اچھی اچھی چند خبریں

احساس کے انداز تحریر ؛۔ جاویدایازخان

9

ہمارے ملک میں کچھ رواج  سا  ہی بن گیا ہے کہ  ہم حکومت کے اچھے اچھے اقدامات اور فیصلوں پر  توجہ دے کر اپنی خوشی اور مسرت کا اظہار نہیں کرتے بلکہ سنسنی خیز  ،پریشان کن   ،ہیجان انگیز اور بری خبروں پر چونکتے اور توجہ دیتے ہیں ۔جبکہ اچھی اور مثبت خبروں کو اجاگر کرنے سے لوگوں  میں چھوٹی چھوٹی خوشیا ں ضرور  بانٹی جا سکتی ہیں ۔خاص طور آج کے مشکل معاشی حالات  میں ایسے  حکومتی اقدامات بہت قابل ستائش ہوتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی بھی ضروری ہوتی ہے تاکہ مزید آگے بڑھنے کی کوشش کی جاسکے ۔ میرا آج کا کالم ان چھوٹی چھوٹی اچھی خبروں پر مشتمل ہے جن کا براہ راست تعلق ایک عام آدمی کو سہولت مہیا کرنے سے ہے ۔ہر سماجی و سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر مثبت کاموں اور پالیسیوں کو اجاگر کرنے سے عام عوام کی  موجودہ مایوسی میں  نہ صرف کمی لائی جاسکتی ہے بلکہ  امید کے نئے چراغ روشن کئے جاسکتے ہیں ۔

ہمارے ملک میں ٹریفک رش کی باعث لوکل ٹرانسپورٹ اور ریلوے کی بحالی ایک چیلنج بن گیا ہے اور خوشی اس بات کی ہے کہ اب ارباب  اقتدار و  اختیار اس بارۓ میں مثبت سوچ  اور ارادے رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں وفاقی اور صوبائی سطح   پر چند اچھے اچھے کام انجام بھی دے پارہے ہیں جیسے کہ ملک بھر میں پہلے ہی تجاوزات کے خاتمے کی تاریخی مہم جاری ہے اور شہر کی سڑکیں اور بازار کشادہ دکھائی دینے لگے ہیں ۔راستے کھلے کھلے اور خوبصورت دکھائی دے رہے ہیں ۔ٹریفک کی روا نی میں بہتری آرہی ہے ۔یقینا” ناجائز تجاوزات کا خاتمہ ایک بڑا مشکل فیصلہ تھا اور جس پر عمل درآمد شاید اس سے بھی مشکل کام تھا مگر یہ کر گزرنے کا عزم واقعی قابل تعریف ہے ۔اور توقع کی جارہی ہے کہ یہ سلسلہ سابقہ مہمات کی طرح درمیان میں ہی ختم نہ ہو گا بلکہ اس کا تسلسل کسی بھی مصلحت کا شکار ہوۓ بغیر برقرار رہے گا اور اس کا دائرہ کا ر بڑھا کر سڑکوں بازاروں کے بعد گلیوں اور محلوں تک لایا جاۓ گا ۔

