رزق  تو سانجھا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔

احساس کے انداز تحریر؛۔ جاویدایازخان

4

کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ استاد دامن کا ایک چاہنے والا اُن کے لیے دیسی گھی میں پکے دو پراٹھے لے کر آیا۔ استاد دامن نے پراٹھے ایک طرف رکھے اور اُٹھ کر ایک بڑا سا پیالہ لیا جس میں چینی ڈالی۔ ایک پراٹھے کو توڑا اور پیالے میں ڈھیر ساری چوری بنا لی۔ پھر اُٹھے اور کمرے کے چاروں کونوں میں وہ چوری زمین پر ڈال دی اور واپس بیٹھ کر مہمان کو کہا کہ لو اب یہ ایک پراٹھا مل جل کر کھاتے ہیں  ۔ مہمان پریشانی سے زمین پر گری چوری پر نظریں مرکوز کیے تھا کہ اچانک بڑے بڑے سائز کے بہت سے چوہے کونوں کھدروں سے نکلے اور تیزی سے چوری کھانے لگے۔ مہمان نے حیران ہو کر پوچھا کہ استادمحترم یہ کیا۔ہنس کر جواب دیا چوری ہے اور چوہے کھا رہے ہیں۔ اس میں حیرانی کی کیا بات ہے۔ میرے کمرے کے چاروں طرف دیکھو۔ میری ساری عمر کی کمائی۔ میرا خزانہ میری کتابیں تمہیں ہر طرف نظر آئیں گی۔ چوہے خوش ذائقہ چوری کے عادی ہیں۔ ان کو اب کتابوں کے کاغذوں کا بے مزہ ذائقہ اچھا نہیں لگتا۔ اس لیے چوہوں کو چوری کھلانے کا فائدہ یہ ہے کہ میری کتابیں محفوظ ہیں۔میرا خزانہ محفوظ ہے۔ تم بھی اگر اپنے کسی بھی خزانے کو محفوظ رکھنا چاہتے ہو تو یاد رکھو اردگرد لوگوں کا خیال رکھو۔ انہیں چوری ڈالتے رہو۔ سدا سکھی رہو گے۔ پھر کچھ دیر خاموشی کے بعد استاد نے مہمان سے مخاطب ہو کر پھر کہا ۔ زندگی بھر کے لیے ایک بات یاد رکھ۔ رب العزت زندگی میں جب بھی کبھی تمہیں کچھ دے۔ اُس میں سے کچھ حصہ اپنے اردگرد موجود لوگوں کو ضرور بانٹ دیا کرو ۔ کیونکہ لوگوں کی ہر اُس چیز پرنظر ہوتی ہے جو تمہارے پاس آتی ہے۔ یہ لوگ کوئی اور نہیں تمہارے قریبی عزیز اور اچھے دوست ہیں۔ ان کا خیال رکھنا تمہارا اخلاقی اور مذہبی فریضہ بھی ہے۔

ہمارے ایک دوست کا گھر اسکے زرعی رقبے پر الگ تھلگ ڈیرہ نما بنا ہوا تھا جو بظاہر ویران سی جگہ تھی اور اس علاقے میں چوریاں بہت ہوا کرتی تھیں لیکن وہ ہمیشہ محفوظ رہتے تھے ۔میں نے ان سے پوچھا خان صاحب اس کی کیا وجہ ہے تو فرمانے لگے جب چوروں کو ان کا حصہ مل جاتا ہے تو  وہ چوری نہیں کرتے۔مجھے پتہ ہے کہ اردگرد کے غریب لوگ ہی  مجبورا” یہ چوریاں کرتے ہیں لیکن میں ان پر ہمیشہ مہربان رہتا ہوں اور کچھ نہ کچھ کسی نہ کسی طریقے سے ان تک پہنچا دیتا ہوں تو وہ چوری تو دور کی بات ہے میرۓ گھر کی حفاظت کو بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ہمارۓ اباجی کہتے تھے کہ اپنا رزق دوسرۓ کی چنگیر میں رکھ کر کھاؤ تو زیادہ برکت ہوتی ہے ۔وہ کہا کرتے تھے کہ اگر کسی کے حصے کا رزق بھی تمہیں عطا ہو رہا ہے تو تم اللہ کا شکر ادا کرو کہ وہ تم پر اعتماد کرتا ہےاور تمہیں اپنا نمائندہ مقرر کرتا ہے اور دوسروں تک پہنچانے کی ذمہ داری کا ثواب بھی  تمہیں  دینا چاہتا ہے ۔ ان کے دسترخوان پر ہمیشہ مہمان ہوا کرتا تھا وہ کہتے تھے کہ مہمان اپنا رزق ساتھ لاتا ہے اور جاتے ہوۓ گھر کی بلائیں سمیٹ کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے  اور وہ فرماتے تھے کہ اصل رزق وہ ہے جو قبر میں بھی ساتھ جاۓ اور قبر میں مردے کے ساتھ وہی رزق جاتا ہے جو  تمہارے ہاتھوں سے بٹ جاۓ ۔رزق کی تقسیم صرف مالی معاملہ نہیں ہے  یہ احساسات کی معیشت ہوتی ہے جیسے رات کی خاموشی میں کسی کے لیے دعامانگنا ،کسی کا بوجھ بانٹ لینا ،کسی بچے کو کتاب کا پہلاصفحہ  پڑھانا ،کسی لاچار کو رستہ دکھانا  یہ سب رزق کے حصے ہیں جو بانٹنے سے ہی بڑھتے ہیں ۔یاد رکھیں  کہ چھین کر کھانے والوں کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا جبکہ بانٹ کر کھانے والے کبھی بھوکے نہیں رہتے ۔رزق کا سفر صرف ہاتھوں تک نہیں ہوتا بلکہ دلوں تک ہوتا ہے دل سے نکلے بغیر دی جانے والی کوئی چیز چاہے وہ سونا ہو یا چاندی کبھی دلوں کو سیراب نہیں کرتی ۔اصل رزق وہ ہے جس میں دوسروں کا حصہ شامل ہو  ،جو محروم کی جھولی میں خوشبو کی طرح اترۓ اور آپ کے وجود کو دعاکی روشنی سے منور کردۓ ۔

