مزدوری سے افسری تک

47

تحریر ؛۔ جاویدایازخان
کہتے ہیں زندگی تب تک خوبصورت اور ہلکی ہے جب تک سارے بوجھ ماں باپ نے اُٹھاے ہوں ۔کبھی کبھی ٹھوکریں اور مشکلات اچھی ہوتی ہیں ایک تو راستے کی رکاوٹوں کا پتا لگ جاتا ہے تو دوسرے سب سے بڑھ کر مشکلات اور مصائب میں آپ کو ہمدرد اور سنبھالنے والے ہاتھوں کی پہچان بھی ہو جاتی ہے ۔ دکھ کی ہر چیز وقتی ہوتی ہےجلد ٹوٹ جاتی ہے بکھر جاتی ہے مگر انسانی رویےُ دائمی ہوتے ہیں وہ کبھی نہیں بھولتے بلکہ صدیوں تک اپنا اثر چھوڑ جاتے ہیں ۔مجھے بھی ان حالات کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب ابھی میں نے میٹرک کا امتحان ہی پاس کیا تھاکہ ابا جی مشرقی پاکستان میں سقوط ڈھاکے کے دوران جیسور کے محاذ پر لڑتے ہوے زخمی ہوکر جنگی قیدی ہو گئے اور جنگ کے کئی ماہ بعد تک ان کی سلامتی کی کوئی خبر نہ تھی ۔ایسے میں گھر کے مالی معاملات خراب ہوے تو میں نے مزید پڑھائی کی بجاے روزگار کی تلاش شروع کردی تو پتہ چلا کہ زندگی دور سے خوبصورت نظر تو آتی ہے مگر قریب سے دیکھنے سے ہی اس کی تلخی اور اس کے صیح خدوخال واضح ہوتے ہیں ۔ زندگی کے بڑے بڑے خواب دیکھے تھے تصور میں بڑی افسری کا خیال تھا اور بڑا فخر تھا کہ میٹرک میں فرسٹ ڈویژن حاصل کی جونہی ملازمت کے لیے جائیں گے ہاتھوں ہاتھ لیا جاے ُ گا ۔لیکن پتہ چلا کہ سواےُ مزدوری کے ایک میٹرک پاس اور ناتجربہ کا کو کچھ نہیں مل سکتا سو مجبورا”زندگی کا آغاز ایک مشہور جیوٹ ملز مظفر گڑھ سے بطور قلی شروع کیا اور یہ مزدوری بھی تایا زاد بھائی کی سفارش سے ملی ۔لیبر افسر نے جب مجھے دیکھا اور میرے میٹرک کے نمبرز دیکھے تو رحم کھا کر میرے سروس کارڈ پر قلی یا مزدور کی بجاے ُ “اپرنٹس “لکھ دیا مگر تنخواہ وہی ایک سو چودہ روپے ہی تھی یعنی چار روپے کی دیہاڑی بنتی تھی جو غیر حاضری یا چھٹی کی صورت میں کاٹ لی جاتی تھی ۔جس پر ہم پھولے نہ سماےُ کہ چلو آسامی کا نام تو مزدور نہیں ہے ۔بابو بنے اپنے ڈیپارٹمنٹ سپیننگ میں گئے اور اپنے متعلقہ افسر اکرم بھٹی جو فٹر تھے رپورٹ کی تو بولے لگتا ہے یار سفارش سے آے ہو اسی لیے قلی کی بجاے ُ اپرنٹس بھرتی کیا ہے اور مجھے ایک ہیلپر خادم حسین کی شاگردی میں دے دیا ۔ہمارا کا م اپنی شفٹ کے دوران اسپیننگ مشینری کو چالو رکھنا اور بند نہ ہونے دینا تھامجھے کہا گیا کہ کل سے ملیشیا کے کپڑے پہن کر آنا ہے کیونکہ ہر وقت فضا میں اڑتے پٹ سن کے ذرات ،آئل کی چکنائی اور مٹی دھول کپڑوں پر چپک جاتی تھی جسے ہوا کے پریشر سے صاف کیا جاتا تھا۔ ایک تو رنگت کالی اوپر سے ملیشیا کے کپڑے اچھا خاصا انسان شکل سے ہی مزدور لگتا ہے ۔اباجی کہتے تھے کہ میں نے بھی اپنی زندگی مزدوری سے شروع کی تھی اور حرام رزق اور مانگ کر کھانے سے مزدوری لاکھ درجے بہتر ہوتی ہے۔ دوسرے مزدوری سنت رسول بھی ہے پھر رزق حلال کمانے میں بھلا کیسی شرم ہے ؟ گھر سے ملز پیدل جانا اور واپس آنا پڑتا جو تقریبا” تین میل کا فاصلہ تھا شفٹ شروع ہونے سے قبل پہنچنے کے لیے ایک گھنٹہ پہلے چلنا پڑتا ۔