کوٹ ادو سے ڈیرہ  غازی خان اور ملتان  تک کے لیے ٹرین کی بحالی کا فیصلہ ہو چکا ہے اور    فی الحال  ٹرائل رن یعنی آزمائشی سفر کامیابی سے مکمل ہوا ہے ۔ ابھی ملتان سےبذریعہ کوٹ ادو  جنکشن  ڈیرہ غازی خان  تک چلنے والی یہ ٹرین امید ہے کہ بہت ی جلد  غالبا” فروری کے وسط سے  ڈیرہ غازی خان  سے لاہور تک جانے لگے گی ۔یہ روٹ پچھلے کئی سالوں سے کرونا وائرس کی باعث بند ہوا تھا ۔جس کی باعث یہاں کے ایک بہت بڑے اور پسماندہ علاقے کو سستی سفری سہولیات میسر نہیں آرہی تھیں ۔مستقبل قریب میں یہی ٹرین انشااللہ لاہور سے کوئٹہ تک جانے لگے گی ۔یہ پاکستانی حکومت اور ریلوے کا  ایک اچھا قدم ہے   جو سفری سہولتوں کے ساتھ ساتھ یہاں کے اجڑے ہوۓ  اور ویران ریلوۓ اسٹیشنز کی رونقیں بھی بحال کرنے کا سبب بنے گا ۔اس سےقبل پشاور سے کراچی تک چلنے والی ٹرین  خوشحال خان ایکسپریس  کی بحالی کے امکانات بھی روشن ہو گئے ہیں جو اسی روٹ سے گزرتی تھی اور نہایت کامیاب گاڑی شمار کی جاتی تھی ۔کاروباری  شہروں اور مراکز سے منسلک یہ ریلوے سیکشن  بڑی اہمیت کا حامل ہے  اور کراچی ،کوئیٹہ ،پشاور اور روالپنڈی تک رسائی کا ایک متبادل راستہ بھی تصور کیا جاتا ہے ۔پہلے چلتن ایکسپریس ،موسیٰ پاک ایکسپریس اور خوشحال خان ایکسریس چلا کرتیں تھیں جو پاکستان کے چاروں صوبوں  کو رسائی فراہم کرتی رہی ہیں ۔یہ ایک بروقت اور درست فیصلہ ہے جو روڈ پر ٹریفک کا دباؤ کم کرنے کا باعث بھی بنے گا اور عام عوام کو ایک سستی اور محفوظ سواری بھی میسر آسکے گی اور ان علاقوں کی کاروبای سرگرمیوں میں اضافے کا باعث بھی ہوں گی ۔دوسری جانب ٹرینوں کو پرائیویٹ شعبہ میں دینے سے ان  ٹرینوں کی صفائی اور سفر کا معیار بھی بہتر نظر آرہا ہے  جو لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کر تا جارہاہے ۔

اس حکومتی فیصلے سے امید کی یہ کرن بھی پیدا ہو گئی ہے کہ اس کے بعد اب کئی اور اس طرح کے بند سیکشن بحال ہو جائیں گے جو کرونا وباء اور مختلف وجوہات کی بنا پر بند ہیں اور ریلوے کی اربوں روپے کی پراپرٹی ویران وسنسان پڑی ہے ۔ہم اہل بہاولپور وزیر اعظم اور وفاقی وزیر ریلوے سے دردمندانہ اپیل کرتے ہیں کہ سمہ سٹہ  سے براستہ بغداد ،لال سوہنڑا ،خیر پو ٹامیوالی ،اسرانی ،قائم پور ،حاصل پور ،چشتیاں اور بہاولنگر  کے قیمتی ریلوے ٹریک کو بحال کرکے ان   اسٹیشنز کی ررونقیں بھی بحال کی جائیں ۔سمہ سٹہ جنکشن جو پاکستان کے بڑے جنکشن  میں سے ایک سمجھا جاتاہے ۔اس کی عمارات ،کالونیوں  اور ریلوے اسٹیشن کی ویرانی بھی اب دیکھی نہیں جاتی ۔سمہ سٹہ ریلوۓ اسٹیشن ہمارے پاکستان ریلوۓ کا ایک بڑا قیمتی اثاثہ اور تاریخی ورثہ  بھی ہے ۔پورے پاکستان میں صرف یہ ایک ریلوے سیکشن ہی نہیں کئی دوسرے ریلوۓ سیکشن بھی ضروری توجہ اور فعال ہونے کے منتظر ہیں ۔

