تحریرمیں پختگی اورروانی یہ دوعناصرہیں جس کی وجہ سے کوئی تخلیق کار اپنے قارئین بناتا ہے ۔پختگی ریاضت سے آتی ہے یاخداداد ہوتی ہے ۔اگرخداداد ہوتو پھر تخلیق کار پر یقینارب کی مہربانی ہے۔ شاعری اچھے مصرعے اورنثراچھے جملے کی محتاج ہوتی ہے ۔ہمارے اردگرد جو بھی ہورہا ہو اُسے لاکھوں نہیں کروڑوں نہیں بل کہ اربوں آنکھیں دیکھتی ہیں ۔ایک جیسے واقعہ پر ہر ایک کی اپنی الگ الگ رائے ہوتی ہے ۔ایک ہی موضوع پر لکھی گئی تحریریں بھی مختلف ہوسکتی ہیں ۔دیکھنے کے لیے تو صرف آنکھ چاہیے لیکن لکھنے کے لیے ہاتھ کافی نہیں ہے ،جو دیکھا گیا وہ حقیقت تھا ،اب جو لکھا جانا ہے اُس میں کتنی حقیقت اورکتنا افسانہ ، یہ توتحریر کرنے والے پر منحصر ہے ۔ لیکن ترقی پسند تو صرف حقیقت ہی لکھتا ہے ۔
تخلیقی عمل کسی کیفیت کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا ،کیفیت جب راہنما ہوجاتی ہے تو پھر قلم خودبخود چلتا ہے ۔خوش نصیب ہیں وہ لکھنے والے جنہیں کیفیت سے خوشی یااضطراب میسر آتا ہے ۔کیفیت ہی اسلوب بناتی ہے ۔ایک قدم کے بعددوسرا قدم بہت اہم ہوتا ہے۔وگرنہ سفررُک جاتا ہے ، کیفیت سفرکہاں رُکنے دیتی ہے ۔ وہ منزل تک پہنچا کرہی رہتی ہے کیوں کہ وہی توراہنما ہے ۔
خواجہ آفتاب حسن کی ”خالی سڑک”بھی کسی کیفیت میں رہ کرلکھے گئے افسانوں کامجموعہ ہے ۔ ماہ رُخ کے نام ہی کیوں ۔۔۔سے لے کر ”سموگ“تک کوئی صفحہ اُٹھا لیں آپ کو پختگی بھی نظر آئے گی اورروانی بھی ۔۔ٹھراﺅ کہیں نہیں آئے گا ۔خوبصورت منظرنگاری ہویاکردارنگاری ،پل پل بدلتے حالات وواقعات ان کی تحریر کی بڑی خوبیاں ہیں۔
اصل میںانتساب اتنا مضبوط ہے کہ وہ خواجہ آفتاب حسن کی تمام شخصیت کی عکاسی کرتا نظرآتا ہے ۔ ایک کامیاب انسان ،یعنی اپنے کام میں کامیاب انسان وہی ہوتا ہے جو سمجھے اورسمجھ کرسیکھے ،شعور سمجھداری کی خوبصورت شکل ہے ۔ادبی شعورتخلیق کار کی دولت ہے اورخواجہ آفتاب حسن اس دولت سے مالا مال ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ افسانہ معاشرے کوگہری آنکھ سے دیکھ کرلکھنے کی روایت کا نام ہے ۔ کہانیاں ہمارے ارد گرد موجود ہوتی ہیں ۔ خواجہ آفتاب حسن محفل پسند انسان ہیں ، انہیں لوگوں میں بیٹھنا اچھا لگتا ہے ۔کسی کی زبان پر کوئی کہانی ہوتی ہے توکوئی اپنے خاموش چہرے پر کہانی لیے پھرتا ہے ۔ خواجہ صاحب کے کان بھی بڑے چوکس ہیں اوراُن کی نظر بھی بہت تیز ہے اوریہ اپنی ان خوبیوں سے بہت سے کام لے لیتے ہیں۔
جب تک تحریر میں ادبی رنگ نہیں ہوگا وہ تحریر پُر تاثیر نہیں ہوسکتی ۔” خالی سڑک“ کے افسانے ”خالی سڑک “ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہوجس میں آپ کو اُن کی تحریر کاایک خوبصورت انگ نظرآئے گا” میری زندگی میں دوسروں کی کبھی کوئی اہمیت نہیں رہی ،اچھی نوکری ،عمدہ گاڑی اورکسی کی مداخلت کے بغیر اپنی مرضی کی زندگی ،میرے لیے یہی سب کچھ اہم رہا۔مگرآج میں ایک ایسی خالی سڑک پرکھڑا تھا کہ جس نے میرے اندر کے خالی پن کو میرے منہ پر دے مارا تھا اوریہ احساس میرے لیے کسی صدمے سے کم نہیں تھا“۔یہ اقتباس ایک مردم بیزار شخص کی لاچاری کوانتہائی کرب کے ساتھ بیان کرتا نظر آتا ہے ۔ خالی سڑک پرخالی پن ۔۔۔۔کیاکہنے ۔ اس افسانے میں ایک خالی سڑک کاخوف ، اُس کی وحشت جس طرح بیان کی ہے وہ قابل داد ہے ۔
