اختلاف اور ضد کے درمیان مفت مشورہ
تحریر: صفدر علی خاں
اختلاف رائے ہر لحاظ سے ہر جگہ مناسب انداز سے ممکن ہے ،سیاست میں اختلاف رائے کو جمہوریت کا حسن قرار دیا جاتا ہے۔اکثر اپنے ہی گھر میں کبھی کبھار بزرگوں سے نوجوان اختلاف رکھتے ہیں مگر احتراماً بزرگوں کی رائے پر سر تسلیم خم کر دیتے ہیں تاہم اختلاف ہونا کوئی معیوب عمل نہیں،اپنی رائے کا اظہار کرنا ضروری ہونا چاہئے تاکہ کوئی اگر معتبر ہستی غلطی کرے تو اسکی بھی اصلاح ہو جائے۔ایک دوسرے کی رائے کو تحمل سے سننا چاہئے ۔اگر کوئی کم تجربہ کار نوجوان کسی بزرگ کی کوئی خامی دور کرنے کیلئے بھی رائے یا مشورہ دینا چاہے تو انتہائی ادب سے بات کرنا ضروری ہے تاکہ انکی رائے کو اہمیت دی جاسکے اور اس میں کسی قسم کا کوئی تعصب نمایاں نہ ہو ،عجز و انکسار سے ایک دوسرے کو برداشت کرنے سے ہی بہترین معاشرے فروغ پاتے ہیں اور انسانیت کی معراج کا حصول ممکن ہوتا ہے ۔اسلام چونکہ دین فطرت ہے اور یہاں پر ہمیں ہر بات کی رہنمائی ملتی ہے ۔سر دست میں اپنے قارئین کی خدمت میں امام حسن علیہ السلام کے بچپن کا ایک شہرہ ء آفاق تاریخی واقعہ پیش کرنا چاہوں گا ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر تربیت رہنے والے انتہائی کمسن امام حسن علیہ السلام نے جب ایک معتبر اور جید صحابی کو غلط طریقے سے وضو کرتے دیکھا تو وہاں جاکر انکے سامنے انتہائی قرینے سے بولے کہ “میں چونکہ بہت چھوٹا بچہ ہوں میں آپ کے سامنے وضو کرتا ہوں مجھ سے جہاں غلطی ہو آپ ذرا رہنمائی کردیں ،امام حسن علیہ السلام نے وضو کیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیارے صحابی نے برجستہ سب کے سامنے امام حسن علیہ السلام کے وضو کے طریقے کو درست قرار دیتے ہوئے برملا اپنی غلطی کو تسلیم کیا۔جوانی میں امام حسن علیہ السلام نے مسلم امہ کو انتشارسے بچانے کیلئے اقتدار کو ٹھوکر مارکر دنیا کو امن کی سیاست کا راستہ سکھادیا ۔دنیا آج بھی امام حسن علیہ السلام سے سیاست سیکھ رہی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ ہم خود کو مسلمان کہلواتے ہوئے بھی آل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے بہت دور ہوتے جارہے ہیں ۔اقتدار کی قربانی تو بہت بڑی بات ہے یہاں پر تو اب اپنی غلطیوں کا برملا اعتراف کرنے والے معتبر لوگ بھی ناپید ہوگئے ہیں ،ہم نے تو اسی اسلامی فلاحی ریاست پاکستان میں طاقت ،دولت ،اختیار اور شہرت کے خمار میں بدمست لوگوں کو سب کچھ ختم ہو جانے کے باوجود اپنی “خو ” بدلتے نہیں دیکھا۔لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیر کر اچھے ،خاصے معاشی لحاظ سے مستحکم ملک کو مالیاتی بحرانوں کی دلدل میں پھینکنے پر بھی کسی لمحے تکبر ،ضد اور ہٹ دھرمی نہیں چھوڑی ۔اب اس مزاج کے لوگوں کو ہمارے جیسے صحافی بہت برے لگتے ہیں۔