کردار کی خوشبو اور خدمات کا اعتراف

20

منشا قاضی
حسب منشا

اپنے لیے تو ہر کوئی جیتا ہے بلکہ جی رہا ہے اس کو جینا نہیں کہتے یہ ہم گھڑیاں گزار رہے ہیں اور گرگس کی عمر بسر کر رہے ہیں شاہین زندگی گزارتا ہے اور گرگس عمر گزارتا ہے دونوں کا جہاں ایک ہی ہے دونوں کی پرواز میں ارض و سماء کا فرق ہے حالانکہ دونوں ایک ہی جہان میں زندہ ہیں ۔ شاہین مقام رفیع پر فائز ہے اور گرگس کے سامنے ذلت کا مقام ہے وہ لوگ جن کی پرواز میں کوتاہی پائی جاتی ہے وہ گرگس کے ہم نشین ہیں اور جن کی پرواز کے سامنے ہمالہ بھی ڈھیر ہے وہ شاہین ہیں ۔ شاہین زندگی بسر کرتا ہے اور گرگس عمر گزارتا ہے زندگی دوسروں کے لیے اور عمر اپنی ذات کے لیے ہوتی ہے زندگی جاگ کر اور عمر سو کر گزر جاتی ہے عمر پر زندگی کو اس لیے فضیلت اور فوقیت حاصل ہے کہ یہ اپنے لیے نہیں دوسروں کے لیے جینا سکھاتی ہے اور اج حالات کی سنگینی کو جو لوگ اپنے حسن عمل سے رنگینی ء بہار میں بدل رہے ہیں ان ہی میں ایک خوش مزاج ادمی ہمارے درمیان موجود ہیں جو ٹوٹے ہوئے دلوں کی دوا ہیں اور اتنے خوش مزاج انسان اس گئے گزرے دور میں اپ چراغ رخ زیبا لے کر ڈھونڈنے نکلو گے نہ پا سکو گے میری مراد محترم القام جناب جاوید نواز کی ذات گرامی سے ہے ۔ جن کی ادھی زندگی سلطنت عمان میں اور ادھی پاکستان میں گزری ہے وہ خوبصورت عادتوں کے ایک دل فریب انسان ہیں اپ کے دل میں ہمدردی کے جذبات بدرجہ اتم موجود ہیں اور اپ جانتے ہیں کہ ہمدردی ایک ایسی طلائی کلید ہے جو دوسروں کے دلوں میں چاہت کے دروازے کھول دیتی ہے ۔ جاوید نواز صاحب کا مجھے ٹیلی فون ایا کہ ہم نے کل پتوکی ایک سکول میں جانا ہے تو اپ میرے پاس پورے 10 بجے صبح پہنچ جائیں ۔ میں ساری رات 10 بجے کے انتظار میں جاگتا رہا ۔ جب انکھ لگی تو نواز صاحب کا ٹیلی فون ا رہا تھا اور میں ان سے کہہ رہا تھا کہ کیا پروگرام ہے اپ نے پتوکی جانا ہے ۔ تو وہ کہہ رہے تھے اپ کو معلوم ہے کہ اپ نے 10 بجے پہنچنا تھا تو میں اپنے بیٹے حمزہ قاضی کے تعاون سے ایک گھنٹہ تاخیر سے پورے 11 بجے اڈا سٹاپ کے راؤنڈ اباؤٹ پٹرول پمپ پر جہاں ہمارا انتظار ہو رہا تھا پہنچ گیا اور ہم پتوکی جانب روانہ ہو گئے جاوید نواز صاحب کی شریک حیات اس سفر میں شریک سفر تھیں اور وہ جدید عہد کے مواصلاتی ویپن کے ذریعے جاوید نواز کی رہنمائی فرما رہی تھیں اور میں نے پہلی ببر جاوید نواز صاحب کی کامیابی کو طشت از بام ہوتے اپنی انکھوں سے دیکھا اور واقعی وہ سچ کہتے ہیں کہ

