پیکا پہلوان ،صحافی اور سوشل میڈیا۔۔۔۔۔

جمع تفریق۔۔ ناصر نقوی

0

ایک زمانہ تھا جب صحافی اور لکھاری قلم کے مزدور کہلاتے تھے پھر حالات بدلے، انداز بدلے اور مفادات کی کہانی نے زور پکڑا تو شعبہ صحافت سے ایڈیٹر غائب ہو گیا ،مالکان اور سرمایہ داروں نے پیشہ ور ایڈیٹر کی جگہ اپنے بھائی بیٹوں کو اس ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا دیا، ایسے میں حقیقی صحافی مزدوری کرتا رہ گیا اور اپنے لاڈلے موج میلہ ،تا ہم کچھ ادارے آ ٹے میں نمک برابر یعنی گنتی کے ایسے بھی تھے جنہوں نے نہ صرف پیشہ ور ایڈ یٹروں کی ضرورت محسوس کی بلکہ انہوں نے ان کی رائے کو بھی ہمیشہ مقدم رکھا، اس زمانے میں صحافیوں کی تنظیمیں فیڈرل یونین آ ف جرنلسٹس، پنجاب یونین آ ف جرنلسٹس، خیبر یونین آ ف جرنلنٹس، کراچی یونین آ ف جرنلسٹس، اور بلوچستان یونین آ ف جرنلسٹس اور ان کی بنیادی تنظیم،، ایپنک،، انتہائی فعال ہوا کرتی تھی، ان کی مرکزی قیادت معراج برنا، نثار عثمانی، آ ئی۔ ایچ راشد، شیخ عبدالقدوس اور دیگر ہوا کرتی تھی پھر دائیں اور بائیں بازو کی سوچ ابھری اور ان کے مد مقابل فیڈرل یونین آ ف جرنلنسٹس، (دستور) اوے جس میں سعود ساحر، نواز رضا خواجہ فرخ سعید،سعید آ سی، نصراللہ غلزئی اور دیگر فعال ہوئے بلکہ موجودہ حالات میں یہ گروپ زیادہ مضبوط ہے برنا گروپ کے مقابلے میں، حالانکہ برنا گروپ عوامی اور آ مرانہ دور میں بھی اہم کردار ادا کیا کرتا تھا اسی گروپ کے ناصر زیدی، خاور نعیم ھاشمی، اقبال جعفری اور مسعود اللہ خاں کو صدر ضیاء الحق کے دور میں کوڑے بھی پڑے تھے، یہ بڑا گروپ تھا اور اس کی آ زادی اظہار، انسانی حقوق ، جمہوریت اور میدان صحافت کے لیے بڑی قابل قدر خدمات تھیں لیکن صدر ضیاء الحق کے دور میں ان کے دست راز رشید صدیقی اور نسیم عثمانی کا طوطی بولتا رہا یہ قیادت 12 سالہ دور میں,, موج مستی,, کرتی رہی کیونکہ نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات کے مالک صدر ضیاء الحق اپنے آ پ کو سمجھا کرتے تھے اور نامور اخبار نویس ضیاء الاسلام انصاری، زیڈ۔اے سلہری، رشید صدیقی، مولوی اشفاق، مصطفی صادق، الطاف حسن قریشی ان کے ہمنوا تھے، اسی لیے ضیا الاسلام انصاری کی سفارش پر مصطفی صادق کو وفاقی وزیر بھی بنایا گیا لیکن ضیاءالالسلام انصاری نے،، نیشنل پریس ٹرسٹ،، کی چیئرمینی قبول کر لی تھی اس دور میں برنا گروپ زیر عتاب رہا، ایسے میں لاہور پریس کلب بھی سفری تھا کبھی کہیں کبھی کہیں لیکن اس میں حسین نقی، جواد نظیر اور سعید آ سی نے انتہائی دلیری اور بہادری سے آ مریت کے خلاف اپنا کردار ادا کیا بلکہ ایک نام عزیز مظہر صاحب کا بھی تھا حالانکہ اصل ،،پریس کلب دیال سنگھ منشن مال روڈ رشید صدیقی گروپ کے قبضے میں تھا جہاں معروف براڈکاسٹر اور نیوز ریڈر سہیل ظفر صدر اور تسنیم تصور سیکرٹری بھی رہے، اس دور کے آ خری تاجدار ظفیر ندوی اور آ فتاب ربانی مزدور لیڈر تھے،جن سے1989 میں الیکشن جیت کر زبردستی قبضہ واپس راقم نے