رانا صفدر علی خان صاحب ملک کے مایہ ناز صحافی اور چیف ایڈیٹر روز نامہ “ سرزمین ” لاہورکا گذشتہ کالم ” استحکام کی تلاش میں پاکستان ” بڑی زبردست سوچ کا حامل تھا ۔ان کی تحریر کی خوبی یہ ہے کہ وہ چند لفظوں میں ہی بڑی سے بڑی بات بھی اس سادگی سے کرتے ہیں کہ جو براہ راست دل پر اثر کرتی ہے ۔کہتے ہیں کہ قلم سے نکلے لفظ تب ہی اثر پذیر ہوتے ہیں جب لکھاری کے دل کا درد اور ذہنی کیفیت اس کی تحریر میں ڈھل جاۓ ۔ان کے ہر لفظ سے قوم و ملک کے لیے ان کے دل میں پایا جانے والا درد ،محبت اور مثبت جذبات ہمیشہ ان کی تحریروںمیں ان کی بلند سوچ کی عکاسی کرتے ہیں ۔ہم بطور معاشرہ اور قوم واقعی استحکام پاکستان کی تلاش کے سفر میں رواں دواں تو ضرور ہیں مگر راستے کھٹن اور منزل دور دکھائی دیتی ہے ۔رانا صاحب کی سوچ اور خواہش بےحد قابل تحسین ہے ۔مگر اس کے لیے ہمیں خود کو مثبت رکھنے کے لیے کانوں میں گھلنے والے منفی زہر یلے پراپیگنڈے سے باہر آنا ہوگا ۔ہمارے بڑے بڑے اور نامور صحافیوں کو بھی رانا صفدر علی خان صاحب کی تقلید میں استحکام پاکستان کے لیے ایسی ہی سوچ کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔جو قوم کو جوڑ نے اور باہمی یکجہاتی کے لیے معاون ثابت ہوسکے ۔ہم ایک قوم ہیں مگر ہمارے رشتوں میں یہ دراڑیں کیوں ؟ ایک ہی راستہ ہے ایک ہی منزل ہے اور ایک ہی سفرمگر ہم روٹھے روٹھے اور ایک دوسرے سے ناراض ناراض کیوں ہیں ؟ ہمارے باہمی رشتے کمزو ر کیوں ہیں ؟ ان ٹوٹے اور ادھیڑے رشتوں کو پھر سے جوڑنا اور سلائی کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے ۔رانا صاحب اپنی قلمی بخیہ گری سے قوم کو جوڑنے کی کوشش کے ہمیشہ سےعلمبردار رہے ہیں جو ایک ذمہ دار صحافی کا اولین فریضہ ہوتا ہے اور اپنی اس تحریر میں پھر یہی چاہتے ہیں کہ ہم سب جمہوریت کی روایات اور استحکام پاکستان کے لیےا یک جان ہوکر ایک دوسرے کو برداشت کرنے کاجذبہ پیدا کریں اور ملکی ترقی کے سفر میں اپنا انفرادی ،اجتماعی اور جمہوری کردار ادا کریں ۔اس کالم میں حکومت کو برداشت اور اپوزیشن کو تحمل کا مشورہ رانا صاحب کی سیاسی اور قلمی بخیہ گری کی عمدہ ترین مثال ہے ۔
ایک بزرگ کہتے ہیں کہ اگر تمہارے کھانے میں کسی نے زہر ڈال دیا تو ممکن ہے کہ تم بچ جاو لیکن اگر تمہارے کان میں کسی نے زہر ڈال دیا تو نہ تم بچ سکو گے اور نہ تمہارے رشتہ دار اور تعلق دار ہی اس زہر سے محفوظ رہ سکیں گے ۔یہ زہر رشتوں کو غلط فہمیوں کے خنجر سے زخمی کر کے اس قدر ادھیڑ کر رکھ دیتا ہے کہ بخیہ گری بھی مشکل ہو جاتی ہے ۔لیکن رشتوں کے ٹوٹنے سے قبل اگر ہر بار تھوڑی بہت رفو یا بخیہ گری کردی جاے تو سلسلہ پہلے کی طرح چلتا تو نہیں البتہ رینگتا اور زندہ ضرور رہتا ہے ۔کسی بھی انسان کو لگا یہ زخم چاہے وہ اس کے بدن کو مجروح کرے یا پھر روح کو اس کی ساتھ ساتھ رفو اور بخیہ گری ضروری ہوتی ہےتاکہ یہ زخم مزید نہ بڑھ سکے اور بخیہ گری وہی کرسکتا ہے جو اس پیچیدہ ہنر کو جانتا اور سمجھتا ہو ۔یہ فن سیکھنے سے زیادہ خداداد صلاحیت یا وصف ہوتی ہے جو شاید سب کو میسر نہیں آتی ۔یہ بخیہ گری ، رفو یا باہمی جوڑنے کی کوشش جتنی نفاست اور احتیاط سے کی جاۓ گی اتنی ہی دیر پا ہوگی ۔ہمارے درمیان ہم میں سے ہی بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو صلح جوئی کو اپنی ڈیوٹی سمجھتے ہیں ۔ بزرگ کہتے ہیں کہ ٹوٹے کو جوڑ نا اور روٹھے کو منانا وہ فن اور نیکی ہے جو دین ودنیا کی بھلائی کے ساتھ ساتھ اخلاقی بلندی بھی سمجھی جاتی ہے ۔ آج ہمارے معاشرۓ میں ایسے لوگوں کا فقدان ہے جو کانوں میں گھولے گئےایسے زہر کا تریاق ہوا کرتے تھے ۔کانوں میں گھلنے والا عد م برداشت کا یہ زہر انفرادی ہی نہیں قومی المیہ بھی ہے ۔غلط فہمیوں اور جھوٹے پراپیگنڈے کا زہر پورے معاشرے ہی نہیں پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ بنتا جارہا ہے ۔
