کرو مہربانی تم اہل زمین پر
تحریر: خالد غورغشتی
ہم نے گھروں اور گرد و نواح میں تازہ پانی کے کنویں اور نل لگانا اس لیے ترک کردیے ہیں کہ کہیں پڑوسی ہمارے پانی سے پیاس نہ بُجھا لیں ۔ انتہائی درجے کا بغض ، کینہ اور حسد ہم آپس میں رکھتے ہیں ۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ خون کے پیاسے پانی کی پیاس بُجھانے دیں ۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے رویوں میں نَرمی آنے کی بجائے سختی میں اِضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔
درخت کاٹ کر اور فصلیں اُجاڑ کر ہم ہاؤسنگ سوسائٹیاں اور پختہ مکانات بناتے جا رہے ہیں ۔ یہ عالی شان عمارتیں سردیوں کےلیے تو کچھ نہ کچھ حد تک موثر ہو سکتی ہیں لیکن گرمیوں کےلیے قطعی نہیں ۔
ایک صاحب مجھے کہہ رہے تھے ، بھیا ! ہم نے درخت کاٹ کر اتنی بڑی بڑی عمارتیں بنا دی ہیں کہ ہمارے گھروں میں قدرتی ہوا آسکتی ہے ، نہ پڑوس میں ۔ اس لیے اکثر گھروں میں اے سی لگے ہوئے ہیں ۔ اب دو تین لاکھ ہر ماہ بل بھرنے والے کسی کو بلاوجہ کیسے اپنے مکان میں دو منٹ کےلیے بھی داخل ہونے دیں گے ؟
جب کہ پہلے ہر گھر میں درخت ہوتے تھے ، جس کی ٹھنڈی چھاؤں اور سایہ اے سی سے ہزار گُنا بہتر اور پُر سکون تھا ۔ اس کے نیچے سارا دن عورتیں بیٹھ کر کام کرتی تھیں ، جب کہ مرد بیٹھکوں ،حجروں اور کنویں پر دن بھر درختوں کے نیچے بیٹھ کر خوب آرام اور شغل میلہ کیا کرتے تھے ۔
عورتیں گھروں میں بچوں کےلیے درختوں کے ساتھ جھولا باندھ کر اُنھیں جُھلاتیں ، بچے کنویں پر جا کر ٹھنڈے پانی سے نہاتے اور درختوں کے اوپر یا اردگرد کبھی چھپن چھائی کھیلتے ، کبھی ٹہنوں کے ساتھ جُھومتے ۔
پھر زمانہ بدلا ،سوچ بدلی ، آج ہم نے ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ ہمارے اردگرد درخت نہ ہونے برابر ہیں ۔ جس کے باعث ہم قدرتی ہواؤں سے دور ہو گئے ، آج ہر گھر میں بیت الخلا اور نل موجود ہے لیکن دور دور تک صاف آب و ہوا کیوں نہیں ۔ اس لیے کہ ہم نے شجر کاٹ دیے ، برکت ختم ہو گی ،کہاں گئی وہ صبح صبح کُوئل ، بُلبل ،چڑیوں ، فاختہ اور مرغوں کی سُریلی آوازیں ؟ اس چمن کو کس نے اُجاڑا ، اس بہار کو کس نے مٹایا ؟
ان دنوں شدید گرمی پڑ رہی ہے ، انسانوں کے ساتھ ساتھ پرندے بھی حبس سے شدید مُشکلات کا شکار ہیں ۔ دن بھر سڑکیں سُنسان ، بازار ویران اور چوراہے خال خال نظر آ تے ہیں ۔ دور دور تک تازہ پانی کے انتظامات نہ ہونے کے باعث اگر مجبوری میں کبھی آپ کو چند کلومیٹر کا سفر کرنا پڑ جائے تو تین چار سو کا جب تک جُوس نہ پی لیں ، آپ کا سفر سہل نہیں ہوتا ۔
