ریاست بہاولپور سے سول سیکٹریٹ تک

25

تحریر ؛۔ جاویدایازخان
ریاست بہاولپور برصغیر پاک وہند کی دوسری بڑی اور امیر ترین ریاست ہوا کرتی تھی جو اسلامی روایات کی امین اور خوشحالی کی علامت سمجھی جاتی تھی ایک خود مختار ریاست کے طور پر بہاولپور کی تاریخ دوسو برس سے زائد پر محیط ہے ۔یہاں کے عباسی حکمران اپنی جاہ وحشمت کی باعث دنیا بھر میں اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے تھے ۔ان کی اپنی ایک مکمل فوج ،اپنا بنک ،اپنی اسلحہ ساز فیکڑی ،ٹکسال ، عدلیہ ،پولیس ،پرنٹنگ پریس ،ہسپتال غرض ایک مکمل ریاستی اور حکومتی نظام رائج تھا ۔قیام پاکستان اور بقا ء پاکستان کے لیے اس ریاست اور یہاں کے بادشاہوں کی قربانیاں تاریخ کا سنہری باب شمار کی جاتی ہیں ۔ شاعرمشرق حضرت علامہ محمد اقبال ؒ نے اسی ریاست اور یہاں کے حکمرانوں کے بارے میں کہا تھا کہ
زندہ ہیں تیرے دم سے عرب کی روائتیں
اے تاجدار سطوت اسلام زندہ آ باد
قیام پاکستان کے بعد نواب امیر آف بہاولپور نے بے مثال قربانی کا مظاہرہ کیا اور نوزائیدہ پاکستان کے لیے اپنے تمام تر وسائل بروکار لاکر اپنی محبت و عظمت کا ثبوت دیا اور اپنی اس خوشحال اوور ترقی یافتہ ریاست کا سب سے پہلے پاکستان سے الحاق کا اعلان فرمایا ۔اپنی افواج ،اپنا بنک ،اپنے ادارے ،املاک پاکستان پر نچھاور کر دئیے ۔کہتے ہیں کہ حکومت پاکستان کے لیے پین کی سیاہی اور کاغذ تک ریاست کی جانب سے دیا گیا ۔قائد اعطم کو پہلی گاڑی پیش کی اور کرنسی کے اجراء کے لے کئی من سونا دیا گیا ۔یہاں تک کہ پاکستان کے تمام ملازمین کی پہلی تنخواہ بھی اسی ریاست نے ادا کی تھی ۔ ریاست بہاولپور کی پاکستان کے لیے قربانیوں کی ایک طویل داستان ہے ۔غرض پاکستان کو مستحکم کرنے کے لیے نواب آف بہاولپور اور ریاست بہاولپور جو بھی کردار ادا کرسکتے تھے انہوں نے کر دیا ۔اسی لیے قائد اعطم نے انہیں محسن پاکستا ن کا خطاب دیا تھا ۔سات اکتوبر ۱۹۴۷ء کو ریاست بہاولپور نے پاکستان سے الحاق کیا ۔پاکستان میں شامل ہونے کے بعد ۱۹۵۵ء تک بہاولپور کی حیثیت ایک صوبے کی تھی جو تقریبا” تین سال تک رہی کہتے اس صوبے کابجٹ اس وقت کے صوبہ سرحد کے برابر ہوتا تھا ۔جسکی اپنی پارلیمنٹ اور وزیراعلیٰ ہوا کرتا تھا لیکن ۱۹۵۵ کے بعد بہاولپور صوبے کے طور پر ون یونٹ کا حصہ بنا اور مغربی پاکستان میں شامل ہو گیا ۔۱۹۶۹ء میں لیگل فریم ورک آرڈر کے ذریعے جب ون یونٹ کا خاتمہ ہوا تو اسے بہاولپور صوبے کےدرجے پر بحال کرنے کی بجاۓ صوبہ پنجاب کا ایک ڈویژن بنا دیا گیا ۔لوگوں کا خیال اور توقع تھی کہ ان کا صوبہ بحال ہو جاۓ گا مگر جب ایسا نہ ہوا تو یہاں کے لوگوں نے بحالی صوبہ کے نام پر ایک بڑی زبردست تحریک چلائی۔ایک سیاسی اتحاد “متحدہ محاذ “کے نام سے سامنے آیا جس نے ۱۹۷۰ء کے الیکشن میں بحالی صوبہ کے نام پر پورے بہاولپور ڈویژن کی قومی و صوبائی سیٹیں جیت کر عوامی حمایت حاصل کر تو لی مگر بےپناہ قربانیوں کے باوجود بحالی صوبہ کا خواب ادھورا ہی رہا ۔لیکن ہر الیکشن میں کسی نہ کسی صورت یا کسی نہ کسی تنظیم کے ذریعے عوامی ہمدردیاں بحالی صوبہ کے نام پر سیاستدانوں کو مل جاتی تھیں ۔ہر جماعت نے وعدہ ضرور کیا اسمبلیوں سے قراردادیں ضرور منظور کرائیں مگر عمل کبھی نہ ہو سکا ۔