بچوں کی شخصیت تربیت سے
تحریر: منشا قاضی
یہ شاید عرض کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ بچے فطرتا محبت اور پیار کے طلبگار ہوتے ہیں ان کی معصوم اور پاک روحیں انسانیت کی ایک ایسی جگمگاتی شمعیں ہوتی ہیں جنہیں روشن رکھنا ہر صحت مند مہذب اور ترقی پذیر دنیا کے معاشرے کی ذمہ داری ہے بچے فطرت کا انمول اور بے پایاں خزانہ ہیں ۔ زندگی میں سب کچھ مل سکتا ہے لیکن بچے ملنا فطرت کی بے پایاں رحمت کے بغیر ممکن نہیں ۔ دنیا بھر کی تفریح گاہؤں میں اعلی تعلیم یافتہ لوگ اپنے بچوں کو مستقبل کا ذمہ دار شہری بنانے کے لیے انہیں کھلی فضاؤں میں لے جا کر فطرت کے مناظر سے آشنا کرتے ہیں تاکہ بچے شعوری طور پر ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کر سکیں یہ کہنے کی بھی شاید ضرورت نہیں ہے کہ بچوں کی صحت ان کی تعلیم ان کی رہائش اور ان کی خوراک کو پاکیزہ رکھنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ انسانی شعور کا برائیوں سے پاک رکھنا ۔آپ یہ سن کر یقینا مسرت محسوس کریں گے کہ بچے محسوسات عالم میں بڑوں سے کسی طرح پیچھے نہیں ہیں فرق یہ ہے کہ بڑے لوگ اظہار بیان کی قوت رکھتے ہیں جبکہ بچے صرف محسوسات کی حد تک اپنا پوشیدہ ادراک رکھتے ہیں ہنسنا رونا قہقے لگانا تالیاں بجانا مسرت کے ساتھ بڑوں سے لپٹ جانا کیا یہ ساری باتیں شعور و ادراک کے بغیر ممکن ہیں کوئی غصے کے ساتھ دیکھے تو بچے کے چہرے پر خوف اور ڈر کی ساری علامات ظاہر ہو جاتی ہیں اور مسکرا کر دیکھنے سے اس کے باطن کی تمام تر رعنائیاں اس کے چہرے پر بکھر جاتی ہیں معلوم ہوا احساس و ادراک میں بچے بڑوں سے ہرگز پیچھے نہیں تفصیلات میں جائے بغیر مجھے آج کے سیمنار کی روداد کے بطن سے جنم لینے والے تربیتی پروگرام کے گفتگو طراز کی ہمدردانہ جذبات و احساسات کو سمیٹنا ہے ۔ جناب سید فہیم نقوی اور محترمہ ربیعہ عماز جو مستقبل کے معماروں کے حقیقی مربی و محسن ہیں جنہوں نے آنے والے دور کے ان معماروں ڈاکٹروں فوجی جرنیلوں سائنسدانوں۔ دانشوروں۔ راہنماوں ۔ رہبروں مصوروں ۔ وزیروں۔ مشیروں ۔ انشاء پردازوں اور شاعروں کو اپنا حقیقی مقام حاصل کرنے میں ان کی بھرپور امداد کی ہے ۔ مستقبل کے یہ خود مختار قابل اور دانشور جانے والی نسلوں کے بعد اپنا کردار ادا کر سکیں ۔ اس سیمینار کے شرکاء میں چیئرمین مسعود علی خان اور CTN ممبران
- ٹرینرز:
- سر فہیم نقوی
- میڈم رابعہ اماز
- سامعین : طلباء، اساتذہ، والدین ایجنڈا
- روبوٹکس/STEM اور پرورش
- زندگی کی مہارتوں کے ذریعے تعلیم
- ابتدائی بچپن کی تعلیم
کارروائی:
- قرآن پاک کی تلاوت:
- تقریب کا آغاز کلاس 7 کی طالبہ، فاطمہ کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا، جس نے سیمینار کے لیے ایک احترام اور پختہ لہجہ قائم کیا۔
