سوشل میڈیا رحمت بھی اور زحمت بھی

56

تحریر : آمنہ شیخ انٹرنی ڈائریکٹوریٹ تعلقات عامہ گوجرانوالہ
کہتے ہیں کہ ایک شخص شیطان کے چنگل میں پھنس گیا اور جان بچانے کیلئے شیطان نے دو شرائط رکھیں‘شراب کا پیالہ پی لو یا یہ تلوار لو اور اپنی ماں کو قتل کردوورنہ تم قتل کردئیے جاؤ گے۔ اس شخص نے فرط تقدس سے ماں کو قتل کرنے کی بجائے شراب کا پیالہ پینا منظور کرلیا جب وہ شراب کے نشے میں دھت ہوا تو تلوار نکال کر ماں کو قتل کر ڈالا۔ اس حکایت سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ نشے کی حالت میں انسان اچھے برے کی تعمیز کھوبیٹھتاہے اس لئے وہ تمام چیزیں جس سے انسان اپنی سدھ بدھ کھول بیٹھے نشے میں شمار ہوتی ہیں۔ پھر وہ چاہے نشہ شراب کا ہو یا چرس کا‘ افیون کا‘ بھنگ‘ کوکین یا پھر سگریٹ کا سب حرام ہیں اس لئے اللہ تعالی نے قرآن میں ارشاد فرمایا ”ان سے بچو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ“
معزز قارئین کچھ ایسے نشے بھی ہیں جن کے سرور و غرور ہمیں تہذیب‘ ثقافت‘ روایات‘ اخلاقیات یہاں تک کہ مذہب سے بے بہرہ کررہے ہیں۔ ان میں اقتدار کا نشہ دولت کا نشہ راتوں رات امیر بننے کا نشہ‘ شہرت کا نشہ اور سب سے بڑھ کر برقی نشہ یعنی انٹرنیٹ‘ موبائل کمپیوٹر اور ٹیلی ویژن اور یہ ایسا نشہ ہے جس کی بوباس تو نہیں مگر سحر ایسا کہ جوہماری نوجوان نسل کی قوت واستقامت‘ ہنر مندی‘ دماغی صلاحیتوں‘ نشاط‘ شباب اور رنگ وروپ سب کو تباہ و برباد کررہا ہے۔ بچوں سے ان کی معصومیت چھین رہاہے خواتین کو ا نکی ذمہ داریوں سے دور کررہاہے اور رشتوں میں خلیج پیداکررہاہے۔ اب آپ موبائل فون کو ہی لیجئے یقیناً انفارمیشن ٹیکنالوجی کی منفرد اور انوکھی ایجاد ہے اگر گردنواح پر نظر دوڑائیں تو گھر دفتر‘ ہسپتال‘اسکول‘ کالج‘ یونیورسٹی‘ر یلوے اسٹیشن ایئر پورٹ‘ ویٹنگ لاؤنج اور سیرو تفریح کے مقامات ہر کوئی مصروف نظر آئے گا۔ کوئی ہیڈ فون لگائے گانوں سے لطف اندوز ہورہاہے تو کسی کی انگلیاں SMS کے کیلئے مشینی انداز میں چل رہی ہیں تو کوئی گفت وشنید میں مصروف ہے۔ غرض یہ کہ ہر کوئی اپنے گردوپیش سے بے خبر اپنی دنیا میں مست نظر آتاہے اور اس شعر کی سچائی بھی عیاں ہوتی ہے۔
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
جبکہ یہی معاملہ انٹرنیٹ کا بھی ہے اس سے بھی نوجوان نسل کیا سیکھ رہی ہے یہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں جگہ جگہ بنے انٹرنیٹ کیفے کے چھوٹے چھوٹے کیبن رات گئے تک خالی نہیں ہوتے۔ فی زمانہ کوئی گھر ہی ایسا ہوگا جہاں کمپیوٹر موجود نہ ہو مگر اس کا صحیح استعمال تو خال خال ہی ہوتاہے۔افراد انسانی کا اجتماعی ڈھانچہ معاشرہ کہلاتاہے‘ اجتماعی زندگی کی خوبصورتی کیلئے کچھ کلیدی صفات کی ضرورت ہوتی ہے۔ خصوصاً نوجوان نسل کا ان صفات سے متصف ہونا انتہائی ضروری ہے اگر معاشرے کے نوجوانوں میں ان صفات کا خیال نہ رکھا جائے تو اجتماعی زندگی پریشانی‘ الجھن اور مصیبتوں کی آماجگاہ بن جاتی ہے پھر معاشیر کا وہی حشر ہوتاہے آج مغرب جس سے دوچار ہے اور ہمارے معاشرے میں بھی وہ ساری خامیاں آہستہ آہستہ داخل ہو رہی ہیں۔ اصلاح انتہائی جامع اصول ہے ہر دور میں اصلاح کی گنجائش قائم رہتی ہے۔ پاکستانی معاشرہ کئی قسم کی برائیوں میں مبتلاہے جن میں سے انٹرنیٹ کا بے تحاشااورغلط استعمال‘جدید کلبز‘سوشل میڈیا اور الیکٹرانکس میڈیا کے فحش پروگرام‘شیشہ‘ پان‘ سگریٹ اور منشیات کا استعمال‘ ذخیرہ اندزی‘ ملاوٹ‘ناپ تول میں کمی‘ آپس ہی میں ایک دوسرے کا اغواء اور قتل وغارت‘وعدہ خلافی‘ خیانت اور بدیانتی‘ چغل خوری‘ بہتان اور غیبت‘ رشوت‘ جواء اور سود‘ مختلف مافیازجو نوجوان نسل میں ان براؤں کو پروان چڑھانے کیلئے کام کررہے ہیں۔
سوشل میڈیا اطلاعات کا تیزترین ذریعہ ہے جس کے اثرات بھی تیزی سے مرتب ہو رہے ہیں اس کی بدولت دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے جس کے مثبت اور منفی اثرات ہمیں تیزی سے پھیلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پروپیگنڈا کا سب سے بڑا ٹول بن کر سامنے آیاہے۔ نوجوان نسل کیلئے یہ پسندیدہ مشغلہ ہے سوشل میڈیا پر کوئی بھی شخص کبھی بھی کوئی بھی مواد اپ لوڈ کرسکتاہے اور ہم یہ اندازہ نہیں لگا پاتے کہ اپ لوڈکرنے والا شخص کون تھا اور کس ادارے سے اس کا تعلق ہے۔ بہت بڑی تعداد میں جعلی اکاؤنٹس سوشل میڈیا پر موجود ہیں جسے کسی صورت اخلاقی حرکت نہیں کہا جاسکتا۔ انٹرنیٹ کی بدولت دنیا میں باہمی رابطہ قائم رکھنا اور اطلاعات کی فراوانی نہایت آسان اور تیز رفتارہوگئی ہے ہماری نوجوان نسل سوشل میڈیا سے وہ کچھ حاصل نہیں کر پا رہی جو کچھ حاصل کیا جانا چاہئیے۔ انٹرنیٹ کی ہزاروں اپلیکیشنز ہیں جن سے آپ اپنی تعلیم مذہب اور جنرل نالج کو بڑھانے کیلئے استعمال کرسکتے ہیں لیکن ہماری نوجوان نسل میں ایسی اپلیکیشنز مقبول ہیں جو ان کیلئے شہرت کا باعث بنیں چاہے وہ شہرت اچھائی کے معانی میں یا برائی کے۔ آج کل ٹک ٹاک TikTok نامی اپلیکیشن معاشرے میں وباء کی طرح پھیل چکی ہے‘ کئی گھر اس کی بدولت تباہی کا شکار ہوگئے ہیں۔ کتنے نوجوان بچوں نے اپنی زندگیوں کو تباہ کیاہے اس اپلیکیشن کو استمعال کرتے ہوئے ویڈیوزبناتے ہوئے نہ جانے کتنے نوجوان بچے موت کو گلے لگا بیٹھے ہیں مگر اس کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہو رہاہے۔ سوشل میڈیا میں فیس بک کو اگر فیک بک کہا جائے توبے جا نہ ہوگا سماجی رابطے کی ایسی درجنوں ایپلیکشنز معاشرے میں عدم برداشت‘ افواہ سازی اور جہالت کو جنم دے رہی ہیں۔ جھوٹی اور من گھڑت کہانیوں کا ایک سمندر ان سائٹ پر موجود ہے۔ اور نوجوان نسل ان میں غوطہ زن ہے ہمارا مذہب تیزی سے متاثر ہورہاہے ان سائٹ پر جہالت اور جھوٹ پر مبنی اقوال زریں اور احادیت کو پھیلایا جارہاہے ایک اندازے کے مطابق 75فیصد مواد سوشل میڈیا پر جھوٹ پرمبنی ہوتاہے یہی وجہ ہے کہ آج جھوٹ تیزی سے اپنی جڑیں پھیلا رہا ہے آج نوجوان لڑکے اور لڑکیاں خود کو فیمس کرنے کے چکر میں خطرناک مقامات پر سیلفیاں بناتے ہوئے خود کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں جن میں زیادہ تر تعداد تعلیم یافتہ طبقہ اور یونیورسٹیز کے طلباء کی ہے۔ مگر حیران کن بات یہ بھی ہے کہ اتنی جدید ٹیکنالوجی کے دور میں کئی افراد ایسے بھی ہیں جنہیں فیس بک ٹویٹر‘ واٹس ایپ‘ سکائپ‘ ٹک ٹاک اور کئی دوسری ایپلیکیشنزسے نہ ہی کوئی دلچسپی ہے اور نہ کوئی شناسائی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ وہ کب کے انٹرنیٹ کی دنیا میں قدم رکھ چکے ہیں اور ان کے ہر کام کا سسٹم انٹرنیٹ کی گرفت میں ہے جبکہ ہمارے ملک پاکستان میں اب تک یہ رفتار کافی سست ہے ہم جس طرح انٹرنیٹ کی بدولت ترقی کی منازل طے کرسکتے تھے ہم ویسے اپنی قوت کا ر میں اضافہ نہیں کر پائے۔ سمارٹ فونز کا استعمال اتنا بڑھ گیاہے کہ اپنے قیمتی رشتوں کو دینے کیلئے ہمارے پاس وقت کی کمی ہے ہم موبائل فونزمیں کئی گھنٹوں مگن رہتے ہیں اور وقت اتنی تیزی سے گزر رہا ہے کہ ہم اس کی تیز رفتاری کا اندازہ ہی ہیں لگا پارہے اور بہت ہی قیمتی خوبصورت رشتے ہم سے دور ہوتے جارہے ہیں۔سوشل میڈیا نے نوجوان نسل کو اس قدر زنجیروں میں جکڑ لیا ہے کہ جن کی مضبوطگرفت سے خود کو نکالنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگیاہے۔اگر آج کوئی نیکی کا کام بھی کیا جائے صدقہ خیرات کریں‘ غرباء کی مدد کریں تو اسے فوراً فیس بک اور واٹس ایپ کے سٹیٹس پر اپ لوڈ کردیا جاتاہے آخرکار ہم کیا دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم جیسا کوئی نیک نام شخص نہیں یا جتنے ہم خیال رکھ سکتے ہیں غریب عوام کا اتنا کوئی نہیں رکھ سکتا یا پھر اپنا نام اونچا کرنے اور شہرت حاصل کرنے کیلئے یہ سب کام کرتے ہیں مگر یاد رہے دکھاوے کی نیکی کا کوئی فائدہ نہیں۔ حدیث نبوی ہے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اگر نیت اچھی نہ ہو تو نیکی کا کوئی فائدہ نہیں۔ جیسے یہ دنیا ترقی کے نئے دور میں داخل ہوئی ہے انٹرنٹ اور سوشل میڈیا سے متعارف ہوئی تو نوجوانوں میں گویا خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ نوجوان اپنی فرسٹریشن کو ختم کرنے کیلئے گھنٹوں کے حساب سے انٹرنیٹ کو وقت دینے لگے ہیں جیسے جیسے انٹرنیٹ میں جدت آئی‘ فیس بک‘ ٹویٹر‘ انسٹاگرام‘ ٹک ٹاک‘ واٹس ایپ متعارف ہوئے تو نوجوان نسل کو تو گویا اپنی جنت کا راستہ مل گیا اور وہ دنیا و مافیہا سے بیگانہ ہو کر اس جدت میں گھس گئے۔انٹرنیٹ زیادہ استعمال کرنے کا زیادہ نقصان یہ ہے کہ نوجوان نسل کی گرتی ہوئی صحت ہے کیونکہ نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے ان کی صحت بری طرح متاثر ہورہی ہے۔