عالمی مالیاتی نظام میں ڈالر کے متبادل نئے اقتصادی نظام کی اہمیت

تحریر: محمد ندیم بھٹی,

1

رینمنبی، جو کہ چین کی سرکاری کرنسی ھے، عالمی معاشی نظام کو تبدیل کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتی ھے۔ ہمیں ایک ایسی دنیا میں زندگی گزار نا پڑ رھی ھے جہاں امریکی ڈالر کی اجارہ داری ھے، رینمنبی ترقی پذیر ممالک، خصوصاً پاکستان، کے لیے ایک متبادل معاشی راہ فراہم کرتی ھے۔ پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) سے اربوں ڈالر کے قرضوں جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ھے۔ یہ قرض سخت شرائط کے ساتھ آتے ہیں جو اکثر ملک کی ترقی اور خود مختاری میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ رینمنبی کے ایک مستحکم کرنسی کے طور پر ابھرنے سے، پاکستان جیسے ممالک ڈالر پر اپنا انحصار کم کر سکتے ہیں اور زیادہ خود مختاری حاصل کر سکتے ہیں۔ چین اور رینمنبی کے ساتھ مضبوط تعلقات پاکستان کو بیرونی دباؤ اور پابندیوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں، جو اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
پاکستان کو امریکی پابندیوں کا بھی سامنا ھے، خاص طور پر اس کے جوہری پروگرام کے خلاف، جو ملک کی قومی سلامتی کو مستحکم کرنے کی صلاحیت کو محدود کرتی ہیں۔ یہ اقدامات اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکہ عالمی مالیاتی نظام پر کنٹرول کے ذریعے اپنی طاقت کا استعمال کرتا ھے۔ آئی ایم ایف، جو بڑی حد تک امریکی اثر و رسوخ میں ھے، اپنی مالی امداد کو پالیسیوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ھے۔ تاہم، اگر پاکستان، بھارت اور چین ایک اسٹریٹجک اتحاد قائم کریں، تو عالمی طاقت کا توازن ڈرامائی طور پر تبدیل ہو سکتا ھے۔ رینمنبی اس اتحاد کے لیے ایک بنیادی ستون ثابت ہو سکتی ھے، جس سے ان ممالک کو امریکی ڈالر کے بغیر آزادانہ تجارت کرنے کا موقع ملے گا۔ یہ تبدیلی آئی ایم ایف کے اثر و رسوخ کو کمزور کر سکتی ھے اور پاکستان جیسے ممالک کے لیے ایک زیادہ مساوی مالیاتی ماحول تشکیل دے سکتی ھے۔
چین نے پہلے ہی اپنے “بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو” کے ذریعے رینمنبی کی طاقت کو ظاہر کر دیا ھے، جو دنیا بھر میں تجارتی روابط کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ھے۔ پاکستان، جو اس منصوبے کا ایک اہم شراکت دار ھے، چین کے ساتھ قریبی شراکت داری سے بے حد فوائد حاصل کر سکتا ھے۔ تجارت اور کاروبار میں رینمنبی کا استعمال پاکستان کے زرمبادلہ کے مسائل کو کم کر سکتا ہے اور معاشی استحکام کو فروغ دے سکتا ھے۔ مزید برآں، اگر بھارت، چین اور پاکستان ایک مشترکہ معاشی تعاون کا ماڈل اپنائیں، تو یہ پورے خطے کے لیے بے مثال ترقی کے دروازے کھول سکتا ھے۔ ان تین ممالک کی شراکت داری سے ٹیکنالوجی، بنیادی ڈھانچے اور تجارت کے شعبوں میں زبردست ترقی ممکن ہو سکتی ھے، جو مغربی معیشتوں پر انحصار کو کم کرے گی۔
