علم کی گونگی گواہی

تحریر: ڈاکٹر عمرانہ مشتاق

3

جب علم ظلم پر خاموش رہے، تو وہ صرف گواہی نہیں دیتا، جرم میں شریک ہو جاتا ہے۔ گونگی گواہی دراصل سچ کا انکار ہے، اور انکار کا انجام تاریخ کی عدالت میں رسوائی ہے۔

عصرِ حاضر کا سب سے بڑا تضاد یہ ہے کہ علم جتنا پھیلا، ضمیر اتنا ہی محدود ہوتا گیا۔ انسان نے ایٹمی ہتھیار بنا لیے، مریخ پر قدم رکھ دیا، مگر مظلوم کی چیخ سنتے ہی بہرہ بن جاتا ہے۔ غزہ کی سرزمین آج کی دنیا کی وہ جیتی جاگتی قبرستان بن چکی ہے جہاں ہر لمحے انسانی حقوق دفن ہوتے ہیں، اور دنیا کی نامور جامعات اُس اجتماعی تدفین پر محض خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں۔

یہ خاموشی صرف خوف کی پیداوار نہیں، بلکہ مصلحت، منافقت اور مفادات کی چادر میں لپٹی ہوئی وہ بےحسی ہے جس نے علمی اداروں کو محض کاروباری مراکز بنا دیا ہے۔ یونیورسٹیاں اب ضمیر کا نہیں، سرٹیفکیٹ کا سودا کرتی ہیں۔ نصاب سے لے کر تحقیق تک، سب کچھ ان قوتوں کی مرضی سے مشروط ہے جو طاقتور ہیں، اور طاقتور آج اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔

یہ امر ناقابلِ انکار ہے کہ دنیا کی معروف جامعات — ہارورڈ، ییل، کیمبرج، آکسفورڈ — جو انسانی حقوق، فکری آزادی، اور عالمی امن کی تربیت دیتی رہی ہیں، وہ آج خاموش تماشائی کیوں بن گئی ہیں کیا ان کی عمارتیں صرف اشرافیہ کے مفادات کی ترجمانی کے لیے بنائی گئی تھیں؟ کیا ان کے تعلیمی اصول اتنے کمزور تھے کہ ایک ظالم ریاست کے خلاف بولنے سے خوفزدہ ہو گئے.

پھر جب چند باہمت طلبہ نے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کی، تو ان کے خلاف ریاستی طاقت استعمال کی گئی۔ امریکا، جو خود کو آزادی کا عَلَم بردار کہتا ہے، وہاں طلبہ کو گرفتار کیا گیا، ان کے خیمے اکھاڑ دیے گئے، اور ان پر مقدمات قائم کیے گئے۔ ان کی “فری اسپِیچ” صرف اسرائیل کی حمایت تک آزاد ہے، مظلوم فلسطینیوں کی حمایت پر نہیں۔ یہ منافقت علم کی نہیں، سامراجی استعمار کی علامت ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ مسلم دنیا کی جامعات کہاں کھڑی ہیں؟ پاکستان، مصر، ترکی، ایران، ملیشیا—ان سب کے تعلیمی ادارے، جن کے پاس لاکھوں نوجوان موجود ہیں، کیوں خاموش ہیں کیا ہمارے طلبہ صرف نوکریوں کے لیے پڑھ رہے ہیں .کیا انہیں اس مظلوم ملت کے درد سے کوئی واسطہ نہیں رہا؟ کیا ہمارے اساتذہ اب صرف حاضری، تھیسس اور فیکلٹی رینکنگ تک محدود ہو چکے ہیں.

یہ وقت ہے کہ جامعات خود سے سوال کریں:
اگر ہم مظلوم کے ساتھ نہیں تو ہم تعلیم یافتہ کیسے.
اگر ہم ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے تو ہماری علمی حیثیت کیا ہے؟
اگر ہماری تحقیق، ہماری تقریریں، ہماری نشستیں مظلوموں کے لیے نہیں تو وہ کن کے لیے ہیں.

یہی وہ لمحہ ہے جب ایک تعلیمی ادارے کی اصل شناخت بنتی ہے — وہ لمحہ جب وہ یا تو تاریخ کے کٹہرے میں مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، یا تماشائی بن کر مجرم بن جاتا ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اداروں، طلبہ یونینز، علمی حلقوں، سیمینارز اور تحقیقاتی مراکز کو ایک نئی فکری تحریک دیں۔ فلسطین کوئی مذہبی یا علاقائی مسئلہ نہیں، بلکہ انسانیت کا مقدمہ ہے۔ اگر آج ہم نے فلسطین پر بولنا چھوڑ دیا، تو کل جب ظلم ہمارے دروازے پر دستک دے گا، کوئی بولنے والا نہ ہوگا۔

خاموشی صرف گناہ نہیں، جرم بھی بن سکتی ہے—اگر وہ مظلوم کی فریاد کے وقت اختیار کی جائے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.