’’میرا نام مزدور ہے…‘‘

: شاہد نسیم چوہدری ٹارگٹ 0300-6668477

1

میرا نام مزدور ہے۔میں صبح کے دھندلکے میں گھر سے نکلتا ہوں، جب تمہاری۔آنکھیں ینند کی وادیوں میں کھوئی ہوئی ہوتی ہیں۔ میں وہ ہوں جو تمہارے لیے عمارتیں کھڑی کرتا ہے، تمہاری سڑکیں بناتا ہے، تمہاری فیکٹریاں چلاتا ہے، تمہارے بچوں کی کاپیاں بناتا ہے، اور کبھی کبھی تمہارے بچوں کو اپنی محنت کا خون پلا کر تعلیم سے محروم کر دیتا ہے۔
میں وہ ہوں جو رکشہ چلاتا ہے، جو نالی صاف کرتا ہے، جو اینٹیں ڈھوتا ہے، جو ہوٹل پر برتن مانجھتا ہے۔ میرے ہاتھ کھردرے ہیں، میرے ناخنوں میں مٹی ہے، میرے جسم سے پسینہ بہتا ہے۔ مگر تمہیں شاید اس کی بو آتی ہے۔ تم مجھے سلام کرنے سے بھی کتراتے ہو۔
سال میں ایک دن تم مجھے یاد کرتے ہو — یکم مئی کو۔
مجھے عجیب لگتا ہے جب سفید پوش لوگ، اے سی ہالوں میں بیٹھ کر، میرا دن مناتے ہیں۔ میری غربت پر تقریریں کرتے ہیں، میری مزدوری پر اشعار پڑھتے ہیں، میرے بچوں کے لیے فلاحی اداروں کے وعدے کرتے ہیں۔ میں ان کے بیچ اپنی میلی قمیض اور پائوں میں ٹوٹی چپل لیے کھڑا ہوتا ہوں، جیسے کوئی مزار پر فقیر کھڑا ہو — ہاتھ پھیلائے، آنکھیں بند کیے، دعا کی امید میں۔
مگر کیا تم جانتے ہو؟
مجھے صرف ایک دن کی ہمدردی نہیں چاہیے۔
مجھے انصاف چاہیے، عزت چاہیے، زندہ رہنے کا حق چاہیے۔
میں خیرات نہیں مانگتا، حق مانگتا ہوں۔
تم کہتے ہو غلامی ختم ہو چکی۔ میں کہتا ہوں، نہیں!
میں آج بھی اُس فیکٹری میں غلام ہوں جہاں مجھے کم از کم تنخواہ سے بھی کم پیسے ملتے ہیں۔
میں اُس کھیت میں غلام ہوں جہاں زمین کا مالک صرف مجھے ’’ہاری‘‘ کہہ کر بلاتا ہے، نام سے نہیں۔
میں اُس گھر میں غلام ہوں جہاں میں بیوی بچوں سمیت چوبیس گھنٹے ملازم ہوں اور چھٹی کا تصور تک نہیں۔
تم نے غلامی کا نام بدل دیا ہے — بس!
اب یہ “ٹھیکیداری نظام” کہلاتا ہے، “کنٹریکٹ ورکر” کہلاتا ہے، “ڈیلی ویجز” کہلاتا ہے۔
میری چھت نہیں ہے، میرے گھر میں چولہا اکثر نہیں جلتا۔
اسی لیے میرا دس سالہ بچہ بھی مزدور ہے۔ تم نے اسے “چائلڈ لیبر” کہا، میں نے اسے “روزی” کہا۔
تم نے اس پر قانون بنایا، میں نے اس پر آنسو بہائے۔
کیا تمہیں کبھی سڑک کنارے شیشہ صاف کرنے والے، چائے کے ہوٹل میں کام کرنے والے، یا فٹ پاتھ پر جوتے پالش کرنے والے بچے نظر آئے؟ وہ سب میرے بچے ہیں۔
