شگفتہ نعیم ہاشمی زندگی کے احساس سے بھرپور شاعرہ

نقد و نظر : فیصل زمان چشتی

3

زندگی دھند میں لپٹے ہوئے منظر کی طرح
نہ دکھائی ہی پڑی اور نہ اوجھل ہی پڑی

آجکل کے مادہ پرست اور مصنوعی دور میں اگر کوئی صاحب بصیرت اور صاحب احساس شخصیت مل جائے تو یہ کسی نعمت غیر مترقبہ سے ہرگز کم نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر وہ تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال ہو اور شاعر بھی ہو تو یقین مانیے آپ قسمت کے دھنی ہیں۔ شگفتہ نعیم ہاشمی بھی ایسی ہی شخصیات میں سے ایک ہیں جو اس نفسانفسی اور گھٹن زدہ دور میں علم و ادب کی شمع روشن کئے ہوئے ہیں اور کسی صلہ و ستائش کی پرواہ کئے بغیر اپنے علمی و ادبی ارتقائی سفر کو بڑی سرعت اور کامیابی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
آج جہاں ہر طرف شاعری کا چرچا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر منوں اور ٹنوں کے حساب سے شاعری مارکیٹ میں آرہی ہے۔ بلا مقصد ، بےحساب اور بے لگام لکھا جارہا ہے۔ کچھ لوگ تو خیال و فکر کی چوری ( سرقہ ) کو بھی اہمیت نہیں دیتے اور اسے جائز قرار دیتے ہیں مگر کچھ جینوئن اور حقیقی شعراء اس کی نہ صرف مذمت کررہے ہیں بلکہ اس کے خلاف علم جہاد بھی بلند کئے ہوئے ہیں تاکہ مصنوعی لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو اور جینوئن تخلیق کاروں کے آگے بڑھنے کے لیے راستے ہموار کیے جا سکیں۔
ان حالات میں کسی بھی شاعر کا انفرادیت قائم رکھنا اور اپنا اسلوب جداگانہ کرنا واقعتا ” ایک مشکل کام ہے اور اس کٹھن مرحلے میں بھی شگفتہ نعیم ہاشمی خاصی کامیاب نظر آتی ہیں۔ انہوں نے اپنے اسلوب اور لہجے کو منفرد رکھا اور حتی المقدور کوشش کی کہ اپنا جداگانہ تشخص برقرار رکھا جائے اور میرے خیال کے مطابق وہ اس کوشش میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہی ہیں۔
“آبگینے خوابوں کے” ان کے شعری سفر کا دوسرا پڑاو ہے جس میں ان کا تخلیقی شعور اور ادراک اپنے اوج کمال پر نظر آرہا ہے۔ یہ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جو اشاعت کے مراحل میں ہے اس سے پہلے 2018 میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ” حسرتیں ” منصہء شہود پر آچکا ہے۔
شگفتہ نعیم ہاشمی زندگی کی شاعرہ ہیں۔ زندگی اور اس سے جڑے معاملات اور معاشرتی مسائل و اقدار ان کی شاعری کا بنیادی جزو ہیں۔ یہ ادب برائے زندگی کی قائل نظر آتی ہیں اور انسانی احساسات و جذبات کی ترجمان ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار میں زندگی ، زندگی کی بےثباتیاں اور تلخ حقیقتیں چلتی پھرتی نظر آتی ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں سنجیدگی اور متانت اپنے پورے وقار کے ساتھ نظر آتی ہیں کیونکہ یہ معتبر اور موثر لہجے میں بات کرنے کا ہنر اور ڈھنگ جانتی ہیں۔ معاشرے میں ہونے والی بے صابطگیوں ، ناانصافیوں اور بے اعتدالیوں پر ان کا قلم رک نہیں پاتا اور بے اختیار ہوکر حالات کا نوحہ لکھتا ہے غیر مستحکم اور کمزور انسانی رویے بھی ان کی شاعری کو مہمیز عطا کرتے ہیں۔ یہ داخلی معاملات کے ساتھ ساتھ خارجی معاملات اور مسائل پر اپنا قلم اس خوبصورتی ، فنی پختگی اور مہارت کے ساتھ اٹھاتی ہیں کہ اشعار سیدھے دل میں اتر جاتے ہیں ۔