ہر اک تعلق کو بخیہ گری کی حاجت ہے
کبھی زباں سے کبھی خامشی سے سلتے ہیں
جیسے مختلف روزمرہ چیزوں خصوصی کپڑوں کو رفو کیا جاتا ہے ۔ کبھی سوچا ہے کہ ہر سطح پر تعلقات کو بھی مہارت سے رفو کرکے پہلے جیسا بنا لیا جاتا ہے ؟ جی بالکل۔۔۔۔آپ ٹھیک ہی سمجھیں ہیں ۔۔۔ان رشتوں کو رفو اور بخیہ گری سے بھی نکھارا جا سکتا ہے ۔۔۔ایک دفعہ غلط فہمیاں ہو گئی ہیں تو اب اس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ ساری عمر ان کو اکٹھا کرتے پہاڑ بناتے اب وقت گزار دینا ہے ۔ کچھ تعلقات اور رشتے مکمل ٹوٹنے کے لیے نہیں ہوتے۔ وہ بس تھک جاتے ہیں… روٹھ جاتے ہیں… یا ہمارے لاشعوری رویوں کے بوجھ تلے دب کر الگ الگ ہو جاتے ہیں۔ بخیہ گری یا رفو کی گنجائش ہو، تو رشتہ صرف بچتا ہی نہیں بلکہ اور بھی نکھر جاتا ہے۔ تعلقات کی بخیہ گری کرنے کے لیے آپ کا وقت لگتا ہے اور محنت بھی کرنی پڑتی ہے ۔ تو پھر اب کرنا کیا ہے ؟ وجہ ڈھونڈیے کہ جس وقت یہ تعلق ٹوٹا تھا، وہ غلط فہمی کیا تھی؟ دکھ تھا؟ یا توقعات کا بوجھ تھا؟ یا کچھ اور تھا ؟ اپنے جذبات کی صفائی کیجیے ۔اپنے اندر سے ان منفی جذبات کو نکالیں جو ماضی کے واقعے یا کسی کے زہر بھرنے کی وجہ سے آپ کے اندر جگہ بنائے بیٹھے ہیں ۔رشتے کمزور نہیں ہوتے ہم انہیں سنبھالنا چھوڑ دیتے ہیں ورنہ جو سلائی یا بخیہ گری دل سے کی جاے وہ عمر بھر نہیں ٹوٹتی ۔ان رشتوں کو جوڑےرکھنا کیوں ضروری ہے ؟ کیونکہ ہم سب اکیلے ہیں اور ایک دوسرے کے بغیر نامکمل اور ادھورے ہوتے ہیں ۔رشتے جوڑے رکھنا اور نبھانا دراصل خود کو مکمل رکھنے کا ہنر ہے ۔
بخیہ گری کی یہ سوچ انفرادی یا اجتماعی ہی نہیں بلکہ قومی سطح پر بھی ہونی چاہیے ۔ ملکی اور قومی سیاسی افراتفری اور بڑھتی ہوئی رنجشیں کبھی بھی کسی معاشرۓ یا قوم کے لیے سود مند نہیں رہیں اس لیے یہاں بھی ہمیشہ بخیہ گری ہوتی چلی آئی ہے اور ہمارے بہت سے سیاستدان اس معاملہ میں اپنے مثبت کردار کی وجہ سے بہت مقبول رہے ہیں جن میں نواب زادہ نصراللہ خان مرحوم کی سیاسی خدمات کو ہمیشہ سراہا جاتا ہے ۔بدقسمتی ہے آج سیاست میں اس طرح کی کوئی قد آور شخصیت دکھائی نہیں دیتی جو ملکی استحکام اور یکجہاتی کا علم بلند کرکے پورۓ ملک کے سیاستدانوں کو ایک میز پر اکھٹا کر سکے ۔یقینا” ملک کا استحکام ایسی یکجہاتی اور مشترکہ سوچ سے ہی ممکن ہو سکتا ہے ۔پاکستان کے استحکام اور ترقی کے لیے صلح جو اور روادار لوگوں کی ضرورت واقعی بڑھتی جارہی ہے کیونکہ معاشرتی و سیاسی باہمی رنجشیں ،فرقہ واریت ،سیاسی تقسیم اور معاشرتی عدم برداشت ملک کی ترقی میں رکاوٹ بن رہی ہیں ۔کاش ہمیں ایسی مثبت سیاسی قیادت میسر آسکے جو موجود بحران کو اپنی سیاسی بصیرت سے عبور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو ۔
ہمارے پاکستانی معاشرے کو ایسے افراد کی ضرورت ہے جوتوڑنے کی بجاے جوڑنے والے ہوں ۔ جو “میں درست ہوں ” کی ضد چھور کر “رشتہ بچانا ہے “ اور برداشت کی سوچ اپنا تے ہوں ۔یہ کام شاید آسان نہ ہو لیکن اس میں وہ سکون اور اطمینان ہے جو دنیا کی کوئی دولت نہیں دے سکتی ۔ ہمارا معاشرہ ہو یا ملک اور قوم اگر ہر فرد اپنی اپنی سطح پر برداشت ،روداری اور مثبت سوچ کو فروغ دۓ تو پاکستان ایک مستحکم اور ایک پرامن معاشرہ کی طرف گامزن ہو سکتا ہے ۔
میں وہی سینہ صد چاک لیے پھرتا ہوں
تم تو کہتے تھے تمہیں بخیہ گری آتی ہے ۔