رزق صرف وہ نہیں جو پلیٹ یا دسترخوان میں رکھا ہے بلکہ وہ بھی رزق ہے جو کسی کی جھولی میں رکھ دیا جاۓ خاموشی سے ،بےنامی کے ساتھ ۔جیسے سورج کی پہلی کرن بغیر آواز کئے پوری دنیا منور کردیتی ہے ۔ہمارۓ رزق میں سے کچھ نہ کچھ ا یسا بھی ضرور لکھا ہوتا ہے  جو ہمارۓ لیے نہٰں ہوتا بلکہ وہ ہمیں بھی کسی اور کی دعاوں کے طفیل ملتا ہے ۔گو ہم اسے اپنی کمائی سمجھتے ہیں ،اپنا مال سمجھتے ہیں ۔مگر سچ تو یہ ہے کہ ہم تو محض ایک وسیلہ ہوتے ہیں  یا پھر دوسروں کا سامان اٹھانے والے قلی  کی مانند ہوتے ہیں ۔اصل مالک وہی ہے جو عطا کرنے والوں کے ہاتھ میں اپنا فیض رکھ دیتا ہے ۔ہم رزق کو صرف روٹی ،تنخواہ یا سکہ سمجھتے ہیں۔مگر رزق دعا ہے جو کسی کے دل سے نکلے اور آسمان چیر کر واپس آپ کے نصیب میں اتر آۓ ۔رزق تو وہ آنسو ہے جو کسی کی آنکھ سے تب ٹپکے جب اسے آپ کے ہاتھ سے راحت نصیب ہو ۔ اللہ زندگی میں بےشمار نعمتوں اور راحتوں سے نوازتا ہے  اور انہی راحتوں میں سے ایک خوشی کا لمحہ کسی  بھوکے کو  کھانا کھلانا ،کسی ننگے کا بدن ڈھانپنا ،کسی پریشان کو سکھ دینا بھی ہوتا ہے ۔آئیں رزق کے خزانوں سے کچھ خواب نکالیں ،کچھ آنکھیں روشن ریں اور کچھ سسکتی سانسوں کو قرار دے جائیں  کیونکہ اصل رزق وہ ہے جو بانٹ دیا جاۓ دل کی مٹی میں دعا  کے بیج  کی صورت میں ۔کسی کا بوسیدہ لباس دیکھ کر اپنا پرانا کوٹ دے دینا کوئی صدقہ نہیںیہ تو صرف احساس ہے ۔ہاں کسی کی خالی آنکھوں میں خواب سجا دینا ،کسی خالی پیٹ میں صرف روٹی نہیں اپنی محبت بھی رکھ دینا ہی اصل دین ہے ۔عربی زبان میں رزق اللہ تعالیٰ کی  ہر عطا کردہ چیز کو کہا جاتا ہے ۔مال ،علم ،طاقت ،وقت ،اناج ،صحت ،اولاد ،دلی اطمینان  ،صلاحیتیں ،قابلیتیں ،سب کچھ رزق میں شامل ہیں غرض ہر وہ چیز جس سے انسان کو کسی نہ کسی رنگ میں فائدہ پہنچتا ہو وہ رزق ہے گویا ہر وہ شے جس پر زندگی کا مدار ہے  یا جس سے انسانی نشونما ہوتی ہے رزق ہی ہوتا ہے ۔ اسی لیے فرمان ربانی ہے کہ ” جو کچھ ہم نے تمہیں سامان زیست میں سے عطا کیا اس سب کو کھلا رکھو ”

رزق تو سانجھا ہوتا ہے تو آئیں اپنے دلوں میں نرم گوشے پیدا کریں ،اپنے ہاتھوں کو وسیلہ بنائیں اور رزق کے انمول موتیوں کو صرف سمیٹنے کا نہیں بلکہ بانٹنے کا ہنر خود بھی سیکھیں اور بچوں کو بھی یہی تربیت دیں ۔کیونکہ جو بانٹتا ہے وہی اصل وارث بنتا ہے جو دیتا ہے وہی ہمیشہ پاتا  ہے ۔کبھی کبھی ایک لقمہ ،ایک نوالہ ،ایک چادر ،ایک مسکراہٹ کسی کی پوری دنیا بن جاتی ہے ۔اور وہ لمحہ جب آپ کا دل کسی کے درد پر اچانک دھڑک اٹھتا ہے وہی لمحہ ہے جب آپ انسان کہلانے کے حق دار بن جاتے ہیں ۔آ ئیں ! اپنے رزق سے ہی   نہیں بلکہ اپنے دل کا ایک کونہ ،محبت کا ایک کونہ ،دوسروں کے نام کرتے ہیں کیونکہ اصل رزق وہی ہے جو دوسروں کی زندگیوں میں روشنی بن کر چمکتا دکھائی دےٌ ۔کیونکہ رزق تو سانجھا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.