لاہور کی سڑکوں پر ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لیے سایکل اور موٹر سایکل سواروں کے لیے ایک الگ راستہ مختص کر دیا گیا ہے ۔سڑکوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوۓ پنجاب سیف سیٹیز اتھارٹی نے  وزیر اعلیٰ پنجاب کے حکم پر لاہور کینال روڈ اور مال روڈ   پر موٹر سایکل  سواروں کے لیے پہلی بائیکرلین کی تعمیر کا منصوبہ شروع کردیا ہے جو تقریبا” دس کلو میٹر کی خوبصورت سبز رنگ سے تیار ہوگی ۔شہریوں کا کہنا ہے کہ اس سبز بائیکر لین کے جدید عالمی تصور سے حادثات میں کمی اور ٹریفک میں بہتری آۓ گی ۔خبر کے مطابق لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے شہر میں مخصوص لین کا پائلٹ  پراجیکٹ شروع کردیا ہے ۔یاد رہے کہ ہیلمٹ کی پابندی کا اطلاق موٹرسایکل سواروں پر پہلے ہی کیا جا چکا ہے ۔موٹر سایکل کی زیادہ سے زیادہ رفتار ساٹھ کلو میٹر تک مقرر کردی گئی ہے ۔جو یقینا” حادثات اور ان سے ہونے والے نقصانات میں کمی لانے کی وجہ بنے گی  اور ساتھ ساتھ شہر کی خوبصورتی میں اضافہ کا باعث بھی بنے گی ۔بائیکر لین  کو رات میں بھی نمائیاں کرنے کے لیے ریفلییکٹر  لگانے کا کام تیزی سے جاری ہے ۔دوسری جانب کراچی کی طرح   لاہور میں  بھی پہلی  مرتبہ جدید الیکٹرک بس سروس کی ابتدا ہو چکی ہے شروع میں ستائیس بسوں سے یہ سلسلہ شروع ہو رہا ہے ان سے روزآنہ بیس ہزار افراد کو عالمی میعار کی سفری سہولیات میسر ہو سکیں گیں ان میں معذور اور ضعیف افراد کے لیے وہیل چیئرز  اور اسپیشل نشتیں بھی فراہم کی گئی ہیں ۔یہ وائی فائی اور کیمروں سے آراستہ سستی اور جدید بسیں شہریوں کو سفری سہولتوں کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی میں کمی کا باعث بھی بنیں گیں۔شہر لاہور میں الیکٹرک بس سروس کا آغاز جدت کہ راہوں پر گامزن پنجاب کی علامت ہے ۔ امید ہے کہ یہ سہولت پورے پنجاب کے بڑے بڑے شہروں   خصوصی بہاولپور کو بھی فراہم کی جاۓ گی۔

نوجوانوں کی تعلیم اور روزگار چند اقدامات بڑی اہمیت کے حامل ہیں جن میں  ‘ہونہار سکالر شپ ” جس کےتحت پنجاب مین  بیس ہزار سکالر شپ  اور ایک لاکھ الیکٹرک بائیکس دینے کا اعلان کیا گیا ہے ۔نوجوانوں کے لیے تین کروڑروپے تک بلا سود قرضے کی فراہمی بھی شامل ہے جسے آسان کاروبار فنانس ا سکیم کا نام دیا گیا ہے ۔اسی طرح زراعت کے شعبہ میں  “کسان کارڈ ” کی تعداد پانچ لاکھ سے بڑھا کر سات لاکھ کردی گئی ہے  ۔کاشتکاروں کو نو ہزار گرین ٹریکٹر  کی فراہمی کا کام جاری ہے ۔ زرعی ٹیوب ویل کی بجلی سے سولر پر منتقلی کے پروگرام کا بھی اعلان کیا گیا ہے ۔محفوط پنجاب پروگرام کے تحت صحت کی سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنایا جارہا ہے ۔ خبریں یہ بھی ہیں کہ پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں سیف سٹی پراجیکٹ فعال ہونے جارہے ہیں ۔بہاولپور اور رحیم یار خان میں تو یہ پراجیکٹ تکمیل کے آخیری مراحل میں داخل  بھی ہو گئے ہیں ۔ان  سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب اور نگرانی سے سڑیٹ کرائم اور ٹریفک  کو کنٹرول کیا جاسکے گا ۔جس کی باعث لوگوں کو روزگار کے بہت سے مواقع بھی ملیں گے  ۔کرکٹ کے شائقین کے لیے پاکستان میں منعقد ہونے والی کرکٹ کی چیمپین ٹرافی  ایک بڑی خوشخبری سے کم نہیں ہے ۔چیمپین ٹرافی جب بہاولپور میں صرف دکھانے کے لیے ہی لائی گئی تو لوگوں کا شوق اور جذبہ قابل دید تھا ۔ چولستان کے صحرا میں منعقد ہونے والی تاریخی ڈیزرٹ جیپ ریلی فروری کے وسط میں ہونے جار ہی ہے جو اس علاقے کی ثقافت  اور تاریخ کو دیکھنے اور سمجھنے کا ایک بہت بڑا ایونٹ ہوتا ہے اور یہاں کی سیاحت اور معیشت کے لیے بھی سود مند ثابت ہوتا ہے ۔ایسی ہی بےشمار اچھی اچھی خبریں ہماری توجہ کی منتظر ہوتی ہیں۔ان تمام اقدامات کا مقصد صوبے اور ملک میں ترقی کے سفر میں پیش رفت کرنا ہوتا ہے ۔تاکہ کسی نہ کسی شکل میں عام آدمی  کی زندگی میں آسانیاں لائی جا سکیں ۔مثبت سوچ  ہی ہماری مایوسیوں کو امید میں بدل سکتی ہیں ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.