صبح کی شفٹ چھ بجے دوپہر کی شفٹ دن دو بجے اور رات کی شفٹ دس بجے سے شروع ہوتی صبح کی شفٹ کے لیے صبح پانچ بجے بغیر ناشتے کے آنا بھی امتحان ہی ہوتا تھا اور اس پر لوگوں اور خاص طور پر اپنوں کے سرد اور نفرت انگیز رویے اور طنز بھولنا بڑا مشکل ہے ۔زندگی کے کچھ بند دروازے ایسے ہوتے ہیں جن کو کھولنا اور بیان کرنا آپ کی زخمی روح کو بے چین کردیتا ہے۔ انہیں بند ہی رکھنا چاہیے ۔ہمارے فٹر بھٹی صاحب بہت زبردست آدمی تھے انہوں نے میری مجبوری کو محسوس کرلیا اور روز صبح اپنے ساتھ ناشتہ کراتے تھے ۔بات چیت ہوئی اور میری باتوں کر سنا ،صلاحیتوں اور محنت کو دیکھا تو گرویدہ ہو تے چلے گئے اور مجھے بھی کام کرنے میں لطف آنے لگا ۔ بندہ مزدور کے اوقات کیوں تلخ ہوتے ہیں ؟مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ زندگی میں مزدوری کرنا کیوں ضروری ہے ؟ پہلی تنخواہ کی خوشی ضرور تھی مگر اب اذیت مزدوری یا کام نہیں تھا اصل اذیت اپنوں لوگوں کی نفرت تھی جو ایسے حالات جو کھل کر سامنے آجاتی ہے ۔تلخ باتیں اگر بول دی جائیں تو رشتے مر جاتے ہیں اور اگر دل میں رکھ لی جائیں تو دل درد کرنے لگتا ہے ۔کبھی کبھی بولنے والا بس ایک بار بولتا ہے مگر سننے والے کو وہ الفاظ جانے کتنی ہی بار سنائی دیتے رہتے ہیں ۔ میرے بڑے ابا جی کہتے تھے جب دنیا والوں کی باتیں تکلیف دینے لگیں ،جب اذیت آخری حدوں کو چھونے لگے توتو اللہ کو زور زور سے پکارنا وہ رب اپنے بندوں کو تکلیف میں نہیں رکھتا اور ہر اذیت سے نکلنے کی راہ بنا دیتا ہے ۔ ایسا ہی میری دعاوں کے ساتھ ہوا اور رحمت الہی نے قبولیت بخشی اکرم بھٹی اور خاد م حسین نے مجھے ایک دن کہا جاوید یہ جگہ آپ کے قابل نہیں ہے اپنی زندگی ضائع نہ کرو اور یہاں سے نکل جاوُ ! بھٹی صاحب نے سمجھایا کہ ہمارے ملز کی کنٹین میں چاے صرف آٹھ آنے کی ملتی ہے یہی چاے شہر کے ہوٹل سے ایک روپیہ اور کسی فائیو سٹار ہوٹل میں پچاس روپے کی ملے گی چاےُ تو وہی دودھ پتی چینی کی ہی ہے لیکن جب جگہ اور ماحول بدل جاے تووہی آٹھ آنے والی چاےُ پچاس روپے میں ملتی ہے ویلیو چاےُ یا چیز کی نہیں ہوتی جگہ اور مقام کی ہوتی ہے ۔تمہارا مقام یہاں نہیں ہے اسے بدلو کیونکہ یہاں تمہاری قیمت کچھ نہیں ہے ۔یہ ضروری نہیں ہر کوئی آپ کو سمجھ پاے ترازو صرف وزن بتا سکتا ہے معیار نہیں اور یہاں کسی جدوجہد سے کچھ فائدہ نہیں ہونے والا ہے ۔اپنی پڑھائی جاری رکھو یہی کامیابی کا راستہ ہے اور یوں میں نے اپنے راستے جیوٹ ملز سے جدا کر لیے شاید واحد میری الودعی دعوت ایسی تھی جس پر میرے ساتھی دکھ کی بجاے خوشی کا اظہار کر رہے تھے اور پھر لوگوں کی نفرتوں اور رویے کا جواب دینے کے لیے اپنی محنت اور طویل جدوجہدکا آغاز کیا ۔پھر کہاں کہاں کی خاک چھانی کہاں کہاں دربدر ہوتا ہوا اپنی منزل تک جا پہنچا جو ایک الگ طویل اور دردناک داستان ہے۔ ایسے میں میرے استاد شاہ محمد مرحوم نے بڑا ساتھ دیا میری حالت دیکھ کر کہنے لگے خود کو اتنا مصروف کر لو کہ آپ کے پاس نفرت پچھتاوے اور ڈرو خوف کے لیے وقت ہی نہ بچے اور مجھے بطور استاد اپنے اسکول میں رکھ لیا یا یہ سمجھ لیں اپنا اسکول میرے حوالے کردیا ۔