اس کتاب میں کچھ افسانے کورونا وباءسے متعلق ہیں ۔ دوسال کایہ دوریقینا کرب کی کئی تصویریں بناکر ہمارے لیے چھوڑ گیا۔ وباءتو ایک ہی تھی لیکن جس طرح اس کتاب میں اس کے مختلف لوگوں پر مختلف اثرات کو بیان کیاگیا وہ کہانی کودلچسپ بناتے ہیں اوریکسانیت بالکل نظرنہیں آتی ۔موت کافرشتہ ، شمشان گھاٹ ،لاک ڈاﺅن میں کورونا کوموضوع بنایا گیا ۔پھر آخری افسانہ ”سموگ “ سے متعلق ہے ۔ہجرت کے دکھوں پر مشتمل ”سرخ جوڑا“ بھی زبردست ہے۔ ان کے کچھ افسانے ہمیں یہ شدت کے ساتھ احساس دلاتے ہیں کہ کوئی فردکسی معاشرے کے لیے کتنا اہم ہوتا ہے ، اُس کی کسی صورت بے توقیری نہیں کرنی چاہیے ۔سماج کے بگاڑ کس طرح کسی کی زندگی کواجیرن کرسکتے ہیں ، یہ پہلو، ان کے افسانوں میں نمایاں نظرآتا ہے ۔ اس کی مثال” فراک“ ،”کھڑکی نمبر 5”،”پچھتاوا“ ہیں ۔ خواجہ آفتاب حسن جہاں بگاڑ کی نشاندہی کرتے نظرآتے ہیں وہاں وہ ان کاحل سمجھاتے بھی نظرآتے ہیں۔”پچھتاوا“ کی آخری لائن ہمیں گھریلو جھگڑوں ،ساس بہو کی لڑائی ،میاں بیوی کے تعلق کی بناپر جو صورت حالات بنتی ہے اُس سے نجات کاحل بتاتی نظر آتی ہے کہ ”کاش اُس نے مکان کے بجائے گھر کی خواہش کی ہوتی!! اصل چیز تو گھرہوتا ہے نہ کہ مکان ۔
ہمارے سماج میں جہاں دُکھ ہیں وہاں ہمیں اُمید بھی نظر آتی ہے ۔یہ اُمید ہی ہمیں زندہ رکھے ہوئے ہے۔ اگر اُمیدیں ختم ہوجائیں تو یہاں ہرانسان خودکُشی کرتا نظرآئے ۔ خواجہ آفتاب حسن نے ہمارے معاشرے کی تصویرہمیں دکھائی ہے ۔ ان کے لکھے گئے افسانے ادب کے معیار پر پورے اُترتے ہیں ۔ منظرنگاری ،کردارنگاری ، افسانے کاآغاز ، کلائمیکس ، آخری حصہ ،سب کچھ اپنی مثال آپ ہے ۔ انہوں نے روایت سے جدیدیت تک کاجو سفر طے کیا ہے وہ تنقید کے لیے کئی جہتیں کھولتا نظرآتا ہے ۔
ہم جب عالمی اداب کی بات کرتے ہیں توہمیں ہرکوئی اپنے معاشرے کی بات کرتا نظرآتا ہے ۔ خواجہ آفتاب حسن بھی اپنے معاشرے کے دکھ درد کوسمجھتے ہیں ۔ میرے خیال سے ہمیں اپنی تہذیب سے محبت کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہم خود اپنا اردگرد بگاڑتے ہیں اورخودہی ہم اُس کو ٹھیک کرسکتے ہیں ۔آخر میں میری دعا ہے کہ افسانے لکھنا بلاشبہ ایک فن ہے اورخواجہ صاحب اس فن سے بخوبی آگاہے ۔ ہم منتظر رہیں گے کہ یہ جس طرح تلخ حقیقتوں کو قلم بند کرتے نظرآتے ہیں انہیں اس پر کھلی داد ، تاکہ وہ اسی طرح معاشرے میں بکھری ہوئی کہانیاں اپنے قارئین تک لاتے رہیں۔
( انجمن ترقی پسندمصنفین کی جانب سے پاک ٹی ہاﺅس میں ”خالی سڑک“ کی تقریب پذیرائی میں پڑھا گیا)