بِیٹیوں کو بہادر بنائیں

58

تحریر: خالد غورغشتی

آج کے مُوضوع کا آغاز مُحترمہ صاحب زادی بنت زینب کے ناول میری حیا میری سزا کے کچھ الفاظ سے کرنے کی سعادت حاصل کروں گا۔ آپ صفحہ سات پر لکھتی ہیں کہ میں نے یہ موضوع اس لیے مُنتخب کیا کہ سُوشل مِیڈیا پر بحث جاری تھی کہ عورت انمول یا اس کی قِیمت دو ٹکے ہیں۔ ہر کسی نے اپنی اپنی رائے دی۔ عورتوں کی اکثریت نے اِس جملے کی تردید کی۔ مِیرا ماننا بھی یہی ہے کہ عورت ہر حال میں اَنمول ہے۔ جہاں عُورت کا معیار گرتا ہے یا عُورت کی بولی لگتی ہے تو وہاں قصور وار مرد ہوتا ہے نہ کہ عُورت۔ مُحترمہ کا یہ جُملہ تاریخی حِیثیت کا حَامل ہے کہ بِیٹی کو جہیز نہیں وارثت دیں، ان کا مُستقبل محفوظ بنائیں۔

مُحترمہ نے اِس ناول کے ذریعے عورتوں کو جرات اور بہادری سے جِینے کا سلیقہ سِیکھایا، آپ کہتی ہیں کہ ہر جگہ ایک دَار المھد ہو ، جہاں ماں بننے والی عورتوں کی ایسی تربیت ہو کہ جو بچوں کو وحشی اور حیوان بنانے کی بجائے حقیقی انسان بنائیں۔

اِن دنوں خواتین ہاسٹلز میں طالبات کو بلیک میل اور جنسی ہراسگی کے اس قدر واقعات نمودار ہو رہے ہیں کہ لگتا یے میرا جسم مِیری مرضی والے سارے کارندے یہیں سمٹ آئے ہوں ۔

سوشل مِیڈیا کے ذریعے آئے روز سُننے میں آتا رہتا ہے کہ کہیں بچیوں کے ہاسٹلز میں کیمرے لگا کر ویڈیو بنائی جاتی ہیں ، کہیں اُنھیں بلیک میل کیا جاتا ہے، کہیں ان سے زیادتی کر کے ویڈیوز بنا کر ساری عمر ان کا تَعاقب کیا جاتا ہے۔

بچیوں کے ان ہاسٹلز میں سر عام منشیات اور جنسی تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافے کے پیچھے کیا مُحرکات ہے؟ آج ان پر تبصرہ کرنے کی بجائے میں اُن ماؤں سے مخاطب ہوں ، جو بچیوں کو ٹک ٹاک ،یوٹیوب ، اِنسٹاگرام ، فلمیں، ڈرامے اور مختلف عشقیہ رسائل و ڈائجسٹ خود لاکر دیتی ہیں۔

جب بچیوں کی ایسے پراگندہ ماحول میں تربیت ہوتی ہے تو وہ بہادر بننے کی بجائے بزدل بن کر قصے کہانیوں کی طرح مجبور عورت کے روپ میں زندگی گزارنا تو پسند کرتی ہے لیکن کسی ظالم کے گریبان تک نہیں پہنچتی ؛ کیوں کہ اس طرح کی ان کی کہیں تربیت ہی نہیں کی جاتی ہے۔

یاد رکھیں بچیوں کی تربیت میں والدین کا کلیدی کردار ہے ۔ اگر وہ معاشرے کے مظالم کو خود بھی خوف کے مارے سہہ رہے ہیں تو بچے بھی ایسے ہی کریں گے ۔ والدین ہر معاملے میں ہمت کریں ، بُزدلی کو اپنی زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکال دیں۔ حق اور باطل میں خود بھی فرق کریں؛ بچوں کو بھی سیکھائیں۔

بچیوں کو اعمتاد دیں کہ وہ ہر بات گھر میں کر سکیں ۔ ویڈیو لیک ہونا کوئی اتنا بڑا معاملہ نہیں کہ بچیاں ڈر کے مارے ساری عمر درندوں سے بلیک میل ہوتی رہیں ۔ ان کو مضبوط ذہنیت دیجیے؛ تاکہ وہ ہر ظُلم کا بہ زورِ بازو مقابلہ کرسکیں۔ اگر کوئی بَدبَخت ویڈیو لیک بھی کردے تو بچیوں کو مارنے کے بجائے ، اُنھیں مکمل اعتماد میں لے کر اُن درندوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کرنی چاہیے ، جن بَدبَختوں نے یہ ظلم و زیادتی اور جرم کیا۔

خدارا بچیوں کی بزدلانہ ماحول میں تربیت کرنے کی بجائے، اُنھیں جُرات مَندانہ ماحول میں پروان چڑھنے دیں، تاکہ وہ ہر غلط حرکات و سکنات کا جواب اینٹ سے پتھر کی صورت میں دے سکیں۔

بچیوں کو دور صحابیات و اہل بیت رسول کے بہادری کے قصے سنا کر بہادر بنائیں، اُنھیں عشق معشوقی کے قصے کہانیاں سُنا کر بزدل مت بنائیے۔ ورنہ کل آپ بھی ان کے ساتھ ہونے والے مظالم میں برابر کے شریک ہوں گے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.