جی بھی لیا ہے جینے کی حسرت بھی رہ گئی
سب جان بھی لیا ہے پہ حیرت بھی رہ گئی

زیست ملبہ ہے ٹوٹے خوابوں کا
بین کرتی ہیں حسرتیں جس پر

“آبگینے خوابوں کے ” شگفتہ نعیم ہاشمی کی قلبی وارداتوں اور احساسات و جذبات کی شکست و ریخت کا چشم دید گواہ ہے۔ انہوں نے اپنے شعری وجدان اور جذباتی مد و جذر کی ہلچل سے اپنے لاشعور میں پیدا ہونے والے فکری بہاو سے ایسے ایسے اشعار تخلیق کیے ہیں کہ بڑی دیر تک قاری اسی کیفیت میں رہتا ہے۔ کچھ اشعار دیکھیے۔

سرے پہ آخری سیڑھی کے سانپ بیٹھا ہے
کوئی چڑھے تو سہی چند زینے خوابوں کے

دیکھ پندار کی قیمت تو چکانا ہوگی
کچھ سزا سر کو اٹھانے کی اٹھانی ہوگی

دیوار اٹھا رکھی ہے ہر شخص نے دل میں
اور ہم ہیں کہ دیوار میں در ڈھونڈ رہے ہیں

یہ اب کی بار چمن میں عجب نظارہ ہے
جلے ہوئے ہیں کئی پھول اور بہار بھی ہے

کہیں تو درد کی زنجیر یا خدا ٹوٹے
کہیں تو ختم ہو یہ سلسلہ عذابوں کا

زندگی کے حقائق اور سماجی رویے بیان کرتے ہوئے بعض اوقات جب ان کا لہجہ قدرے تلخ ہو جاتا تو پھر اس طرح مخاطب ہوتی ہیں۔

باتوں باتوں میں کی وفا ہم سے
خاک چاہت تھی، سب سیاست تھی

ہمارے قتل کو کردیں گے خودکشی ثابت
یہ لوگ سارے شواہد بھی ڈھونڈ لائے ہیں

اس نے سورج کی روشنی لے لی
ہم کو بہلا دیا دکھا کے چراغ

کون اچھا ہو بھلا ایسی مسیحائی کا
درد ہوتا ہے کہیں ہاتھ کہیں رکھتا ہے
شگفتہ نعیم ہاشمی ایک علمی و ادبی خانوادے سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے ان کے گھر کے ماحول میں علم و ادب کی روشنی اور ارد گرد قلم، کتاب ہی نظر آئی اس لیے ہمیں ان کی شاعری میں وہ سنجیدگی اور آگہی ملتی ہے جو عام طور پر مفقود ہوتی ہے۔ ان کی علم و ادب سے قربت ایک فطری عمل تھا اسی لئے انہوں نے شاعری کو اپنے لئے ذریعہ اظہار بنایا جو فنون لطیفہ میں سب سے زیادہ خوبصورت اور موثر ذریعہ اظہار ہے۔
جس طرح ان کی طبیعت اور شخصیت میں کوئی تصنع یا بناوٹ نہیں بالکل اسی طرح ان کی شاعری بھی اوریجنیلٹی، شائستگی ، خوبصورتی اور برجستگی کا حسین امتزاج ہے۔ انہوں نے اپنی قوت متخیلہ اور شعور و ادراک کے خوبصورت سنگم سے اپنی شاعری تخلیق کی ہے ۔ یہ زندگی کے حقائق کو اپنی نظر سے دیکھتی ہیں اور اسی شدت سے انہیں محسوس بھی کرتی ہیں۔ جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ انسانی معاملات اور رویے ان کی قوت خیال اور فکری ریاضت کے کام آئے ۔ انہوں نے معاملات اور معاشرتی مسائل کو جس انداز سے دیکھا ہے اس سے ان کی شاعری میں آفاقیت در آئی اور ان کی شاعری کا کینوس وسیع ہو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.