اس لئے ہمارے جیسوں کے مفت مشورے وہ سننا ہی گوارا نہیں کرتے ، پاکستان میں حالات آج پھر سیاستدانوں کو اس موڑ پر لے آئے ہیں جہاں سب کو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ملکر آگے بڑھنے کی اشد ضرورت ہے ۔قوم بھی چاہتی ہے کہ اب سیاستدان کوئی غلطی کئے بغیر جمہوریت اور سول سپر میسی کے لئے یکجا ہو جائیں ۔ماضی کی طرح آپس کی لڑائیوں سے ملک وقوم کو نقصان پہنچانے کی روایت کو اب دفن کر دیں ۔ ہمارے سیاستدان کئی مواقع ضائع کر تے رہے ہیں مگر اب انکی لاپروائی کا نتیجہ پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا ۔ نو منتخب حکومت نے مالیاتی بحرانوں سے نکلنے کی خاطر کچھ سخت فیصلے کئے ہیں ۔سیاسی استحکام لانے کی خاطر اداروں کی جانب سے نرمی دکھائی جارہی ہے ۔سیاسی کشیدگی ختم کرنے کیلئے مذاکرات کو ترجیح دی گئی ہے ۔مقبولیت کے زعم میں رہنے والے تاحال صورتحال کی نزاکت کو سمجھتے سے قاصر لگتے ہیں ۔موجودہ حالات کسی بھی ایڈونچر کے متحمل نہیں ہوسکتے۔افراتفری پھیلا کر قوم کو تقسیم کرنے والوں کے ہاتھ کچھ آنے والا نہیں بلکہ مکالمہ سے انکی سابق غلطیوں کا کسی حد تک ازالہ ضرور ممکن ہے مگر یہ بات ہٹ دھرمی کی سیاست کرنے والوں کو سمجھانے والا کوئی نہیں ،سبھی کاسہ لیس حواری جب کسی نامعتبر کو معتبر بنانے پر تلے ہوئے ہوں تو پھر اصلاح کی گنجائش پیدا ہونے کے آثار ہی معدوم ہو جایا کرتے ہیں ۔حالات آج بھی تمام سیاستدانوں کو اپنی غلطیوں کے کفارہ کا موقع فراہم کررہے ہیں ،طاقتور حلقے نرمی دکھانے کے موڈ میں لگتے ہیں۔ یہی موزوں وقت ہے کہ اس پر لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی سابق غلطیوں کا عملاً اعتراف کرتے ہوئے دوسروں کے ساتھ کچھ اپنی ہی مشکلات کم کرنے کی صورت نکالیں ۔ہٹ دھرمی اور ضد نے جس مقام پر اب انہیں لاکھڑا کیا ہے وہاں سے واپسی کا اس سے زیادہ خوبصورت موقع شائد پھر کبھی انہیں میسر نہ آسکے ،کیونکہ ہماری نظر میں یہ نرمی محض ملکی ترقی اور خوشحالی کے لئے سیاسی استحکام لانے کی خاطر کی جارہی ہے ۔بادی النظر میں شہباز شریف کی حکومت کو کسی احتجاج یا دھرنے سے کوئی خطرہ نہیں ۔حالات نئی منتخب مخلوط حکومت کے حق موزوں تر ہورہے ہیں ۔تاہم ہٹ دھرمی اور ضد کی سیاست سے انتشار اور سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگا جو معیشت کیلئے خطرناک ہو گا۔اس وقت پھر ہم یہی مشورہ دیں گے کہ وقت ضائع کئے بغیر ملکی مفاد میں قومی یک جہتی کا مظاہرہ کیا جائے تو حالات خود انکے اپنے حق میں ہوسکتے ہیں۔ہمیں جو امام حسن علیہ السلام سے درس ملا ہے تو اس پر کار بند رہتے ہوئے اچھائی کے راستے اختیار کرنے کا مفت مشورہ تو بہرحال ہم دیتے رہیں گے ،آخر میں خوبصورت شاعر ظہور نظر کا شعر پیش ہے ۔
اڑتے پنچھی، ڈھلتے سائے، جاتے پل اور ہم
بیرن شام کا تھام کے دامن روز بلائیں تمہیں