کربلا تاریخ کے تناظر میں! یادداشت نمبر 4

تحریر-سیدارشد علی نقوی

1

کرب و بلا کی یادوں کا منظر کچھ یوں ہے کہ کربلا کا بے آب و گیاہ میدان ہے اور خاندان رسالت کے بوڑھے، جوان، بچے اور خواتین ہیں، ان کے علاوہ امام علیہ السلام کے ساتھ کچھ دین دار و جانثار دوست احباب ہیں
جیسے جیسے دن گرز رہے ہیں، دشمن کی تعداد بڑھ رہی ہے اور لشکر اسلام ہر طرف سے محاصرے میں آ رہا ہے
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سات محرم کو اس سانحہ فاجعہ کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہونے کو ہے
اس بربریت کی تکمیل کی گھڑی بھی آگئی جس کی عملی ابتداء 2 محرم کو ہوئی تھی جب ابن زیاد نے حر کو لکھا تھا کہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ متشددانہ سلوک کر اور ان کو بے آب و گیاہ زمین میں اترنے پر مجبور کر۔
چنانچہ حر نے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے امام عالی مقام کو ایسے ہی بے آب و گیاہ مقام پر ڈیرے ڈالنے پر مجبور کر دیا تھا
اس لئے امام عالی مقامؑ کو پانی حاصل کرنے میں دقت کا سامنا تو پہلے ہی تھا مگر ساتویں محرم کو ابن زیاد کا دوسرا تاکیدی حکم بھی آ گیا کہ “حسینؑ اور ان کے ساتھیوں پر پانی بند کر دو کیونکہ میں اس پانی کو یہود و نصاریٰ پر تو حلال کرتا ہوں مگر حسینؑ اور ان کے اہلبیتؑ پر حرام قرار دیتا ہوں، خیال رکھنا ان تک پانی کا ایک قطرہ بھی نہ پہنچنے پائے۔”
پس کربلا کی سرزمیں نے دیکھا کہ پانی تک رسائی کا یہ سلسلہ بھی بند ہو رہا ہے
چنانچہ عمر بن سعد نے اس کافرانہ حکم امتناعی کی فوری تعمیل کرتے ہوئے عمرو بن حجاج زبیدی کو پانچ سو سواروں کے ساتھ نہر فرات پر بطور پہرہ دار متعین کیا اور تاکید کر دی کہ “حسینیؑ خیام تک پانی کا ایک قطرہ بھی نہ پہنچنے پائے” یہ شہادت امام حسین علیہ السلام سے تین روز پہلے کا واقعہ ہے
لق و دق صحرا میں بندش آب کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے اعزہ و انصار اور بالخصوص شیر خوار بچوں پر کیا قیامت گزری ہوگی اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل بات نہیں
ہرطرف سے بوجہ شدت پیاس “العطش العطش” کی جگرخراش اور جاں گداز آوازیں بلند ہو رہی ہیں
ساقی کوثر کا خاندان آج ایک ابتر خاندان کے گماشتوں کے ہاتھوں قطرہ آب کو ترس رہا تھا
اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ دشمنان دین کی شماتت آمیز طعن و تشنیع اور بھی قیامت ڈھا رہی تھی اور زبان کے یہ تیر فرزند رسول، دلبند بتول سید الشہداء علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو جس روحانی اذیت سے دوچار کر رہے تھے وہ بندش آب سے بھی زیادہ تکلیف دہ تھی
بعض ناہنجار افراد کی گستاخیوں کے متعدد واقعات تاریخ میں ملتے ہیں کہ ان گستاخوں نے اس نازک مرحلے پر گستاخانہ باتوں سے فرزند رسول علیہ السلام کے زخموں پر نمک پاشی کی (لعنۃ اللہ علیھم اجمعین) چنانچہ تاریخ مقاتل میں لکھا ہے کہ عمرو بن الحجاج زبیدی نے بآواز بلند کہا:
“ائے حسینؑ! یہ نہر فرات کا پانی ہے جسے کتے اور بیابان کے سؤر اور بھیڑیئے بھی پی رہے ہیں لیکن تم اس کا ایک قطرہ بھی نہیں پی سکتے یہاں تک کہ آتش جہنم میں کھولتا ہؤا پانی پیئو” (خاکم بدہن۔ نقل کفر ،کفر نباشد)
راویان کا بیان ہے کہاہل بیت رسول علیہم السلام پر یہ کافرانہ کلام بندش آب کے صدمے سے بھی زیادہ گراں تھا، اسی طرح ایک اور گستاخ کا طعن آمیز کلام بھی تاریخ میں ملتا ہے وہ ہے عبداللہ بن حصین ازدی اس نے پکار کر کہا:
“اے حسینؑ! اس پانی کو دیکھ رہے ہو جو اپنے نیلگوں رنگ کی وجہ سے آسمان کا جگر پارہ معلوم ہوتا ہے بخدا تم اس کا ایک قطرہ بھی نہیں پی سکتے یہاں تک کہ شدت پیاس سے بلک بلک کر دم توڑ دو”
امام عالی مقامؑ کو اس بیہودہ کلام کے سننے سے اس قدر اذیت ہوئی کہ بارگاہ قدرت میں دست دعا بلند کر کے فرمایا:
“پروردگار اس ملعون کو پیاس سے قتل کر اور اس کو کبھی نہ بخش”
امامؑ کی بددعا کا جو اثر ہؤا وہ حمید بن مسلم کی زبانی سنئے وہ بیان کرتا ہے:
میں بعد از واقعہ کربلا اس شخص کے بیمار ہونے پر بیمار پرسی کرنے گیا اس خدا کی قسم جس کے بغیر کوئی معبود برحق نہیں کہ میں نے دیکھا کہ وہ پیاس کی شدت سے اس قدر پانی پیتا تھا کہ پانی حلق تک پہنچ جاتا تھا پھر قئے کر دیتا تھا اور بدستور العطش العطش پکارنے لگتا حتیٰ کہ اسی حالت میں واصل جہنم ہوگیا۔۔
خاندان رسالت پر پانی بند کیا گیا تو لشکر اسلام نے پانی حاصل کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا
تاریخ مقتل کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی حاصل کرنے کی کئی کوشش تو بہت کی گئی مگر خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی
جب پیاس نے بہت شدت اختیار کی تو امام علیہ السلام کے اصحاب میں سے یزید بن حصین ہمدانی یا بعض روایات کے مطابق بریر بن خضیر ہمدانیؒ نے خدمت امام عالی مقام میں حاضر ہوکر کیا کہ فرزند رسول علیہ السلام اگر اجازت ہو تو میں ابن سعد سے اس معاملہ میں کچھ گفتگو کروں شاید وہ اپنی شقاوت سے باز آ جائے
امام علیہ السلام نے اجازت کے بعد وہ ابن سعد کے پاس گئے مگر اسے سلام نہ کیا تو پسر سعد نے کہا
اے ہمدانی تو نے مجھے سلام کیوں نہیں کیا؟
کیا میں مسلمان نہیں ہوں؟
کیا میں خدا اور رسولؐ کو نہیں پہچانتا؟
ہمدانی نے کہا اگر تو مسلمان ہوتا اور خدا اور اس کے رسول کو پہچانتا تو ان کی عترت کے قتل کے ارادہ سے یہاں نہ آتا۔۔۔ اور اس کے بعد اپنے آنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا:
“اے پسر سعد! تمہیں شرم نہیں آتی یہ دریائے فرات کا پانی ہے جسے صحرائی درندے تک پی رہے ہیں لیکن یہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہل و عیال ہیں جو اس کے کنارے شدت

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.