میرا کمال میرا ہنر پوچھتے ہیں لوگ

ایک با کمال خاتون میری دسترس میں ہے

ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم اپنی منزل مراد پر پہنچ چکے تھے گورنمنٹ ہائی سکول سہجو وال چیک 11 کے سربراہ غلام یاسین عابد کی دورس نگاہ کا یہ اعجاز تھا کہ وہ دور تک جاوید نواز کی راہ تک رہے تھے ملک محمد طفیل قادری ۔ حاجی محمد صاحب نمبردار ۔ حافظ محمد حسین۔ ماسٹر عارف حسین اور محمد کاشف سکول کی چار دیواری سے باہر اگئے اور اپ نے ہاتھوں میں تلائی ہر پکڑے ہوئے تھے اور وہ گنگنا رہے تھے کہ

امد جو سنی ان کی اللہ رے انتظار

انکھیں بچھا دی ہم نے جہاں تک نظر گئی

ان سے مل کر زندگی سے پیار ہو گیا اور یہ حقیقت ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا وجود کسی بھی معاشرے میں ایک روشن چراغ کی حیثیت رکھتا ہے ان کو جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے ان کے بارے میں بے خوف و خطر یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے

جن سے مل کر زندگی سے پیار ہو جائے وہ لوگ

اپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

منافقت ۔ ریاکاری جھوٹ اور فریب کے تپتے ہوئے صحرا میں جلھسنے والوں کے لیے میرا ایک مشورہ ہے کہ وہ پتوکی پاکیزہ فضا میں جا کر باد صبح گاہی کے خوشگوار جھونکوں اور تازہ اکسیجن اپنے پھیپھڑوں میں بھر لیں تو وہ اپنی زندگی میں طوالت پیدا کر سکتے ہیں ۔ حافظ محمد حسین مشرقی علوم اور نباتاتی فنون کے سائنس دان ہیں ۔ وہ جہاں ہماری انے والی نسلوں کی اصلوں کی فصلوں کو شاداب کرتے ہیں وہاں وہ پودوں کی بھی تربیت کرتے ہیں ۔ مغرب کا معروف ڈرامہ نگار برناڈشاء کے بارے میں معروف ہے کہ وہ پھول سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔ اس کا کوئی دوست اس کے گھر گیا تو وہ اس کے ڈرائنگ روم میں دیکھ رہا تھا کہ کہیں بھی گلدستہ موجود نہیں ہے اور وہ برناڈشاء سے پوچھنے پر مجبور ہوگیا کہ تو زبانی کلامی پھول سے محبت کرتا ہے تیرے ڈرئینگ روم میں مجھے کہیں بھی گلدستہ نظر نہیں ارہا ۔ اس نے کہا اپ درست فرما رہے ہیں ۔ میں بچوں سے بھی بڑا پیار کرتا ہوں لیکن میں ان کے گلے کاٹ کر مختلف برتنوں میں نہیں سجاتا پھول جہاں شاخ پر لگا ہوا ہے میں اس سے محبت کرتا ہوں اور اج جب جاوید نواز صاحب وہاں تشریف لائے تو ان کے گلے میں پھولوں کے نہیں چمکدار طلائی ہار پہنائے گئے جس سے معلوم ہوا کہ یہاں اساتذہ کرام پھولوں سے بھی اور بچوں سے بھی پیار کرتے ہیں میں نے مستقبل کے معماروں کو دیکھا جن کے انکھوں میں ذہانت اور فطانت کے دیپ جل رہے تھے ۔ ملک محمد طفیل قادری خیر اور بھلائی کے کاموں میں ہمیشہ سبقت لے جاتے ہیں ان کا وجود سکول اور ماحول کی پاکیزگی میں جزو اعظم کا کردار ادا کر رہا ہے حاجی محمد صابر نمبردار کا وقار اور افتخار مسلم ہے اور وہ اس سکول کے سرپرست اعلی ہیں اور نمبرداروں کے بارے میں جو لوگوں کا تاثر ہے وہ اج میں نے حاجی محمد صابر کو دیکھ کر زائل کر دیا ہے ۔ حاجی محمد صابر کے انکسار میں افتخار تلاش کیا اور ماسٹر عارف حسین کا عارفانہ انداز دل میں سما گیا ۔ محمد کاشف کی شخصیت میرے ائینہ ء ادراک پر رنگ و نور کی طرح رقصاں تھی ۔ کردار کی خوشبو چار وانگ عالم میں یوں ہی نہیں پھیل جاتی اس کے عقب میں خدمات کا کو ہمالہ موجود ہوتا ہے تب جا کر اعتراف کرنا پڑتا ہے ۔ حافظ محمد حسین نے اپنی زندگی پودوں کی تربیت اور بچوں کی اخلاقی قدروں کی پاسداری کے لیے وقفہ کر دی ہے ۔