- استقبالیہ تقریر: – CTN کے بانی اور چیئرمین مسعود علی خان نے استقبالیہ کلمات پیش کیے۔
آپ نے دو زبانوں کی اہمیت پر زور دیا: مادری زبان اور جسمانی زبان جس سے بچوں کی شخصیت بنتی ہے گرومنگ، اور رویے کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا، بین الاقوامی نمائش سے بصیرت کا اشتراک کیا۔ معصوم سامعین طلبا و طالبات جن کی فہم و فراست کے سامنے میں اپنے آپ کو عاجز پا رہا تھا۔ وہ فہیم نقوی کی بات کو سمجھ رہے تھے اور میں سیکھ رہا تھا اور برناڈشا کی صدائے باز گشت میرے دل کی سرزمین میں میں ارتعاش پیدا کر رہی تھی ۔ کہ تم اپنے بچوں کو اپنے عہد کی تعلیم نہ دو کیوں کہ یہ تمہارے زمانے کے لیئے پیدا نہیں کیئے گئے ۔ فہیم نقوی اور محترمہ ربیعہ عماز کے منہ سے جھڑتے ہوئے پھولوں کی مہک نے سچ ثابت کر دیا ۔ ہم نے تو یہی سن رکھا تھا کہ
ھزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہےپھر کہیں جا کے چمن میں کوئی دیدہ ور پیدا ہوتا ہے ۔ لیکن محترمہ ربیعہ عماز اور فہیم نقوی تو چشم دل سے دیدہ ور پیدا کر رہے تھے اور میری زبان پر اس وقت نرگس نور کا شعر ربیعہ و فہیم کی ترجمانی کر رہا تھا ۔ آپ بھی لطف اندوز ہوں ۔
میں وہ نرگس نہیں جو اپنی بے نوری پہ روتی ہے
میں چشم دل سے کرتی ہوں چمن میں دیدہ ور پیدا
فہیم نقوی نے جب غالب کا یہ شعر جسے میں نے تو حرز جاں بنایا ہوا ہے اپنے خطاب کے آغاز میں پڑھا کہ
بسکہ مشکل ہے ہر ایک کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا
تو میں نے یہ جانا گویا یہ بھی میرے دل میں ہے کیونکہ میں گھر سے رزق کی تلاش میں نہیں نکلتا بلکہ انسان کی تلاش میں نکلتا ہوں ۔ ہجوم میں سے نجوم تلاش کرتا ہوں بھیڑ میں سے انسان تلاش کر لیتا ہوں اور فہیم نقوی کا فلسفہ اب میری سمجھ میں آ رہا تھا ۔ اطلاعات و معلومات کا تو انبار ہے مگر علم کی کمی ہے ۔اطلاعات و نشریات تک تو ہماری رسائی ہے مگر کتابوں کی طباعت و تزئین ہی سے ہم لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔ یہ سیمینار سی ٹی این کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور اسی عنوان پر مستقبل میں کئی سیمینار انعقاد پذیر ہوں گے جس پر سیکرٹری جنرل محترمہ فردوس نثار نے آج ہی سے ہوم ورک شروع کر دیا ہے ۔ فہیم نقوی نے شور کوٹ سے چکلالہ تک فضائیہ کے فضاوں اور ہواوں میں لالہ و گل سے دوستی نہیں کی بلکہ آپ نے اس فضائی دشت کو اپنے دست ہنر سے گلستاں میں بدل دیا ۔ فہیم نقوی جیسے گفتگو طراز کا آج مثیل ملنا مشکل ہے وہ بول نہیں رہے تھے موتی رول رہے تھے اور تحقیق و جستجو سے ہمارے دلوں کی آرزو جگا رہے تھے ۔ دل چاہتا تھا کہ وہ بولتے جائیں اور ہم سنتے جائیں
فقط اسی شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں
میں تیرا حسن تیرے حسن بیان تک دیکھوں
فہیم نقوی کے جنوں نواز کارناموں پر پھر کبھی خامہ فرسائی کروں گا فی الحال یہ شعر مستقبل کے معماروں کی نذر کرتا ہوں ۔
ریت پر تھک کے گرا ہوں تو ہوا پوچھتی ہے
کس لیے آئے تھے تم دشت میں وحشت کے بغیر
جناب فہیم نقوی نے سی ٹی این کے چیئرمین مسعود علی خان کے ابتدائی کلمات کو اپنے لیے نیک شگون قرار دیتے ہوئے اندیشہ ہائے دور و دراز کے کہساروں کو ریزہ ریزہ کر دیا ۔ مسعود علی خان باغ و بہار طبیعت کے انسان ہیں اور وہ بچوں کی سطح تک پہنچ کر ان کو پیغام دینے کی صلاحیت اور قدرت رکھتے ہیں گویا کہ مختار مسعود کے بقول وہ آبشار کی مانند ہیں جو بلندیوں سے یہ کہتی ہوئی نیچے آ رہی ہوتی ہے کہ اگر آپ لوگ میری سطح تک بلند نہیں ہو سکتے تو میں خود ہی نیچے اتر کر تمہاری کشت ویراں کو سیراب کرتی ہوں ۔
جناب فہد عباس نے بچوں کے پانچ بنیادی حقوق کا خاکہ پیش کیا انہوں نے “تربییت” (پرورش) کے تصور اور بچوں کی نشوونما میں اس کے اہم کردار پر تفصیل سے بات کی۔مہمان مقرر میڈم ربعیہ اماز جو 75 کتابوں کی مصنفہ ہیں ۔ مصنف کو تو ایک کتاب مرنے نہیں دیتی اور آج کی یہ خطیبہ 75 کتابوں کی مصنفہ ہے اور IB نصاب کی گیسٹ سپیکر رابعہ اماز نے کئی اہم موضوعات پر گفتگو کی ابتدائی بچپن کی تعلیم علمی ترقی
بچوں کی نشوونما کے لیے ایک جامع نقطہ نظر جدید تعلیم کے طریقے ذاتی، سماجی، اور جذباتی ترقی (PSED) ۔ محترمہ رابعہ عصری حاضر کی ایک عظیم استاد ہیں ۔ عربی زبان میں افتہ مونث ہے اور مادہ مذکر ہے اس لیے تذکیر و تانیث کو کوئی امتیاز حاصل نہیں ہے سوائے اس کی کہ اس کا کام بولتا ہے محترمہ رابعہ معاذ کا کام بول رہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اپ کے حلق سے نکلی ہوئی یہ باتیں خلق تک جا رہی ہیں اور جدید عید کے ابلہ کی ویپن نے تو انہیں فلک پر پہنچا دیا ہے اج کے 10 سال کے بچے کی 10 انگلیوں کی 10 پوروں پر پوری کائنات رکھ سا ہے اس کا سینہ رازوں کا دفینہ ہے معلومات عامہ کا خزینہ ہے میرا 60 تو اس کے اٹھ کو نہیں پہنچ سکتا اور خالد چشتی کا 55 اس کے بچپن کو نہیں چھو سکتا ہم دونوں نہ ت 60 کے پیٹے میں ہیں اور نہ پچپن کے دورانیئے میں صرف قافیہ کا استعمال مستعار لیا ہے ۔
پیشکاری از جناب فہیم نقوی، ایک مشہور عالم، مستقبل کے ماہر، اقبال کے شاہین اور روبوٹکس اور کوڈنگ کے ماہر، نے ایک بصیرت انگیز پیشکش کی ۔ پردہ ء افلاک میں حادثوں تک بصیرت کی آنکھ سے دیکھنا والا فکری سائنسدان
تعلیم کے ہر میدان میں فلسفیوں کی شراکت بچے کی نشوونما کے چار مراحل
– STEM تعلیم کی اہمیت
