کائنات کے راز ۔ براہِ راست بننے والے عظیم بلیک ہولز

تحریر: محمد جمیل شاہین راجپوت

4
تمہید
کائنات کے اسرار انسانی عقل کے لیے ہمیشہ حیرت انگیز رہے ہیں۔ جدید دور کی فلکیاتی تحقیق نے ہمیں بلیک ہولز، نیوٹرون ستاروں، کوارک گیس، اور ابتدائی کائناتی حالات جیسے کئی عجیب و غریب مظاہر سے روشناس کرایا ہے۔ حالیہ دنوں میں سائنسدانوں نے ایک ایسا انقلابی نظریہ پیش کیا ہے جو ہماری کائناتی فہم میں ایک بنیادی تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے — یعنی “براہ راست انہدام” (Direct Collapse) کے ذریعے بلیک ہولز کی تخلیق۔
پس منظر: بلیک ہولز اور ان کی ابتدائی موجودگی
ہماری اب تک کی معلومات کے مطابق بلیک ہولز عام طور پر ستاروں کے زوال (Stellar Collapse) کے نتیجے میں بنتے ہیں۔ ایک بڑا ستارہ جب اپنی زندگی مکمل کرتا ہے تو وہ اندر کی طرف دبک کر ایک بلیک ہول میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایسے بلیک ہولز کی کمیت زیادہ سے زیادہ سورج کے دس گنا کے برابر ہوتی ہے۔
تاہم ایک حیران کن حقیقت یہ ہے کہ سائنسدانوں نے ایسی کہکشاؤں میں بلیک ہولز دریافت کیے ہیں جو بگ بینگ کے صرف 750 ملین سال بعد وجود میں آئیں — اور ان بلیک ہولز کی کمیت سورج سے اربوں گنا زیادہ ہے۔ اتنی کم مدت میں اتنا بڑا بلیک ہول بننا موجودہ نظریات کے مطابق تقریباً ناممکن ہے، کیونکہ اس کے لیے مسلسل اور غیر معمولی رفتار سے مادہ نگلنا درکار ہے۔
نیا نظریہ: براہِ راست انہدام (Direct Collapse)
اسی مسئلے کے حل کے طور پر “براہِ راست انہدام” کا نظریہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق بعض ابتدائی کہکشاؤں میں ایسے گیس کے عظیم بادل موجود تھے جو ستاروں میں تبدیل ہونے کے بجائے براہِ راست بلیک ہول کی شکل اختیار کر گئے۔ ان بادلوں کا درجہ حرارت تقریباً 10,000 کیلون برقرار رہتا ہے، جو ہائیڈروجن کے ایٹمی سطح کا درجہ حرارت ہے۔ اگر گیس اس درجہ حرارت پر مستحکم رہے تو وہ ستاروں میں تبدیل ہونے کے بجائے ایک بہت ہی بھاری اور گھنے مرکز میں ڈھل جاتی ہے جو آگے چل کر بلیک ہول بن جاتا ہے۔
لائمن-الفا روشنی کی اہمیت
سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ اس عمل کے دوران ایک مخصوص قسم کی روشنی، جسے Lyman-alpha emission کہا جاتا ہے، خارج ہوتی ہے۔ یہ روشنی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہائیڈروجن کے ایٹم الٹراوائلٹ شعاعوں کو جذب کر کے دوبارہ خارج کرتے ہیں۔ یہ روشنی اس بات کی علامت ہو سکتی ہے کہ بلیک ہول کا ابتدائی بیج (Seed) بن رہا ہے۔
جدید تحقیق نے یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ اگر گیس کے بادل گھوم رہے ہوں تو ان میں ایک ایسا ڈسک (Accretion Disk) بن جاتا ہے جو روشنی کے اخراج کے لیے دو مخروطی راستے فراہم کرتا ہے۔ ان راستوں سے 95 فیصد سے زیادہ لائمن-الفا فوٹونز باہر نکل سکتے ہیں، جنہیں جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کی مدد سے پکڑا جا سکتا ہے۔
سائنسدانوں کی تحقیق اور نتائج
یہ تحقیق یانگ لو اور آئزک شلوسمن نے کی ہے جو arXiv پر شائع ہوئی ہے۔ ان کے مطابق اگر ہم ایسی روشنیوں کو پکڑ سکیں تو ہم پہلی مرتبہ بلیک ہول کے “پیدائش کے لمحے” کو براہ راست مشاہدہ کر سکیں گے۔ یہ اس وقت ممکن ہوگا جب کائنات کی عمر صرف 500 ملین سال تھی۔ تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایسی روشنی کا اسپیکٹرم عام کہکشاؤں یا کوزارز (Quasars) سے بالکل مختلف ہوگا، اور اس کی شناخت ممکن ہو سکے گی۔
اسلامی تناظر اور نتیجہ
قرآن مجید میں کائنات کی تخلیق اور اس کی وسعت کے کئی مقامات پر ذکر ملتا ہے۔ سورہ ذاریات میں ارشاد ہوتا ہے:
⁠”وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ”
“اور ہم نے آسمان کو طاقت سے بنایا اور ہم ہی اسے وسعت دینے والے ہیں۔” (الذاریات: 47)
یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے خاص حکمت اور طاقت کے ساتھ بنایا ہے۔ براہ راست انہدام جیسے سائنسی تصورات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ اللہ کی بنائی ہوئی کائنات کس قدر پیچیدہ، وسیع اور حیرت انگیز ہے۔ انسان جتنا آگے بڑھتا ہے، اتنا ہی اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ کائنات کے اصل رازوں سے کتنا ناواقف ہے۔
یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ایسے مظاہر وجود میں آ سکتے ہیں جن کا انسان صرف گمان کر سکتا ہے، اور ان کا علم محض تدریجاً ملتا ہے۔ سورہ ملک میں ارشاد ہے:
⁠”الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ۖ مَا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَـٰنِ مِن تَفَاوُتٍ ۖ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ”
“جس نے سات آسمان تہ بہ تہ بنائے، تم رحمٰن کی تخلیق میں کوئی خلل نہ دیکھو گے، نظر دوڑاؤ، کیا کوئی رخنہ دیکھتے ہو؟” (الملک: 3)
خلاصہ
“براہِ راست انہدام” کا نظریہ بلیک ہولز کی ابتدا کو ایک نئے زاویے سے سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
ابتدائی کائنات میں کچھ گیس بادل ستاروں میں تبدیل ہونے کے بجائے براہِ راست بلیک ہولز کی شکل اختیار کر سکتے تھے۔
مخصوص روشنی یعنی لائمن-الفا کے اخراج کو پکڑ کر ان عملوں کا مشاہدہ ممکن ہو رہا ہے۔
جیمز ویب ٹیلی اسکوپ اس حوالے سے ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
اسلامی تعلیمات بھی ہمیں کائنات کی عظمت اور انسانی علم کی محدودیت کا احساس دلاتی ہیں۔
نتیجہ:
کائنات کے یہ گہرے راز اس بات کی علامت ہیں کہ تخلیق کا عمل نہ صرف عقل و فہم سے بالا تر ہے بلکہ ایک عظیم حکمت کی عکاسی کرتا ہے۔ سائنسی تحقیق جب اسلامی بصیرت کے ساتھ مل کر دیکھی جائے تو یہ انسان کو خالقِ کائنات کی طرف مزید جھکنے پر مجبور کرتی ہے۔ بلیک ہولز ہوں یا لائمن-الفا شعاعیں، یہ سب قدرتِ الٰہی کی نشانیاں ہیں جنہیں دیکھ کر مؤمن کا ایمان مزید پختہ ہوتا ہے۔
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.