استاد ی سے یہ سفر بینکار ی تک پہنچا آغاز بطور کیشیر حبیب بنک سے ہوا پھر ایم سی بی نے میری صلاحیتوں کو چار چاند لگا دیے ۔پھر جب میں غالبا” اسی کی دھائی میں ایک ایسا بنک آفسر بن چکا تھا جو تعلیم کی تمام تر اعلیٰ ڈگریاں لے چکا تھا ۔جسے اٹھ کر پانی بھی نہیں پینے دیا جاتا تھا ۔جو بینکنگ کی دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکا تھا ۔لوگوں اور اپنوں کی نفرتیں محبت میں بدل چکی تھیں ۔سرد رویے گرم جوشی میں ڈھل چکے تھے ۔ایک صبح مجھے ہمارے آڈٹ چیف فاروق اعظم کا فون آیا کہ اسٹیٹ بنک نے مجھے اور تمہیں چند انڈسٹریل یونٹس کے آڈٹ کے لیے نامزد کیا ہے ۔ان میں سے ایک ٹیکسٹائل یونٹ بہاولنگر اور دوسراجیوٹ ملز مظفرگڑھ میں ہے ۔بہاولنگر کا ٹیکسٹائل یونٹ نون گروپ اور مظفر گڑھ کا جیوٹ ملز حبیب گروپ کا ہوا کرتا تھا ۔اور پھر ایک دن صبح فاروق صاحب کے ہمراہ ہم اسی جیوٹ ملز کے گیٹ پر کھڑے تھے جہاں کبھی چوکیدار مجھے گھسنے بھی نہین دیتا تھا اور میں ہوائی چپل پہنے ملیشیا کے کالے لباس میں لیبر بھرتی ہونے آیا تھا ۔مگر آج گیٹ پر ملز کے جنرل منیجر اور فنانس منیجر ہمارے استقبال کو کھڑے تھے ان کی ہاتھوں میں پھولوں کے گلدستے دیکھ کر میری آنکھیں نم ہو گیں تھیں ۔ جی ہاں ! سب کچھ وہی تھا وہی بلڈنگ وہی مشینری وہی لوگ وہی ماحول مگر آج ہماری آو بھگت کرنے والی انتظامیہ یہ نہیں جانتی تھی کہ ان کے سامنے ان ہی کے ملز کا ایک سابقہ مزدور کھڑا ہے ۔جو اب ملیشیا کے کپڑوں کی بجاے تھری پیس سوٹ میں ٹائی لگاے ُوہاں داخل ہو رہا تھا ۔جس کی گاڑی کا دروازہ کھولنے کے لیے ڈرائیور ہی نہیں پوری انتظامیہ موجود تھی ۔وہ دفتر جس کے سامنے سے کبھی ہم ڈرتے گزر نہیں سکتے تھے وہاں براجمان ہم اپنا کام کر رہے تھے ۔ہم نے دو تین دن میں اپنا کام ختم کیا اور ملز کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔ چپکے سے میں نے جب پوری ملز کا چکر لگایا تو اپنے اسپیننگ کےکھاتے میں بھی گیا وہاں بھی سب کچھ وہی پرانہ ہی تھا ۔بوڑھا ہیلپر خاد م حسین اب فٹر بن چکا تھا اور بھٹی صاحب کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ ملک چھوڑ چکے ہیں ۔خادم حسین مجھے پہچان نہیں پارہا تھا لیکن پھر اسے یاد آگیا اور وہ بغل گیر ہو گیا ۔اسے خوشی اس بات کی بہت تھی کہ اس کا مشورہ درست ثابت ہوا تھا ۔میں نے خادم حسین کا شکریہ ادا کیا جس نے میرے اس برے وقت میں مجھے بڑا مشورہ دیا تھااسکی خواہش پر اس کی جانب سے چاے ُ پی کر پرانی یادوں کو تازہ کیا ۔اباجی کہتے تھے تمہارا سب سے بہترین دوست وہ ہے جو تمہیں اس وقت پسند کرے جب تم کچھ بھی نہ ہو ! اللہ کے ہر فیصلے پر مطمین رہو کیونکہ اللہ وہ نہیں دیتا جو آپ کو اچھا لگتا ہے بلکہ وہ دیتا ہے جو آپ کے لیے اچھا ہوتا ہے ۔اپنی ذات کے لیے محنت کرو اور اپنے مخالفوں کو ہمیشہ اپنی کامیابیوں اور فاتحانہ مسکراہٹ سے شکست دو ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.