لیا تھا ان تاریخی حقائق بتانے کا مطلب یہ ہے کہ ہر دور میں برنا گروپ ہو کہ دستوری صحافیوں کے لیے توانا آ واز تھے دونوں اختلاف رکھنے کی بجائے اجتماعی مفادات میں اپنے اپنے انداز میں کام کرتے رہے پھر حالات بدلے، قائدین ایک ایک کر کے نظام قدرت و حکم خداوندی میں جہان فانی کو چھوڑ گئے عبدالحمید چھاپڑا ،پرویز شوکت، ہما علی جیسی شخصیات نئے قیادت بن گئی اور رفتہ رفتہ بڑا گروپ تنزلی کا شکار ہوا اس انتشار میں گروپ تین مختلف حصوں میں موجود ہے اور سب کے سب برنا گروپ ہونے کے دعویدار ہیں جبکہ دستور گروپ اپنی جگہ کچھوے کی چال میں زندہ و سلامت ہے تاہم زبردستی کے صدر پرویز مشرف کے دور میں الیکٹرانک میڈیا کی پنیری لگائی گئی جو خوب پھولی پھلی اور بات اس سے آ گے چلی گئی تو ،،سوشل میڈیا بریگیڈ،، نے جنم لے لیا اب ہر دوسرا شخص نہ صرف صحافی ہے بلکہ سینیئر معروف صحافی ہے کیونکہ پچھلا روایات اور مشن بطور صحافت کرنے والا دور لد گیا ،ہر نجی اور سرکاری،، یونیورسٹی ماس کمیونیکیشن،، کے فارغ التحصیل طلباء و طالبات کی کھیپ میدان میں اتار رہی ہے اور یہی نہیں الیکٹرانک میڈیا پر مختلف کاروباری شخصیات کا قبضہ مستقل بنیادوں پر مکمل ہو چکا ہے پرانے تجربہ کاروں کے لیے دروازے بند اور خوش شکلی، خوش لباسی میرٹ بن چکا ہے، اسی لیے مملکت کا چوتھا ستون ہر انداز میں نظر انداز کیا جا رہا ہے تنظیمی لیڈر بھی اپنی اپنی دکان پر مطمئن اور خوش ہیں، پرائیویٹ اداروں کے مالکان اپنی قوت اور کوشش سے نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات کو دفنا چکے ہیں یوسف رضا گیلالی نے وزارت عظمی سنبھالتے ہی لیبر یونین اور طلباء یونین کی بحالی کا اعلان کیا تھا جس پر آ ج تک عمل در آ مد نہیں کیا جا سکا لہذا عمرانی دور میں صحافت اور صحافیوں کو،، نتھ،، ڈالنے کے لیے ،،پیکا ایکٹ،، بنایا گیا اس وقت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اسے آ زادی رائے کے خلاف کالا قانون قرار دیا تھا لیکن حالات کا جبر اور المیہ یہ ہے کہ آ ج انہی دونوں بڑی پارٹیوں نے ترامیم کے ساتھ ا سے اور طاقتور کر کے،، پیکا پہلوان،، بنا دیا ہے تمام صحافتی اور اخباری مالکان کی تنظیمیں،، خیبر تک کراچی،، سراپا احتجاج ہیں لیکن قانون بن چکا ہے اب لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں، حکومت مختلف یقین دہانیوں کے باوجود صحافیوں اور تنظیموں سے مشاورت کرنے کو تیار نہیں، ایک ادھ صحافی کو سرکاری کمیٹیوں میں شامل کر کے کام چلانے کی فکر میں ہے اس لیے ضروری یہ ہے کہ ٹکڑیوں میں بٹی تنظیمیں اور ان کے رہنماؤں کو فوری طور پر ماضی کی پوزیشن میں آ نے کے لیے متحد ہونا پڑے گا ورنہ حکمرانوں کے لیے یہ تقسیم انتہائی خوش آئند ہے، میں نے انتہائی محتاط انداز میں اپنی برادری کی رسوائی کہانی سنائی ہے کیونکہ افسوس اور اس بے حسی کی حالت میں آ ئینہ دکھا دیا تو بہت سے دوست برا مان جائیں گے
،،

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.