کاش ! ہم نے جتنا خرچ ان عمارتوں ، اے سی ، سولر پینل اور جنریٹر خریدنے پر کیا ہے ، اتنا درخت لگانے پر کرتے تو آج موسم خوش گوار ہوتا ہے اور ہمیں گھر سے لے کر تعلیم اور کاروبار تک کہیں بھی آنے جانے میں اتنی مشکلات کا سامنا نہ ہوتا ۔ ہم تین تین ماہ کی چھٹیوں کی بجائے پُرسکون طریقے سے صبح سات سے گیارہ بجے تک اپنے تمام کام نِمٹا سکتے ۔
بدقسمتی سے ہم طبعاً تنگ مِزاج واقع ہوئے ۔ ہم نے آپس میں اس قدر خار مخاری کا مظاہرہ کیا کہ نیکی کی بجائے بدی کی طرف دوڑتے چلے گئے ۔
اکثر دُکانوں پر دیکھتا رہتا ہوں کہ لوگ تازہ پانی کا کولر اس لیے نہیں رکھتے کہ کون اسے روز بھر کر لائے ، حالاں وہی لوگ روزانہ تین تین مرتبہ تازہ پانی کی بوتلیں اپنے پینے کے لیے لا رہے ہوتے ہیں ۔ یار لوگوں نے تو اپنے گھروں اور دُکانوں کے سامنے سے اس لیے پانی کا کنکشن کاٹ دیا کہ لوگ پانی ضائع کرتے ہیں ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی ایک فرد کے پانی ضائع کرنے کی وجہ سے کیا کبھی کسی نے مسجد کے کنکشن کٹوائے ؟ ہرگز نہیں ۔ تو ایک فرد کے جرم کی وجہ سے ہم سب کو خیرِ کثیر سے کیوں محروم کرتے ہیں ۔ حالاں کہ یقین کریں ہم سب گھروں اور مساجد میں وضو اور غسل کے دوران وافر مقدار میں پانی کا ضیاع کر رہے ہوتے ہیں ۔ ہمیں اپنی برائی نظر نہیں آتی ۔
بلاوجہ مخلوقِ خدا کے لیے بھلائی کے کاموں کو ختم کرنے کا مقصد آج تک میری عقل سے بالاتر ہے ۔
ساون کے موسم میں ہمارے ہاں خوب بارشیں ہوتی ہیں ۔ اس موسم میں آم ،اخروٹ ، بادام ، ناشپاتی ، سیب ، انگور اور جس جس پھل کا بیج ہمیں میسر ہو وسیع سرکاری رقبے پر ملک بھر میں کروڑوں کی تعداد میں پھینک دیں تو چند ہی برسوں میں ہمارا ملک خود کفیل اور خوش حال ہو سکتا ہے ۔
تعلیمی اداروں میں بازاری کھانے بیچنے پر پابند عائد کرکے غریب بچوں کو گھر سے بنے کھانے لا کر بیچنے کا رواج پیدا کیا جائے تو کئی طلبہ کی کفالت ہو سکتی اور آئندہ زندگی میں ان کےلیے روزگار کی مشکلات میں بھی کمی ہو سکتی ہے ۔ ویسے بھی بازاری کھانوں کے نقصان زیادہ اور فوائد کم ہیں ۔
ہماری خواتین فریجوں میں دس دس قسم کے کھانے رکھ کر ہفتہ ہفتہ استعمال کرتی رہتی ہیں ۔ اُنھیں چاہیے کہ بجلی کا فضول استعمال کرنا ترک کریں اور شام پانچ سے رات دس تک فریج بند رکھ کر بچا ہوا کھانا پڑوس میں بانٹ دیا کریں ۔ تین تین دن کا باسی کھانا سوائے بربادی صحت کے کچھ نہیں ۔
اس وقت عوام بجلی اور گیس کے بِلوں کے ہاتھوں خُود کشی پر مجبور ہے ۔ حکومت بجلی اور گیس پر فوری ریلیف کا اعلان کرے اور ہمیں بھی چاہیے کہ غریبوں کو لوٹنے کی بجائے گھروں اور دُکانوں کے کرایے آدھے کر دیں ۔ اسی میں ہم سب کی بھلائی پوشیدہ ہے ۔