجات دلانا وقت کی ضرورت بھی ہے۔ مگر یہ بیل تبھی منڈھے چڑھے گی جب حکومت کی اپنی صفوں میں اقربا پروری جیسی کسی کمزوری کو پروان نہیں چڑھنے دیا جائے گا ورنہ حکومت کے نیک نیتی کے تحت اٹھائے گئے اقدامات بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے کھاتے میں پڑ جائیں گے۔ محترمہ مریم نوازشریف صاحبہ کو اپنے عظیم والد کے وژن کو آگے بڑھانے اور پاکستان کے بیس پچیس کروڑ عوام کو ان کے ثمرت سے بہرہ مند کرنے کے لئے یہ سب کچھ بہت جلد اور تیزی سے شروع کرنا ہوگا۔ اب یہ کام مزید تساہل اور روائتی سست روی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ کام بیوروکریسی کے حوالے کرنے کی بجائے وہ خود اس کی نگرانی کریں۔ آج وطنِ عزیز میں انصاف کا نظام (Civil and Criminal Justice System) انصاف کی فراہمی میں غیر ضروری تاخیر کے سنگین بحران سے دوچار ہے۔ مقدمات کے فیصلوں میں غیر معمولی تاخیر اس کا طرۂ امتیاز ہے۔ نوآبادیاتی نظام سے آزادی حاصل کرنے والے ہر ملک اور ہرعدالتی نظام کو یہ صورتِ حال وراثت میں ملی ہے۔عدالتوں میں زیرِ التوا پرانے جھگڑوں کے تصویے میں تاخیر سے سنگین صورتِ حال نے جنم لیا ہے۔ انصاف میں تاخیر درحقیقت انصاف کے نہ ملنے کے برابر ہوتی ہے۔ ہمارا معاشرتی انصاف کا نظام واضح طور پر ایک فرسودہ نظام ہے جو ایک باقاعدہ طریقِ کار کے تحت انصاف کی فراہمی پر زور دیتا ہے۔ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہونے، انصاف کی فراہمی میں حد سے زیادہ تاخیر اور بدعنوانی کے باعث صورتِحال سنگین ہو چکی ہے۔ کیونکہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر انصاف کی روگردانی کے ہم معنی تصور کی جاتی ہے۔
ایک عام معاشرتی مقدمے کا دودہائیوں تک چلتے رہنا عام بات ہے اور پھر مقدمے کی تکمیل پر عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کیلئے مزید کئی کئی سال لگ جاتے ہیں۔ یہ عمل انصاف کے نظام پر لوگوں کے اعتماد کو ختم کر دیتا ہے۔ معاشرتی جھگڑوں کے تصفیے میں تاخیر نہ صرف فریقینِ مقدمہ کو اعصابی تناؤ کا شکار کرتی ہے بلکہ معاشرے کی معاشی اور معاشرتی ترقی کی راہ میں بھی حائل ہوتی ہے۔ اس سے غیر ملکی سرمایہ کاری پہ بہت بُرا اثر پڑتا ہے اور دوسرے ملکوں کی حکومتوں اور کثیر الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ ہمارے تجارتی تعلقات پر کاری ضرب پڑتی ہے۔ پاکستان میں آزاد معاشی پالیسیوں کے اجرا اور آغاز سے اور دنیا میں قانونی اصلاحات کی مقبولیت سے ماہرینِ قانون اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سول اور فوجداری مقدمات میں جھگڑوں کے متبال حل کے طریقِ کار کا اطلاق پاکستانی عدالتوں میں عرصۂ دراز سے زیرِ التوا مقدمات کے گھمبیر مسئلے کا یقینی حل پیش کرتا ہے۔ دنیا بھر کے قانون کا طریقِ کارتنازعات کے حل کے لئے متبادل پیش کرتا ہے جس میں سے ہر ایک مختلف انداز میں اپنا کام کرتا ہے تاکہ فریقین مخصوص صورتِ حال میں اپنے جھگڑے کے تصفیے کے لئے مناسب ترین صورت کا انتخاب کر سکیں۔ ہمارے ہاں بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ اس صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کیلئے مقامی ضروریات کے مطابق جھگڑوں کے حل اور تصفیوں کے لئے ایک نیا نظام تشکیل دیا جائے۔
کسی معاشرے میں پیش آنے والے مسائل کو سمجھنے کے لئے اس معاشرے کی سیاسی تاریخ، سماجی، ثقافتی روایات اور پیداواری رشتوں کی جانکاری ضروری ہے۔ پاکستان کا معاملہ دنیا کے دیگر معاشروں سے خاصی حد تک مختلف ہے۔ وکلاء اور میڈیا کے ذہنوں میں یہ ابہام پایا جاتا ہے کہ تنازعات کے متبادل حل کے طریقے ہمارے لئے بدیسی اور اجنبی تصورات ہیں اور کچھ غیر ملکی ماہرین قانون ہمارے عدالتی نظام میں ان کو نافذ کرنے پر تلے ہوئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تنازعات کے متبادل حل کے طریقہ کار کا تعلق ہماری ثقافت سے سینکڑوں سال سے وابستہ ہے۔ پنچائیت، جرگہ اور ستھ کا ادارہ اس ضمن میں سب سے پرانا اور مسلمہ ادارہ ہے یہ دنیا کے تمام ممالک میں مختلف شکلوں میں موجود ہے۔ حالیہ وقتوں میں پنچائتی نظام یا مقامی لوگوں کی شراکت پر مبنی نظامِ انصاف کی اہمیت اور زیادہ اُجاگر ہوگئی ہے۔ قانونی نقطہ نگاہ سے اس کو تنازعات کے متبادل حل اور اس کے طریقۂ کار کا نمائندہ ادارہ کہا جا سکتا ہے۔ دنیا کے تقریباَ تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک جہاں رائج نظام انصاف پاکستان کی نسبت کہیں بہتر اور جلد انصاف فراہم کرر ہا ہے وہاں بھی لوگ اس کی طوالت اور اخراجات کی وجہ سے کلی طور پر اس سے مطمئن نہیں ہیں وہاں بھی اس امر کا شدید احساس اور ادراک پایا جاتا ہے کہ موجودہ نظام کو قائم رکھتے ہوئے عام عوام کے درمیان موجود تنازعات کے حل کا متبادل نظام ہونا چاہیے جو موجودہ نظام کی نسبت سہل اور فوری انصاف فراہم کرے۔ دنیا بھر کے تقریباَ تمام ممالک میں اپنی اپنی روایات اور ضروریات کے مطابق نظام نہ صرف موجود ہے بلکہ اعلیٰ تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں بطورِ نصاب پڑھایا جارہا ہے اور اس پر سیمینار اور ورکشاپس منعقد اور تحقیق ہو رہی ہے۔
(جاری ہے)