نوجوانوں میں فرسٹریشن اور ڈپریشن میں اضافہ ہورہاہے‘ انسٹاگرام اور فیس بک پر اپنی ویڈیوز ڈال کر جن کا کوئی سرپیر نہیں ہوتا یا بے ہنگم سی ٹک ٹاک بناکر دیکھتے رہتے ہیں کہ انہیں کتنے لائکس مل ہیں اور کتنے لوگوں نے اس پر کمنٹس لکھے ہیں۔ یعنی وہ اپنی تخلیق کے خود ہی رائٹر ہیں‘خود ہی پروڈیوسر ہیں‘ خود ہی ہدایتکار ہیں اور کم و بیش خود ہی دیکھنے والے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان بے تکی ویڈیوزاور مواد کو دیکھنے کیلئے انہیں اپنے جیسے شائق بھی مل جاتے ہں جس کیوجہ سے وہ اپنے آپ کو توپ قسم کی چیز سمجھنے لگتے ہیں۔ ہرنوجوان دانشور‘ ادیب اور لکھاری بن گیا اور بغیر تحقیق کے ہر پوسٹ پر رائے دینا ایمان سمجھنے لگا اوراپنا بیانیہ بنانے لگا۔ انہوں نے کچھ نوجوانوں کو مثال بھی بنایا ہواہے کہ فلاں شہر میں فلاں نے اتنے پیسے سوشل میڈیا کے ذریعہ کمائے ہیں اس لئے ہمارے نوجوان بھی دن رات اسی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں اور شارٹ کٹ کے ذریعہ پیسے کمانے کی کوشش میں ہیں۔ آپ کسی طالبعلم سے پوچھ لیں کہ وہ دن میں کتنے گھنٹے موبائل استعمال کرتاہے تو آپ حیران ہو جائیں کہ وہ پڑھائی اور والدین کو وقت دینے کی بجائے زیادہ وقت اپنے موبائل پر گزار رہا ہوتا ہے‘اس کا کوئی دوست نہیں ہے۔ اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ گھر میں یا معاشرے میں کیا ہورہاہے وہ صرف اسی کو اپنا دوست تصور کرتاہے جو اس کی پوسٹ کو لائک کرتا ہے اور کمنٹس دیتاہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ایسی لت کا شکار ہوچکا ہے جس نے اسے اپنوں سے دور کردیاہے اور وہ دنیا ومافیہا سے بے خبر اپنی ہی ایک الگ دنیا میں گم ہے۔ سوشل میڈیا کی زد میں نوجوان نسل تو آ ہی چکی ہے اس کے ساتھ ساتھ اس میں ہر عمر اور ہر طبقے کے انسانوں نے اپنی اپنی پسند کے مطابق چیزیں تلاش کر لیں۔ آپ اپنے اردگرد ملاحظہ کیجئے آپ کو ہر شخص(مرد‘عورت‘ نوجوان‘بچے) انٹرنیٹ استمعال کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ گھروں‘ بازاروں‘ اسکول‘ کالج‘ مذہبی درسگاہوں‘ حتی کہ اسپتالوں میں بھی جہاں پر طبی عملے کی ذرا سے غفلت سے مریضوں کا نقصان ہوسکتاہے میں بھی عملہ آپ کو انٹرنیٹ اور موبائل استعمال کرنے میں مشغول نظر آئے گا۔ سوشل میڈیا کے استعمال سے معاشرے میں فون استعمال کرنے کی وجہ سے حادثات کی شرح میں اضافہ ہواہے آپ کسی موثر سائیکل سوار کو دیکھیں اس نے پوری فیملی موٹر سائیکل پر بٹھائی ہوتی ہے اور موبائل کان سے لگاکر ایک طرف کو جھکاہوتاہے۔ اپنی اس حرکت سے اس نے اپنی پوری فیملی کی زندگی کو داؤ پر لگایا ہوتاہے۔ سوشل میڈیا کے غلط استعما ل سے غیر اخلاقی مواد دیکھنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد میں اکثریت نوجوانوں کی ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں نئی نسل میں ہیجان خیزی میں اضافہ ہوا ہے اور نوجوان گلوبل ویلج میں اپنے آپ کو محسوس کرتے ہوئے اپنا موازنہ مغربی ممالک سے کررہے ہیں۔ اب ایک ایسی پود تیار ہوچکی ہے جو مغربی ملکوں کے نوجوانوں کی تقلید میں اپنی مشرقی روایات کو یکسر بھلا کر ہر وقت خیالی دنیا میں کھوئی رہتی ہے۔ سوشل میڈیا کا ایک اور نقصان کہ نوجوانوں کوانٹرنیٹ پر مختلف گیمزکھیلنے کی لت لگ چکی ہے جن کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ گیمزجان لیوا ہیں جن سے نوجوانوں کو دور رہنا چاہئیے۔اس کے ساتھ ساتھ نوجوان سوشل میڈیا پر غیر ممالک کی لڑکیوں عورتوں سے دوستیاں اور شادیاں بھی کرتے ہیں لیکن دیکھاگیاہے کہ اکثر شادیاں ناکام ثابت ہوتی ہیں حال ہی میں انٹرنیٹ پر مشہور زمانہ بدنام گیم ”پب جی“ کے ذریعہ ایک پاکستانی شادی شدہ عورت جو چار بچوں کی ماں بتائی جاتی ہے دہلی(انڈیا) کے رہنے والے لڑکے سے دوستی کی اور پھر نیپال میں شادی کرکے انڈیا چلی گئی۔ اب وہ لڑکی پاکستان آنے کو تیار نہیں جبکہ انڈیا والے اسے پاکستان کی جاسوس سمجھ کراسے واپس بھیجناچاہتے ہیں۔ اس طرح کاایک اور کیس بھی سامنے آیاہے جس سے انڈیا سے لڑکی پاکستان آ کر شادی کرچکی ہے یہ حالیہ کیسزہیں جو منظر عام پر آئے جبکہ ایسے سینکڑوں کیسز ہیں جن کی وجہ انٹرنیٹ ہے۔ ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے دفاع میں نوجوان نسل کہتی ہے کہ اس طرح ساری دنیا سے رابطے ہو جاتے ہیں۔ انہیں اپنی پڑھائی سے متعلق چیزیں تلاش کرنے میں آسانی ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ لیکن اگر موازنہ کیا جائے توانٹرنیٹ سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد اس سے حظ اٹھانے والوں کے مقابلے میں یقیناً کم ہوگی۔ خدا جانے اب یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا کیونکہ اب تو عالم یہ ہے کہ تعلیم کے تمام اداروں نے آن لائن اسٹڈی کو اپنا فرض سمجھ لیاہے اور نوجوان نسل آن لائن اسٹڈی کو ہی بہانہ بن کر موبائل اور انٹرنیٹ کو استعمال کرنا اپنا حق سمجھتی ہے اور والدین ان کے اس بیانیے کو ماننے پر مجبور ہیں۔ نوجوان نسل کیلئے دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ خدا ہر کسی کے بیٹے بیٹی کو کسی ناخوشگوار حادثے سے بچائے اور انہیں ہدایت دے کہ وہ انٹرنیٹ کو صحیح معنوں میں اپنی تعلیم‘ کاروبار اور دیگر مثبت کاموں کیلئے استعمال کریں۔ ہمارے سربراہان معاشرہ میں اپنا کردار درست کریں اور معاشرے کیلئے ناسور ان بیماریوں کی روک تھام کیلئے قانون سازی کریں اور ہماری انتظامیہ قوانین پہ سختی سے عمل کروائے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو اپنی اور اپنے ملک کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.