رمضان سے پہلے طوفان

عرفانیات*۔۔۔۔۔۔۔۔عرفان حفیظ ملک

0

دنیا بھر میں ایسا رواج کہیں نہیں کہ کسی تہوار پر اشیائے ضروریہ کے نرخ بڑھائے جائیں بلکہ اکثر ترقی یافتہ ،مہذب ملکوں میں اہم تہواروں پر گرانی ختم کرنے کا رواج ہے ،کئی ممالک میں تو مذہبی وسماجی تہواروں کیلئے بڑی سیلز لگتی ہیں ،جہاں منافع کا مارجن ختم کرکے صرف اونے پونے دام اشیا فروخت کی جاتی ہیں۔مگر ہمارے ہاں منافع خوری کے مواقع ہی انہی تہواروں کو سمجھا جاتا ہے انہی تہواروں پر غریبوں سے خوشیاں منانے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے اور یہ کام تاجر طبقہ ،اشرافیہ اور انتظامیہ کی ملی بھگت سے پایہ تکمیل کو پہنچانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا ۔یہاں یہ معاملہ احساس سے تعلق رکھتا ہے ،لالچ میں اندھے دکانداروں کو کبھی یہ احساس ہی نہیں رہا کہ وہ زیادہ منافع کمانے کے لئے کتنے غریبوں سے انکی سال بعد آنے والی خوشی بھی چھین رہے ہیں ،عجیب بے حسی کا دورہے کہ مسلمانوں کے ملک میں رمضان جیسے مقدس مہینے میں بھی۔ ذخیرہ اندوزی کرکے مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے کا کہنہ رواج اس قوم کو اخلاقی ومعاشی بدحالی کے دوراہے پر لے آیا ہے۔ بلاشبہ رمضان رحمتوں، برکتوں آسانیوں کا مہینہ ہے۔ یہ صبر، برداشت، رحم دلی، بردباری اور درگزر کا مہینہ بھی ہے۔ اس مہینے میں دوسروں کا خیال رکھنا عام مہینوں سے زیادہ ثواب اور اجر کا سبب ہوتا ہے۔ جو مومن ہے اجر و ثواب کا یہ موقع ضائع نہیں جانے دیتا۔ ہم ہر نماز میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں کہ اے پروردگار ہمیں اپنے ان لوگوں میں شامل کر جن پر تو نے اپنا انعام کیا، جن پر تو نے اپنی نعمتیں اور برکتیں نازل کیں، اور ہمیں ان لوگوں میں شامل نہ کرنا جن پر تو نے اپنا غضب نازل کیا۔ رمضان المبارک بہترین موقع ہوتا ہے کہ ہم اپنا ہاتھ کھول دیں اور اللہ کے بندوں کی اتنی مدد کریں، ان کے لیے اتنی سہولت پیدا کریں کہ تمام کائناتوں کا مالک ہمیں اپنے پسندیدہ لوگوں میں شامل کر لے۔ کچھ لوگ ایسا کرتے بھی ہیں لیکن مشاہدے میں آتا ہے کہ یہاں پاکستان میں خاصی بڑی تعداد میں لوگ رمضان المبارک کو زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کا موقع سمجھ لیتے ہیں۔ اب اس مہینے کا آغاز ہونے والا ہے ایک آدھ دن۔ بعد رمضان المبارک شروع ہورہا ہے اور دکانداروں نے اس مقدس مہینے کا استقبال ہی انتہائی غلط طریقے سے کیا ہے ۔کل میں نے 4 – 5 پھل فروشوں سے مختلف پھلوں کی قیمتوں کے بارے میں جب پوچھا تو سن کر حیران رہ گیا کہ جو کینو/مالٹا دو دن پہلے تک تین سے چار سو روپے درجن مل رہا تھا وہ اب چھ سو روپے کا ہوگیا ہے۔ سیب تین سو سے پانچ سو روپے کلو، امرود دو سو سے تین سو روپے کلو ہو گیا ہے اور اسی طرح کیلا دو سو روپے سے تین سو روپے فی درجن مل رہا تھا۔ ابھی گزشتہ تین چار دنوں سے کراچی میں پانی کی فراہمی (ٹینکروں والی) بند تھی کیونکہ شاید “مین واٹر سپلائی لائن” کی مرمت ہو رہی تھی۔ اس عرصہ کے دوران جو سوزوکی آٹھ-نو سو روپے میں ملتی تھی، وہ ہمیں بمشکل پندرہ سو روپے میں ملی (حالانکہ وہ اس ایک ہزار لیٹر پانی کا دو ھزار روپے مانگ رہا تھا) وہ بھی کسی دوسرے پانی بیچنے والے کی سفارش کے ساتھ۔۔۔ کیا یہ کوئی اسلامی مملکت ہے یا پھر کوئی ایسی اندھیر نگری ہے کہ جہاں جس کا جتنا بس چلتا ہے، وہ اس کے مطابق بلا روک ٹوک عوام کو لوٹتا چلا جا رہا ہے اور وہ بھی بغیر کسی شرم و حیا کے۔۔؟
اس ضمن میں میرا سندھ حکومت سے ایک نہایت معصوم سا سوال یہ ہے کہ رمضان کی آمد سے قبل یہرمضان بلا شبہ رحمتوں، برکتوں آسانیوں کا مہینہ ہے۔ یہ صبر، برداشت، رحم دلی، بردباری اور درگزر کا مہینہ بھی ہے۔ اس مہینے میں دوسروں کا خیال رکھنا عام مہینوں سے زیادہ ثواب اور اجر کا سبب ہوتا ہے۔ جو مومن ہے اجر و ثواب کا یہ موقع ضائع نہیں جانے دیتا۔ ہم ہر نماز میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں کہ اے پروردگار ہمیں اپنے ان لوگوں میں شامل کر جن پر تو نے اپنا انعام کیا، جن پر تو نے اپنی نعمتیں اور برکتیں نازل کیں، اور ہمیں ان لوگوں میں شامل نہ کرنا جن پر تو نے اپنا غضب نازل کیا۔ رمضان المبارک بہترین موقع ہوتا ہے کہ ہم اپنا ہاتھ کھول دیں اور اللہ کے بندوں کی اتنی مدد کریں، ان کے لیے اتنی سہولت پیدا کریں کہ تمام کائناتوں کا مالک ہمیں اپنے پسندیدہ لوگوں میں شامل کر لے۔ کچھ لوگ ایسا کرتے بھی ہیں لیکن مشاہدے میں آتا ہے کہ یہاں پاکستان میں تاجروں اور دکانداروں نے مصنوعی مہنگائی پیدا کرکے غریبوں کی مشکلات میں اصافہ کیا ہے ۔ یہ لوگ ماہ صیام شروع ہونے سے پیشتر کھانے پینے کی اشیا خصوصاً وہ اشیا جو سحری اور افطاری کے وقت زیادہ استعمال ہوتی ہیں، ذخیرہ کر لیتے ہیں اور پھر رمضان شروع ہوتے ہی یہ اشیا محدود مقدار میں مارکیٹ میں لاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔ یہ منافع اتنا زیادہ ہوتا کہ بعض حوالوں سے یہ ظلم محسوس ہونے لگتا ہے۔ جو یکایک قیمتوں میں اضافہ رونما ہوا ہے، کیا یہ کوئی انتظامی مسئلہ ہے یا پھر کوئی انتقامی کارروائی ہے۔
ان حالات میں اب حکومت کی یہ اولین ذمے داری ہے کہ رمضان المبارک میں مہنگائی کا جن قابو کرنے کی خاطر تیزرفتار اقدامات کئے جائیں ،ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں کے خلاف منظم مہم چلائی جائے تاکہ غریبوں کو اس ہوشربا مہنگائی سے چھٹکارہ مل سکے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.