درخت لگائیں بخت جگائیں

20

منشا قاضی حسب منشا

مغرب کے مشہور ڈرامہ نگار برناڈشاء کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ پھول سے بے پناہ محبت کرتا تھا اس کا ایک دوست جب اس کے گھر گیا تو ڈرائنگ روم میں اسے کہیں کوئی گلدستہ نظر نہ ایا تو اس نے شاء سے پوچھ لیا تو پھول سے محبت کا دعوی کرتا ہے لیکن تیرے گھر میں دیکھ رہا ہوں کہ کہیں بھی کوئی گلدستہ نہیں ہے اس نے جواب a کہ ہاں میں بچوں سے بھی بڑا پیار کرتا ہوں لیکن میں ان کے گلے کاٹ کر مختلف برتنوں میں نہیں سجاتا ۔ مغرب کا دانشور پھول کو توڑتا نہیں اور اج ہم پھولوں کو اپنے پاؤں تلے کچل رہے ہیں پھولوں کی پتیاں اپنے مہمانوں پر نچھاور کرنے کی بجائے اج محترمہ فردوس نثار نے ایک خوبصورت رسم ڈالی ہے کہ اپ نے مہمانوں کو لفظوں کے پھولوں اور عقیدت محبت اور اخوت و رواداری کے جذبات کے ہاروں سے اپنے مہمانوں کا استقبال کیا تو مجھے برنارشاہ یاد اگیا کہ واقعی ہم اپنے مہمانوں پر پھولوں کی جو پتیاں نچھاور کرتے ہیں اس کی بجائے ان کے ساتھ اخلاص و مروت کے تمغات ان کی دل کی دھڑکنوں کے ساتھ دھڑکا دیے جائیں ۔اشیانہ قائد میں اج شجرکاری کے حوالے سے مہمانان گرامی لائین کلب انٹرنیشنل کے کلیدی عہدیدران شیخ محمد ابراہیم ۔ شفیع اللہ خان ۔عمر یوسف پراچہ زون صدر ۔ اشرف بھٹی ۔ سونیا سوری ۔ سیرت ہاشمی۔ عمران حافظ شیخ۔ ڈاکٹر وقار احمد نیاز ۔ سماجی سائنسدان جناب توقیر احمد شریفی ۔ روزنامہ سما اخبار کی سابق مدیر اعلی محترمہ ڈاکٹر عمرانہ مشتاق اور معروف فلم سٹار نشو بیگم تشریف لائیں تو فردوس نثار کھوکھر کی معیت میں میربانوں نے دیدہ ودل فرش راہ کر دیے ۔ ممتاز سیاسی و سماجی شخصیت جناب خالد گل کی موجودگی ماحول میں اسودگی پیدا کر رہی تھی اور اپ کی گفتگو اور شیخ ابراہیم کی جستجو میں میری ارزو جاگ اٹھی ۔ اس موقع پر جواں سال شاعر تفرید احمد مبارک نے شجرکاری کے حوالے سے اپنا تازہ کلام پیش کر کے مہمانوں کو ورطہ ء حیرت میں ڈبو دیا ۔ اور ان اشعار پر خوب داد لی اپ بھی دو شعر ملاحظہ فرمائیں ۔

کچھ اس لیے دیتا ہوں ترغیب شجرکاری کی

گزرا ہے میرا بچپن اشجار کے سائے میں

دل میں میرے یہ ایا تفرید جاؤ جا کر

اب بخت جگاتے ہیں کچھ درخت لگاتے ہیں

محترمہ فردوس نثار نے نقابت کے دوران قران حکیم کی تلاوت کے لیے قاری حمزہ امجد کو سعادت بخشی جنہوں نے اپنے لحن داؤدی سے سامعین کو مسحور کر دیا ۔ انے والے ہر مہمان نے اپنے دست مبارک سے پودے لگائے اور دعا کی کہ یہ پودے تناور درخت بن جائیں ۔ سبب یہی کہہ رہے تھے ۔