اس تبدیلی کے اثرات صرف جنوبی ایشیا تک محدود نہیں رہیں گے۔ ایک مضبوط رینمنبی اور کمزور ڈالر پر انحصار عالمی مالیاتی نظام کو دوبارہ ترتیب دے سکتا ھے۔ خاص طور پر ایشیا اور افریقہ کے ممالک خود کو امریکی سیاسی اور اقتصادی دباؤ سے زیادہ آزاد محسوس کریں گے۔ یہ تبدیلی منصفانہ تجارتی اصولوں کو فروغ دے گی اور ترقی پذیر ممالک کے استحصال میں کمی لائے گی۔ اگر پاکستان آئی ایم ایف کے قرضوں اور امریکی پابندیوں سے آزاد ہو جائے، تو وہ اپنی ترقی اور خوشحالی پر توجہ مرکوز کر سکتا ھے۔ چین اور بھارت جیسے اہم شراکت داروں کے ساتھ رینمنبی میں تجارت کرنے کی صلاحیت نئے سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرے گی اور تکنیکی ترقی کو فروغ دے گی، جو عوامی معیارِ زندگی میں نمایاں بہتری لا سکتی ھے۔
اگر رینمنبی عالمی سطح پر نمایاں مقام حاصل کر لے تو اس سے امریکی ڈالر کی اجارہ داری کم ہو جائے گی، جو عالمی طاقت کے ڈھانچے کو بنیادی طور پر تبدیل کر سکتا ھے۔ ترقی پذیر ممالک، جو اکثر غیر منصفانہ تجارتی اصولوں اور سیاسی مداخلت کا شکار ہوتے ہیں، اپنی اقتصادی پالیسیوں پر زیادہ آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے لیے، یہ تبدیلی مالی خودمختاری، بیرونی قرضوں میں کمی، اور بین الاقوامی تعلقات میں مضبوط پوزیشن کا سبب بن سکتی ھے۔ اگر پاکستان رینمنبی کو تجارتی کرنسی کے طور پر اپنائے، تو وہ ڈالر پر مبنی پابندیوں سے بچ سکتا ھے، جس سے اس کی معیشت مستحکم اور مستقبل محفوظ ہو سکتا ھے۔
مزید یہ کہ چین، پاکستان اور بھارت کے درمیان تعاون مغربی ممالک کے ہم پلہ تکنیکی ترقی کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ یہ تینوں ممالک، جو اپنی مخصوص صلاحیتوں میں منفرد ہیں، مشترکہ وسائل اور مہارت کو بروئے کار لا کر اختراعات کو فروغ دے سکتے ہیں۔ مشترکہ منصوبے، جیسے کہ قابلِ تجدید توانائی، مصنوعی ذہانت، اور ڈیجیٹکرنے کی صلاحیت کمزور ہو جائے گی، جس سے پاکستان جیسے ممالک کو زیادہ آزادی حاصل ہوگی کہ وہ اپنے اسٹریٹجک مفادات کو کسی بھی خارجی دباؤ کے بغیر پورا کر سکیں۔ مزید برآں، اگر رینمنبی عالمی تجارت میں اپنا کردار بڑھاتا ھے، تو دیگر ممالک بھی اس نئے مالیاتی نظام کا حصہ بننے کی کوشش کریں گے، جس سے ڈالر اور آئی ایم ایف کے اثر و رسوخ میں مزید کمی آئے گی۔ ایک کثیر قطبی دنیا، جہاں طاقت کا توازن زیادہ منصفانہ طریقے سے تقسیم ھو، عالمی استحکام اور مساوات کو فروغ دے گی۔
میرے شاتھ ایک اھم اکنامک نشست میں مسٹر ارشد انصاری معروف جرنلسٹ لیڈر، قانون دان شکیب عمران، معرو ف ماہر تعلیم برائےخواتین کنئرڈ یونیورسٹی کی سربراہ پروفیسر ارم انجم نے پاکستان کی ترقی کے لئے ایک اجتماعی فیصلے پر انحصار کیا کہ پاکستان کی اس نئے اقتصادی نظام میں شمولیت اس کے داخلی معاشی ڈھانچے کو مضبوط بنا سکتی ھے۔ رینمنبی کے ذریعے ہونے والی سرمایہ کاری اور تجارت روزگار کے مواقع پیدا کرے گی، بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنائے گی اور صنعتی ترقی کو فروغ دے گی۔ اس سے نہ صرف غربت میں کمی آئے گی بلکہ لاکھوں پاکستانیوں کا معیار زندگی بھی بلند ہوگا۔ مزید برآں، ڈالر پر مبنی نظام سے آزاد ہو کر نا صرف پاکستان بلکہ مزید ممالک قلیل مدتی بحرانوں کے بجائے طویل

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.