ان کے کندھوں پر بستے نہیں، ذمہ داریاں ہیں۔ ان کی انگلیوں میں پین نہیں، چھالے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں خواب نہیں، تھکن ہے۔
یکم مئی کو میرے نام پر بینرز مت لگاؤ، مجھے تقریروں میں مت یاد کرو، میری تصاویر کو سجاوٹ نہ بناؤ۔
مجھے وہ قانون دو جو میری محنت کا تحفظ کرے۔
مجھے وہ سہولت دو جو میرے بچوں کو تعلیم دے، میری بیوی کو دوا دے، اور میرے بڑھاپے کو تنہائی سے بچائے۔
میری یونینیں مت خریدو، میرے نمائندے مت جھوٹے وعدوں میں جکڑو۔
مجھے میرے حق کا ایک سچا، مختصر سا وعدہ دے دو — ’’میرے پسینے کا پورا معاوضہ۔‘ میں خواب دیکھتا تھا — چھوٹے سے مکان کا، بچوں کی تعلیم کا، اور بیماری سے نجات کا۔
مگر تم نے ان خوابوں کو ’’مہنگائی‘‘ کے شکنجے میں دبا دیا۔
ہر مہینے آٹے کی قیمت بڑھتی ہے، ہر ہفتے بجلی کا بل دوگنا ہوتا ہے، اور ہر دن میری اُجرت کم لگنے لگتی ہے۔
مجھے بتایا جاتا ہے کہ ملک ترقی کر رہا ہے — مگر میرا چولہا آج بھی ٹھنڈا ہے۔
میں اکیلا ہوں مگر کمزور نہیں۔
میری محنت سے تمہارے شہر روشن ہیں، تمہاری فیکٹریاں آباد ہیں، تمہاری زندگی رواں ہے۔
اگر میں ہڑتال کر دوں تو تمہاری سہولتیں رک جائیں۔ اگر میں سڑک پر آ جاؤں تو تمہیں اپنی گاڑی سے اترنا پڑے گا۔مگر میں فساد نہیں چاہتا۔ میں فقط عزت چاہتا ہوں۔
اگر واقعی تم میرا دن منانا چاہتے ہو تو:
میرے بچوں کو اسکول بھیجو۔
میری تنخواہ بروقت اور پوری ادا کرو۔
مجھے دو وقت کی عزت دار روٹی دے دو۔
میری بیماری کا علاج کروا دو۔
میرے بڑھاپے کو سڑک پر نہ چھوڑو۔
میرا نام مزدور ہے — میں تمہاری بنیاد ہوں، تمہاری طاقت ہوں، تمہاری ترقی کا پہیہ ہوں۔
اگر تم نے مجھے پہچان لیا تو کل کا پاکستان روشن ہوگا۔ اگر مجھے بھلا دیا تو صرف عالیشان عمارتیں بچیں گی — اندر سے خالی، باہر سے روشن۔
تم آج یکم مئی مناتے ہو؟
چلو مان لیا — مگر خدا کے لیے، کل مجھے پھر نہ بھول جانا…….!
تپتی سڑکوں پر ننگے پاؤں سفر کرتے ہیں
یہ وہ لوگ ہیں جو پتھر کو بھی تر کرتے ہیں
دھوپ سہتے ہیں، پسینے میں نہاتے ہیں مگر
یہ تو ہر حال میں ہمت کو بشر کرتے ہیں
بھوک چپ چاپ لبوں پر جو سجا رکھی ہے
دل کے زخموں کو ہنستے ہوئے پر کرتے ہیں
کب کوئی پوچھتا ہے اِن کے دکھوں کا موسم
وہ دعاؤں سے ہی قسمت پر صبر کرتے ہیں
خون ، پسینہ، خواہشیں ، ان کی ہیں شاہد
شہر کے خواب کو وہ ، تعبیر سفر کرتے ہیں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.