کہ

ہم تو جئئیں گے میری جاں تیرے شجر ہونے تک

وہ فرما رہے تھے کہ یہ پودے اشیانہ قائد کے مکینوں کے لیے تسکین کا باعث بنیں گے اور ماحول میں تبدیلی لائیں گے اس وقت دھرتی ماں اپنے سینے پر چلنے والے بیٹوں کی راحت کے لیے سبزہ و گل کی بڑی شدت سے طلبگار ہے ۔ انسان بھی ایک چھوٹی کائنات ہے اگر اس کا توازن بگڑ جائے تو بلڈ پریشر ہائی ہو جاتا ہے شوگر ہو جاتی ہے فالج ہو جاتا ہے حرکت قلب تک بند ہو جاتی ہے دماغ کی شریانیں پھٹنے لگتی ہیں سوچ کا سلسلہ دراز ہو جاتا ہے کیوں ۔ ؟

بے اب کب ہوئی ہے میرے دل کی سرزمیں

انسو رکے تو سوچ کے چشمے ابل پڑے

اس لیے کہ ہم نے عناصر اربعہ کا توازن برقرار نہیں رکھا اب ۔ باد ۔ نار ۔ اور تراب کا توازن انسانی سوچ کو بھی توانا رکھتا ہے کیا خوبصورت کسی شاعر نے کہا ہے

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب

موت کیا ہے انہی اجزاء کا پریشان ہونا

انے والے سارے مہمان ملک و ملت کے محسن اور انے والی نسلوں کے حقیقی رہنما ہیں جو انے والی نسلوں کی اصلوں کی فصلوں کو شاداب کرتے ہیں نہ کہ انے والے انتخابات کے بارے میں سوچتے ہیں محسن دوسروں کے لیے زندہ رہتا ہے شہید دوسروں کے لیے جان دے دیتا ہے اشیانہ قائد میں انے والے تمام مہمان ابشار کی مانند تھے بقول اواز دوست کے مصنف مختار مسعود کے جنہوں نے ایسے ہی جلیل القدر انسانوں کے بارے میں کہا ہے کہ یہ لوگ ابشار کی مانند ہوتے ہیں جو بلندیوں سے یہ کہتی ہوئی نیچے ارہی ہوتی ہے اگر اپ لوگ میری سطح تک بلند نہیں ہو سکتے تو میں خود ہی نیچے اتر کر تمہاری کشت ویراں کو سیراب کرتی ہوں ۔

نہیں نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

دنیا کے بازار میں زندگی کا سب سے قیمتی سکہ مخلص شخص کا ساتھ ہے اور مجھے اپنے دوستوں پہ خاص طور پر راؤ اسلم ۔ نوازش علی خان ۔ لودھی پر ناز ہے کہ وہ ایک ایسے مخلص شخص کا ساتھ دے رہے ہیں جس کی تو اس نگاہ کا یہ اعجاز ہے کہ وہ انسانیت کا خیر خواہ ہے میری مراد ڈاکٹر وقار احمد نیاز کی ذات گرامی سے ہے ۔ ان کا وقت قیمتی اور ان کی خامشی میں بھی مسیحائی کی ادائیں ہویدا تھیں ۔

نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو

ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی استینوں میں

فرماتے ہیں کہ

نکتہ وروں نے ہم کو سمجھایا خاص بنو اور عام رہو

محفل محفل صحبت رکھو دنیا میں گمنام رہو

شیخ محمد ابراہیم کی امد صحرا میں باد صبح گاہی کا خوشگوار جھونکا تھی ۔ ان کے بارے میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ

کس کی امد کی خبر باد صبا لائی ہے

باغ تو باغ صحرا میں بہار ائی ہے

ممتاز ماہر تعلیم شفیع اللہ خان کی موجودگی مسرت و شادمانی کی نوید مسرت تھی ۔ ہمارے سابق ڈی جی پی ار اسلم ڈوگر فرماتے ہیں کہ خوشی میں وقت کو مختصر کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت ہے ۔ جوان سال عمر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.