اس دوران بحالی صوبہ بہاولپور کے ساتھ ساتھ صوبہ جنوبی پنجاب یا سرائیکی صوبے کا نعرہ بھی بلند ہوا تو یہاں کے لوگوں کی سوچ دو حصوں میں بٹ گئی اور ۲۰۱۸ء کےالیکشن میں صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کے لیے ایک اتحاد وجود میں آیا جس نے پھر الیکشن جیت کر اپنا وزن پی ٹی آئی کے پلڑے میں ڈال دیا ۔گو پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران صوبہ جنوبی پنجاب تو نہ بن سکا لیکن عوامی محرومیوں کے ازلے کے لیے ایک الگ صوبائی سیکریٹریٹ جنوبی پنجاب کے نام سے بنانے کی منظوری دی گئی اور جسے قائم بھی کردیا گیا۔یہ سیکریٹریٹ بیک وقت ملتان اور بہاولپور میں قائم کیے جانے کا فیصلہ ہوا ۔کافی پیش رفت ہوئی اور دونوں مقامات پر سیکریٹریٹ کی عمارات کی تعمیر کا فیصلہ بھی کیا گیا ۔اس دوران بھی یہاں کے لوگوں کو بےشمار معاملات کے لیے لاہور ہی جانا پڑتا تھا ۔لوگ چاہتے تو یہ تھے کہ عوام کے فیصلے عوام کی دہلیز پر ہوں لیکن بہاولپور کے لیے درمیان میں ملتان بھی آگیا تھا ۔یوں معاملہ” آسمان سے گرا تو کھجور میں اٹکا “کی طرح ہو گیا ۔سول سیکریٹریٹ کی ملتان کی تعمیر تو بڑی تیزی سے ہوئی اور وہ تکمیل کے آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے ۔لیکن بہاولپور سیکریٹریٹ کی عمارت کا نشان دور دور تک نظر نہیں آتا حالانکہ اس سیکریٹریٹ کا بھی نقشہ منظور ہو چکا ہے ۔جو جگہ اسکی تعمیر کے لیے مختص کی گئی ہے وہ بھی کسی قانونی پیچیدگی کی باعث بالکل ویران پڑی ہے اور تاحال اس سیکریٹریٹ کی تعمیر کا کام شروع ہی نہیں ہوسکا ۔سول سوسائٹی ،صحافی ،سوشل میڈیا اس پر آواز اٹھاتا رہتا ہے ۔مگر پیش رفت نظر نہیں آتی ۔یہاں کے عوام کا اس کے قیام کے ذریعے اپنی کچھ محرومیاں دور کرنے کا یہ خواب بھی اب پورا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ سابقہ گورنر پنجاب کی بہاولپور سے وابستگی سے لوگوں کے دلوں میں امید کی ایک کرن جگمگائی ضرور تھی کہ شاید و ہ اس بارے میں کوئی اہم کردار ادا کریں گے؟ مگر اب تو وہ امید بھی ختم ہو چکی ہے ۔سول سیکریٹریٹ کی پنجاب سے جنوبی پنجاب میں منتقلی دراصل انتظامی اختیارات کی منتقلی سمجھی جارہی تھی جو رفتہ روفتہ پھر سے پنجاب سیکریٹریٹ لاہور کی جانب واپس ہو رہی ہے ۔ابھی سابقہ الیکشن کی مہم کے دوران موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف نے احمدپور شرقیہ کو ایک بڑے عوامی جلسے میں احمد پور شرقیہ کو فوری طور پر ضلع بنانے کا اعلان کیا تھا ۔اب تو وفاق اور صوبے میں ان کی ہی حکومت ہے اور اسمبلی میں اکثریت بھی انہیں کی جماعت کو حاصل ہے تو پھر اپنے اس اعلان پر عملدرامد پر تاخیر کیوں ہے ؟ صوبائی سیکریٹریٹ کے بارے میں بھی ان کے اور ان کی جماعت کے وعدہ زیادہ پرانے نہیں ہوۓ ۔آج ہی تو ان پر عملدرآمد ممکن ہونے کا وقت آیا ہے ۔میری اپنے علاقائی نمائندگان اسمبلی اور ارباب اختیار سے اس معاملے پر خصوصی توجہ کی درخواست ہے کیونکہ یہ یہاں کی عوامی خواہشات کا معاملہ ہے ۔آج کل سوشل میڈیا اور اخبارات میں یہ افواہ گرم ہے کہ سول سیکریٹریٹ بہاولپور کو شفٹ یا بند کیا جارہا ہے ۔خدا کرے کہ یہ خبر غلط ہو لیکن بہاولپور کے کئی لوگ اس سلسلے میں عدالت سے رجوع بھی کر چکے ہیں ۔اس سے قبل سی پیک سے محرومی اور بہاولپور ائیر پورٹ کے اپریشن کی بند ہونے سےعوامی مایوسی بڑھ رہی ہے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.