خاک گلشن سے نکل کر گل نے ثابت کر دیا

خاک میں ملنے سے پہلے زندگی ملتی نہیں

اس کیفیت میں ہم نے حافظ صاحب کو دیکھا اور یقین جانیے ایسے لوگ چراغ رخ زیبا لے کر اپ پورے پاکستان میں ڈھونڈنے نکلو گے نہ پا سکو گے یہ عزت یہ توقیر اپ نے خیرات میں وصول نہیں کی ہے اس کے عقب میں ان کی بڑی ریاضت ہے

اس قدر گوندھنا پڑتی ہے لہو سے مٹی

ہاتھ گھل جاتے ہیں تب کوزہ گری اتی ہے

گورنمنٹ ہائی سکول سہجوال چک 11 کے سربراہ جناب غلام یاسین عابد اور ان کے تمام رفقائے علم و ہنر نے جاوید نواز اور ان کی بیگم صاحبہ کو ارادت و عقیدت کے چراغوں کی روشنی کی لو میں جس طرح خیر مقدم کیا تھا اس سے کئی گناہ زیادہ انہوں نے محبت اخوت اور رواداری کے جذبات سے الوداع کہا اور راستے میں جاوید نواز سے باتیں ہوتی رہیں اور گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ تھوڑی دیر کے لیے سکوت طاری ہوا تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ جاوید نواز صاحب گاڑی چلا رہے ہیں اور ان کی انکھیں بند ہو رہی ہیں سو رہے ہیں اور میں نے انہیں جگایا ۔ میں نے انہیں مشورہ بھی دیا کہ اپ ڈرائیور کو زیادہ چھٹیاں نہ دیں اسے اپنے ساتھ رکھا کریں اپ بہت قیمتی انسان ہیں ایسے جن کی مثال نہیں ملتی مختار مسعود نے ایسے جلیل القدر انسانوں کے بارے میں کہا تھا کہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ابشار کی مانند ہوتے ہیں جو بلندیوں سے یہ کہتی ہوئی نیچے ارہی ہوتی ہے کہ اگر اپ لوگ میری سطح تک بلند نہیں ہو سکتے تو میں خود ہی نیچے اتر کر تمہاری کشت ویراں کو سیراب کرتی ہوں ۔

رکے تو چاند چلے تو ہواؤں جیسا ہے

یہ شخص دھوپ میں چھاؤں جیسا ہے

بیگم جاوید نواز کے کارناموں اور ان کی خدمات کے اعتراف کے لیے ایک الگ کالم لکھا جا رہا ہے ۔ عربی زبان میں افتاب مونث ہے اور مہتاب مذکر ہے اس لیے تذکیر و تانیث کو کوئی امتیاز حاصل نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس کا کام بولتا ہے بیگم جاوید نواز کا کام بولتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان کی دورس نگاہ ان بچوں کے تاب ناک مستقبل کی منزل کی تلاش میں ہے ۔ نواز صاحب ان کے بارے میں کہتے ہیں اسی طرح محترمہ بیگم نواز بھی جاوید نواز کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے وہی الفاظ کہتی ہیں کہ

میرا کمال میرا ہنر پوچھتے ہیں لوگ

ایک باکمال شخص میری دسترس میں ہے

جاری ہے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.