– سائیکومیٹرک ٹیسٹنگ اور عملی مہارتوں کی نشوونما میں مہارت تامہ کی منتہا کر دی ۔ میڈم عروج فہد کا شکریہ کا انداز فہم و فراست سے لبریز جس نے مستقبل کے معماروں ان کے والدین اور سی ٹی این کے اراکین کا شکریہ ادا کیا جن کے کانوں نے بولنے والی زبانوں کی دلچسپی کا ساماں مسلسل پیدا کیئے رکھا ۔ میڈم عروج فہد نے سیمینار میں تعاون کے لیے ZiCAS فیکلٹی، CTN فیملی، اور ٹرینرز کا شکریہ ادا کیا۔ عروج کی گفتگو سن کر بڑا تعجب ہوا کہ وہ خوبصورت بولتی ہے اور وہ بہترین خطیبہ ہے اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے میں مبارک باد بھی پیش کرتا ہوں
محترم جناب خالد چشتی وائس چیئرمین سی ٹی این کے اختتامی کلمات کیا تھے ؟ مستقبل کے معماروں کے دلوں پر ایک دستک تھی جس کی صدائے باز گشت مستقبل میں منعقد ہونے والے سیمنار کے انعقاد تک گونجتی رہے گی ۔ جناب خالد چشتی، ایک محقق قائد پر اتھارٹی اور اعلیٰ تعلیمی امتیازات سے متصف پس منظر رکھتے ہیں آپ کے اختتامی کلمات کے بطن سے قائد اعظم کے افکار و نظریات کی قندیلیں فروزاں ہوتی چلی گئیں
خالد چشتی نے ZiCAS SCHOOL کی کوششوں کو سراہا اور LUMS اور دیگر یونیورسٹیوں سے اپنے ذاتی تعلیمی تجربات کا اشتراک کیا۔ آپ نے سیمینار کی کامیابی کو تسلیم کیا اور CTN میں والدین کے بارے میں اس طرح کے مزید مباحثوں کی ضرورت پر زور دیا۔-اور چیئرمین مسعود علی خان کی مستقبل کے معماروں کے حوالے سے سہولتوں اور ضرورتوں کی فراخ دلانا پیشکش کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ان کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ۔ سیمینار کو تمام حاضرین کی طرف سے پذیرائی ملی، اور زیر بحث موضوعات کو انتہائی قیمتی اور بصیرت بخش سمجھا گیا- تقریب والدین اور تعلیم پر جاری سیمینار کی اہمیت پر اتفاق رائے کے ساتھ ایک مثبت نوٹ پر اختتام پذیر ہوئی۔- اختتامی کلمات کے بعد سیمینار باضابطہ طور پر ملتوی کر دیا گیا۔آخر میں میری اس تجویز کو سی ٹی این کے اراکین شرف قبولیت عطا کر دیں تو حوصلہ افزائی مسیحائی کی بلندیوں کو چھو جائے گی ۔ جواں سال اور جواں فکر ماہر تعلیم فہد عباس کو اس کی تعلیم و تربیت کے فروغ اور خدمات کے اعتراف میں سی ٹی این حسن کارکردگی ایوارڈ سے نوازا جائے تو یہ ایک روشن مثال ہو گی ۔ میں جس فہد عباس کو آج سے 10 سال پہلے جانتا تھا جدید دور میں فہد عباس وہ نہیں ہے اس نے بے پناہ محنت کی ہے بڑی جستجو کی ہے بڑی تحقیق کی ہے اور مشکل راستوں پر چلا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اس کے قدم کہیں بھی ڈگمگائے نہیں وہ منزل مراد کی طرف بڑھتا چلا گیا ہے اور آج مجھے جتنی قلبی اور روحانی مسرت حاصل ہو رہی ہے کہ میرا اور فہد عباس سے ایک تعلق ء خاطر موجود ہے ۔ آخر میں صبا سمستی پوری کا یہ شعر ۔
فہد عباس کی نذر
قدم اٹھتے گئے اور منزلوں نے خود قدم چومے
غضب کا حوصلہ مجھ کو میری امید نے بخشا